عمران خان کو نیا ایجنڈا بنانا چاہیے
عمران خان کی سیاست اب ایک اہم موڑ پر آ گئی ہے۔ وزیراعظم وہ پہلے ہی بن چکے ہیں، بلکہ اپنی ممکنہ مدت کا ایک چوتھائی یعنی پچیس فیصد (پندرہ ماہ)گزار بھی چکے ہیں۔ ان کے پاس وقت اب بہت زیادہ نہیں رہا۔ اگلے سال ڈیڑھ، دو میں انہیں کچھ کر دکھانا ہے۔ اگر وہ اپنی مدت (پانچ سال)مکمل کر گئے، جو کہ ہمارے ہاں آسان نہیں، تب بھی آخری سال الیکشن کا ہوگا اور اس میں انتخابات کو پیش نظر رکھ کر ہی ترقیاتی کام کئے جاتے ہیں، اصلاحات کا ایجنڈا درمیانے عرصے میں ہی ممکن ہے۔
عمران خان نظام میں تبدیلی لانے کا نعرہ لگا کر قومی سیاست میں نمایاں ہوئے تھے۔ طویل عرصہ سیاست میں برسرپیکار رہے، مگر ان کے ہاتھ ایک آدھ سیٹ کے سوا کچھ نہیں آیا۔ پیپلزپارٹی، ن لیگ کی مفاہمت والی یعنی المشہور مک مکا پالیسی سے عمران خان کو سپیس ملی۔ زرداری اور نواز شریف صاحب نے ایسے بھونڈے انداز میں فرینڈلی سیاست کی کہ ایک بڑے حلقے کو بے وقوف بننے کا شدت سے احساس ہوا۔ لوگ بے شک عقلمند نہ ہوں، مگر وہ یہ پسند نہیں کرتے کہ انہیں بے وقوف بنایا جائے یا اس کا کھلم کھلا اظہارہو۔ اس تاثر کے لئے پنجابی اور سرائیکی سلینگ میں اس کے لئے بڑا سخت اور ناقابل اشاعت سا لفظ ہے۔ اسے شائع نہیں کیا جا سکتا، اگرچہ پنجابی، سرائیکی لوگ اپنی گفتگو میں بلا تکلف اس کا استعمال کرتے ہیں۔ دونوں بڑی جماعتوں نے ایک حلقے، خاص کر پڑھی لکھی اربن مڈل کلاس کو اس کا شدت سے احساس دلایا۔ عمران خان نے اس کرب، احساس کا فائدہ اٹھایا اور اس خلا میں قدم رکھ دیا۔ انگریزی محاورے کے مطابق باقی تاریخ ہے(Rest is History)۔ مجھے ان لوگوں پر ہمیشہ حیرت ہوتی ہے جو اپنی کم فہمی یا بدیانتی کی وجہ سے عمران خان کی مقبولیت کا ذمہ دار جنرل ریٹائرشجاع پاشا کو قرار دیتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ شجاع پاشا لاکھوں لوگوں کو مجبور کر دیں کہ وہ سخت گرمی، حبس اور لو کے دنوں میں بھی عمران خان کے جلسوں میں آئیں بلکہ اپنے بچے کندھوں پر بٹھا کر آئیں؟
عمران خان کی یہ مقبولیت اس کی شخصیت کا کرشمہ بھی نہیں تھی۔ ہمارے صحافی حضرات بدیانتی سے عمران خان کی جیت کے پیچھے ورلڈ کپ 1992ء کا فیکٹر گنواتے ہیں۔ عمران خان کی بطور سیاسی لیڈر کامیابی میں ورلڈ کپ کا کوئی ہاتھ نہیں۔ ایسا کہنا سراسر جھوٹ اورگمراہ کرنے کے مترادف ہے۔ عمران خان کے مخالف طنزاً تحریک انصاف والوں کو کہتے ہیں کہ تمہارا لیڈر ہینڈسم ہے، ورلڈ کپ جتوایا، شوکت خانم بنایا وغیرہ۔ یہ باتیں درست نہیں۔ یہ تمام فیکٹرز تو سیاست میں بے کار اور غیر اہم ثابت ہوگئے تھے۔ اعداد وشمار ہی دیکھ لیں۔ ورلڈ کپ92 جیتنے، شوکت خانم بنانے والے ہینڈ سم اور نوجوانوں میں مقبول عمران خان نے 1997ء میں اپنا پہلا الیکشن لڑا۔ بدترین شکست ہوئی، ایک سیٹ بھی نہیں جیت سکا۔ زیادہ تر جگہوں پر چار پانچ ہزار سے زیادہ ووٹ بھی نہیں ملے۔ ورلڈ کپ کا جادو، شوکت خانم ہسپتال بنانے کی کرشمہ سازی سب بری طرح ناکام ہوئی۔ اس کے پانچ سال بعد الیکشن لڑا تو بمشکل میانوالی کی ایک سیٹ ملی، باقی تمام سیٹیں ہار دی گئیں۔ 