نفسیاتی ہراسگی کی کہانی
گزشتہ ہفتے جنوبی پنجاب کی ایک اہم سرکاری یونیورسٹی میں جنسی ہراسگی کا اسکینڈل سامنے آیا، اس سانحے کے بعد ملک بھر میں تہلکہ مچ گیا، دل دہلا دینے والے انکشافات اور ثبوتوں نے جامعات کی اجتماعی کارکردگی کو انتہائی مشکوک بنا دیا۔ جنوبی پنجاب کی کسی بھی یونیورسٹی میں ایسا واقعہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ اس سے قبل لاہور، اسلام آباد، سرگودھا اور کراچی سمیت کئی اہم شہروں کی بڑی جامعات میں بھی جنسی ہراسگی کے اسکینڈلز کی ایک حیرت انگیز فہرست ہے۔
حیرت اس وقت ہوتی ہے جب ایسے واقعات کے بعد ہمارے دانش ور مخلوط نظامِ تعلیم پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں یا پھر ایسے حادثات کو دین سے دوری کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں، اکا دکا لوگ سمسٹر سسٹم کو بھی اس تباہی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جب کہ زیادہ تر احباب کی رائے میں ہمیں خواتین یونیورسٹیز کے قیام پر زور دینا چاہیے تاکہ ہم ایسے اسکینڈلز سے بچ سکیں۔
بہاولپور یونیورسٹی کے حالیہ اسکینڈل سمیت پچھلے چند برسوں میں جن جامعات میں بھی ایسے واقعات رونما ہوئے، ان میں اہم سیاسی لوگ ملوث پائے گئے، پروفیسرز اور جامعات کے اہم ترین عہدیداروں کے نام سامنے آئے جو سٹوڈنٹس کو بلیک میل کرتے تھے، نمبروں اور نوکریوں کا جھانسہ دے کر انھیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے تھے۔
پچھلے چند سالوں میں جامعات سے وابستہ ایسی ہوش ربا کہانیاں سننے اور پڑھنے کو ملیں ہیں کہ اب مزید کچھ سننے کی ہمت نہیں رہی، اب تو درس گاہوں پر لکھتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے۔ درس گاہیں تو درگاہیں ہوتی ہیں، ان سے ہماری ڈگریاں ہی نہیں جذبات و احساسات اور ہمارا ایمان وابستہ ہوتا ہے، وہاں ایسے حادثات ہوں تو دل ہی نہیں خواب بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ ہم گزشتہ چند سالوں سے پاکستانی جامعات میں ہونے والے جنسی ہراسگی کے واقعات پر تو دل گرفتہ ہیں مگرنفسیاتی ہراسگی کے واقعات پر مکمل خاموش ہیں، آپ جامعات سے وابستہ ہوش ربا کہانیاں سنیں، ان میں جنسی ہراسگی سے کہیں زیادہ نفسیاتی ہراسگی کے کیسز نظر آئیں گے۔ ہم جنسی ہراسگی کے واقعات کو مخلوط نظامِ تعلیم کے ساتھ جوڑ کرجان چھڑا لیں گے مگر نفسیاتی ہراسگی کا کیا کریں گے؟ ایسے واقعات تو خواتین یونیورسٹیز میں کہیں زیادہ ہیں، بوائز کالجز میں ان کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے۔
ورکنگ پلیسز پر خواتین تو کیا مرد بھی محفوظ نہیں، نوکری کے لالچ میں مردو خواتین کو جس ذہنی کرب اور ٹارچر سیل میں رکھا جاتا ہے، کیا ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی کمیٹی نہیں بننی چاہیے؟ ابھی کل کی بات ہے کہ پنجاب کے ایک اہم شہر میں سی او ایجوکیشن کو اس بنیاد پر گرفتار کیا گیا کہ وہ خواتین اساتذہ کرام کو تبادلوں اور نوکری کا جھانسہ دے کر ایک عرصے سے جنسی ہراسگی کا شکار کر رہا تھا۔ آج سے تین سال پہلے کراچی کے ایک بینک ملازم نے اس بنیاد پر خودکشی کی کوشش کی تھی کہ اسے اپنے باس کی جانب سے مسلسل ٹارچر کیا جا رہا تھا، اسلام آباد میں تین اہم ترین سرکاری آفیسرز پر عدالتوں میں کیسز زیر سماعت ہیں جن میں کہا گیا کہ انھوں نے اپنے ماتحت کام کرنی والی خواتین پروفیسرز کو نفسیاتی طور پر ہراساں کیا۔