2008ء کا الیکشن اس نے نہیں لڑا، بائیکاٹ کیا، اگر نہ کرتا تب بھی ایک دو سیٹوں سے زیادہ کچھ ہاتھ نہیں آنا تھا۔ اس کے پاس الیکشن لڑنے والے لوگ تھے نہ کارکن۔ عمران خان کو مقبول لیڈر بنانے کا سہرا پیپلزپارٹی، ن لیگ کی نورا کشتی والی سیاست کے سر جاتا ہے۔ ہمارے بیشترتجزیہ نگار یہ سامنے کی بات نہیں لکھتے۔ اپنے قارئین کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔ انہیں ماننا چاہیے کہ ملک کی دونوں پرانی بڑی جماعتوں کے مابین مافیا گینگز والے مجرمانہ گٹھ جوڑ کی وجہ سے متبادل قیادت کے لئے خواہش پیدا ہوئی۔ عمران خان نے ٹی وی ٹاک شوز میں اپنے تیز، کٹیلے جملوں، نظام کی تبدیلی کے عزم اور کرپٹ سیاست پر شدید تنقید سے پڑھے لکھے ووٹرز کو اپنا گرویدہ بنایا۔
عمران کے بڑے سیاسی لیڈر بننے میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار نہیں۔ بعدمیں اگرچہ شریف خاندان سے بیزار ہو کر وہ عمران کی طرف متوجہ ہوئے ہوں گے اور اس کی ایک حد تک معاونت بھی کی، مگر لیڈر وہ اپنے بل بوتے پر بنا۔ دنیا کی کوئی بھی خفیہ ایجنسی اپنے تمام تر وسائل اور اختیارات کے باوجودلوگوں کو لیڈر سے محبت کرنے کا نہیں کہہ سکتی۔ یہ ادارے الیکٹ ایبلز کو تو مجبور کر سکتے ہیں۔ مشورہ، درخواست، تجویز، حکم۔ عام آدمیوں کے دلوں کوصرف لیڈر ہی مسخر کر سکتا ہے۔ تیس اکتوبر 2011ء کا جلسہ عمران خان کے لئے ٹرننگ موڑ تھا۔ اس دن تحریک انصاف کے نئے وجود کا آغاز ہوا، یہ عوامی سیاسی جماعت بنی۔ اس سے پہلے یہ فینز کلب تھی، تانگہ پارٹی یا زیادہ سے زیادہ کوسٹر پارٹی کہہ لیں۔ اس جلسہ نے اس نے وہ لہر پیدا کی جس کا اثر دوسرے طبقات تک پہنچا اور معروف سیاستدانوں کا ایک حلقہ عمران کی طرف متوجہ ہوا۔ ورنہ شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، عبدالعلیم خان وغیرہ کو عمران خان پہلے نظر نہیں آ رہا تھا؟
عمران خان کو مقبولیت تین چار نعروں پر ملی۔ اس نے لوگوں سے وعدہ کیا کہ وہ نظام میں تبدیلی لائے گا، تعلیم، صحت، پولیس، پٹوار، بیوروکریسی وغیرہ میں اصلاحات لے آئے گا۔ اہم عہدوں پربہترین، اہل لوگ لگائے گا(Right Man For The Right Post)۔ اس کے ساتھ اس نے عہد کیا کہ وہ کرپٹ حکمرانوں کا احتساب کرے گا، لوٹ مار کا حساب ہوگا، جو مال لوٹ کر باہر منی لانڈرنگ کے ذریعے لے جایا گیا، اسے واپس لایا جائے گا۔ سول سپرمیسی عمران خان کا نعرہ تھا ہی نہیں، کم از کم اس کی سیاست کے فیصلہ کن فیز (تیس اکتوبر 2011 کے بعد) میں یہ عمران خان کا ایجنڈا نہیں تھا بلکہ وہ گڈ گورننس کی بات کرتا تھا۔
عمران خان کو اقتدارمل چکا۔ وزیراعظم کے طورپر وہ اپنی مدت کا ایک چوتھائی گزار چکے۔ ان سے اب سوال ہو رہے ہیں کہ جو وعدے انہوں نے کئے تھے، ان پر کس حد تک پورے اترے؟ یہ جائز سوال ہیں، خان صاحب کو ان کا جواب دینا پڑے گا۔ صرف جذباتی نعروں اور دھواں دھار تقریروں سے بات نہیں نبھ سکتی۔ لوگ اتنے بے وقوف بھی نہیں کہ صرف لفظوں سے بہل جائیں۔ تحریک انصاف کے کارکن اور ووٹرز کا بڑ ا حصہ خاص طور سے اس حوالے سے حساس ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے اقتدار میں آ کر جنہیں وہ کرپٹ حکمران سمجھتے تھے، ان کے ساتھ کمپرومائز نہیں کیا۔ جیسے پیپلزپارٹی نے شروع میں تعاون کی اعلانیہ پیش کش کی، مسلم لیگ ن کی طرف سے شہباز شریف نے میثاق معیشت کی تجویز دی۔ مقصدیہی تھا کہ ہمارے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو، حکومت اس معاملے میں احتساب کرنے والے اداروں (نیب، ایف آئی اے وغیرہ)سے تعاون نہ کرے۔ عمران خان نے ایسا کرنے کے بجائے جارحانہ انداز اپنایا، گاہے غیر ضروری حد تک جارحیت۔
سابق حکمران جن پر کرپشن کے الزامات ہیں، ان سے مفاہمت نہ کرنے، منی لانڈرنگ کیسز کے حوالے سے تحقیقات کرانے، باہر سے پیسے لانے کے لئے کوشش کرناوغیرہ وغیرہ ? ان حوالوں سے تو عمران خان نے اپنے وعدوں اور عزم کو کسی حد تک نبھایا۔ سوائے ان وعدوں کے جو تھے ہی غلط اور مبالغوں پر مبنی، راتوں رات سب کچھ ٹھیک کرنے کے خواب، جو پورے ہو ہی نہیں سکتے تھے۔ اس لئے عمران خان کو سوا سال میں اپنی اس کارکردگی پر دس میں پانچ سے چھ تک نمبر دئیے جا سکتے ہیں۔ کئی چیزوں میں البتہ وہ بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ اچھی ٹیم وہ نہیں دے سکے، اہم عہدوں پر بہترین لوگ نہیں لگائے گئے۔ اس حوالے سے انہیں دس میں سے صرف دو ڈھائی یا زیادہ سے زیادہ تین نمبر مل سکتے ہیں، یعنی فیل۔ انہوں نے نااہل، بدنام، متنازع دوستوں کو عہدے دئیے۔ جیسے نعیم الحق صاحب کو ایوان وزیراعظم بلانے، معاون بنانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ دہری شہریت کے حامل، متنازع زلفی بخاری کو کیا سوچ کر خصوصی معاون بنایا؟میڈیا کے حوالے سے بعض نہایت متنازع شخصیات کو اہم ذمہ داری دی گئی۔ کئی غیر محتاط، بدزبان لوگوں کو اہم وزارتیں دیں۔ شیخ رشید جیسے بے لگام وزرا کو بھی ڈسپلن میں نہیں رکھا۔ سب سے بڑھ کر پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لئے عثمان بزدار اور کے پی کے میں محمود خان کو لگایا۔ عمران خان کے سوا پورے صوبے میں شائد ہی دو چار لوگ ہوں گے جو بزدار صاحب کو وزیراعلیٰ بنانے کا دفاع کر سکیں۔ یہ نہایت غلط فیصلہ تھا، سوا سال سے خان صاحب مگر اس پر ناحق اڑے ہوئے ہیں۔ نظام میں تبدیلی ان کا اہم ترین نعرہ تھا۔ اس حوالے سے کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ پنجاب میں پولیس گردی اہم ترین ایشو ہے۔ اس پر کچھ بھی نہیں کیا جا رہا۔ اصلاحات کے نام پر محکمہ صحت، پنجاب، کے پی کے میں فساد، انتشار برپا ہے۔ تعلیم کے حوالے سے کچھ غیر معمولی نہیں کیا جا رہا۔ سی ایس ایس کے نظام ہی کو بدل دیتے۔ دیگر شعبوں میں بھی اصلاحات نام کی نہیں۔ عمران خان کو اب اپنے مخالفین پر برسنے کے بجائے اپنے لئے نیا ایجنڈا سیٹ کرنا چاہیے۔ جو نعرے لگا کر وہ اقتدار میں آئے، اب ان پر کام شروع کریں، رکاوٹیں آئیں گی، مگر ڈٹے رہے تو سال ڈیڑھ کے اندر ہی بہت کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ عمران خان کچھ کر دکھائے، تب ہی انہیں اگلی بار ووٹ ملیں گے۔ ان کے پاس وقت کم ہے، تاخیر کی گنجائش نہیں۔