نجی کمپنیوں اور تعلیمی اداروں میں ورکنگ وویمینز کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، کیا اس پر کبھی جے آئی ٹی بنی؟ پاکستانی جامعات میں ہی خواتین کو جن نفسیاتی مسائل کا سامنا ہے، اس پر کبھی بات ہوئی؟ سرکاری و نجی جامعات، کالجز اور سرکاری و نجی دفاتر میں اہم عہدوں پر بیٹھے لوگوں سے کسی نے پوچھنے کی زحمت کی کہ وہ اپنے ماتحتوں کے لیے جلاد کا کردار کیوں ادا کر رہے ہیں؟ ایک خاتون یا پھر مرد جب گھر سے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے نکلتے ہیں، انھیں جن مصائب و آلام کا سامنا کرنا پرتا ہے، اس کی کہانی کون لکھے گا؟
ہمارا مسئلہ صرف جنسی ہراسگی نہیں ہے، جنسی ہراسگی کو آپ مخلوط نظامِ تعلیم سے جوڑ کر بچنے کی ناکام کوشش کہہ سکتے ہیں، بوائز کالجز یا پھر خواتین کالجز و جامعات کا کیا کریں گے؟ جب جامعات میں صنفی امتیاز کے بغیر میل پروفیسر اپنے طالب علم کو، فی میل پروفیسر اپنی طالبہ کو ہراساں کرتی ہے تو اس کا الزام کسے دیا جائے؟ سچ تو یہ ہے کہ ہم ایسے دلائل سے خود کو جھوٹی تسلی تو دے سکتے ہیں مگر ان واقعات کا راستہ بند نہیں کر سکتے۔ راقم نے اپنے گزشتہ وی لاگز میں چند تجاویز پیش کیں تھیں جس سے ممکن ہے ہم ایسے واقعات کو روک سکیں یا پھر بہت حد تک کم کر سکیں۔
حالیہ اسکینڈل کے بعد حکومت نے جامعات میں انسدادِ ہراسگی سیل بنانے پر غور کیا، حکومت کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ مختلف جامعات میں ہراسمنٹ سیل پہلے سے موجود ہیں اور کام بھی کر رہے ہیں، بلکہ کئی جگہوں پر تو اس سیل کی سربراہی بھی خواتین کے پاس ہے، اس کے باوجود ایسے واقعات میں شدت سے اضافہ ہوا۔
ہمیں پرائم منسٹر پورٹل کی طرح ایک آن لائن شکایات سیل قائم کرنا چاہیے، جس کی سربراہی چانسلر یعنی گورنر یا پھر وزیر اعلیٰ کے پاس ہو، جو سٹوڈنٹس آن لائن شکایات بھیجیں، ان کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے اور حکومت خود ہی حرکت میں آئے، ہمیں سمسٹر سسٹم ختم کرنے کی بجائے پرچوں کی پڑتال کا طریقہ کار بھی تبدیل کرنا چاہیے، جامعات کے پروفیسرز اپنے ہی بچوں کا رزلٹ بنانے کی بجائے ایک نیوٹرل ایگزام کمیٹی کے سپرد یہ کام کریں، اس سے بچوں کو نمبروں کا جھانسہ دے کر ٹریپ نہیں کیا جا سکے گا۔ ہمیں جامعات میں سلیکشن کا طریقہ کار بھی شفاف بنانا ہوگا، ہمیں سلیکشن بورڈز بھی نیوٹرل کرنے ہوں گے۔
ہمیں ریسرچ پروپوزل کی منظوری کے لیے بھی ایک نیوٹرل کمیٹی بنانی ہوگی، ہمیں جامعات میں داخلوں کا طریقہ کار بھی شفاف بنانا ہوگا، ہمیں تعلیمی اداروں سے سیاسی مداخلت بھی ختم کرنی ہوگی، ہمیں تعلیمی اداروں میں میوزک کنسرٹ کے ساتھ ساتھ ادبی و اخلاقی موضوعات پر لیکچرز اور سیمینارز کا اہتمام بھی کرنا ہوگا، ہمیں خواتین یونیورسٹیز میں بھی ایک نفسیاتی ہراسمنٹ سیل بنانا ہوگا، ہمیں خواتین پروفیسرز کو بھی سمجھانا ہوگا کہ بچے آپ کے پاس امانت ہوتے ہیں، ان کو ڈگری دیکر بھیجنے کی بجائے آپ فائونٹین ہائوس میں کیوں بھیج رہی ہیں، کل آپ جواب دہ ہوں گے۔ ہمیں تعلیمی اداروں کو بہتر بنانے کے لیے کئی اہم اقدامات کرنے ہوں گے، ہمیں ورکنگ پلیسز کو بھی پرامن اور شفاف بنانا ہوگا تاکہ ہم ایسے واقعات کا قلع قمع کر سکیں۔