Wahdat Ul Wajood
وحدت الوجود
وحدت الوجود نے آنکھ نوفلاطونیت کی گود میں کھولی، پرورش ہندو مت کے اپنیشدوں میں پائی اور لڑکپن پن سے جوانی کا سفر مسلم صوفیاء کی چھتر چھایا میں کیا۔۔
فلاطونیس جو نوفلاطونیت کا سرخیل تھا وہ وجود واحد کا قائل تھا اس کے نزدیک کائنات میں وجود ایک ہی تھا جو خدا تھا۔۔ اس لیئے کائنات بذات خود خدا ہے، یا کائنات خدا سے الگ نہیں۔۔ نوفلاطونیت کے وحدت الوجود کو عیسائیت نے خاصی بریکیں لگائی تھیں۔۔ عیسائیت چونکہ آسمانی مذہب تھا، اس سمے تک اس نے مذہبی ادارے کی شکل اختیار کر لی تھی اگر اس دور میں وحدت الوجود کے تصور کو تسلیم کرکے کائنات و خدا کے فرق کو مٹا دیا جاتا، خالق و مخلوق کے حجاب کو بے حجاب کر دیاجاتا، عابد و معبود کو ایک کر دیا جاتا تو عیسائیت جیسے بڑے مذہبی ادارے کی عمارت دھڑام سے گر جاتی اس لیئے کوئی خاص وجودی نظریات پروان نہ چڑھے عیسائیت کے ہاں۔۔
مگر اس کے برعکس ہندوستان تو ویدوں کی زمین تھی، کثیر تعداد میں دیوی دیوتا تھے، کوئی باقاعدہ centralize مذہبی ادارہ نہیں تھا اس لیے یہاں وحدتِ الوجود کی اٹھان بڑی شاندار ہوئی۔۔ ہندو ازم میں کرما مارگ اور گیان مارگ دو بنیادی اصول ہیں، کرما مارگ کو مسلمانوں کی شریعت سمجھ جو مذہب کی ظاہری شکل کو برقرار رکھنے پر زور دیتا ہے جیسے شریعت ظاہری عبادت ہر اصرار کرتی ہےاس کے مدمقابل گیان مارگ طریقت کا راستہ ہے، گیان مارگ عابد ومعبود کے تعلق سے ماروا ہے گیان مارگ سے ویدانت کا مکتبہ فکر نکلا۔۔
یہ ہندو مت میں پھیلے سیکنڑوں دیوتاؤں و معبودوں کے خلاف ایک ردعمل تھا۔۔ یہ دیوتاؤں کی تقسیم ان کے مراتب، ان کے درجات کی تقسیم ان سب کے خلاف ردعمل میں ویدانت کا مکتبہ فکر ابھرا۔۔ اس کے ایک سرخیل شکنر اچاریہ کے نزدیک "کائنات کی اصل حقیقت برہما ہے، وہی اپنا وجود رکھتا ہے باقی مایا ہے۔۔ "
اپندیشوں میں لکھا ہے کہ ہم سب برہما (حقیقت مطلق) سے نکلے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جائیں گے "
ابن عربی فصوص الحکم میں اسی نوعیت کی بات کہتے ہوئے لکھتے ہیں"ہم سب احدیت سے نکلے تھے اور فنا ہو کر اسی میں جائیں گئے۔۔ "
ویدانت کے اپنیشدوں کے وحدتِ الوجود کی تشکیل میں اہم کردار ہے۔۔ ابو ریحان البیرونی جب غزنوی کے دور میں ہندوستان آیا تو اس نے ان اپنیشدوں کے تراجم کروائے تھے۔
اسی طرح دارا شکوہ نے بھی ان اپنیشدوں کا ترجمہ فارسی زبان میں کیا۔۔ اس ترجمہ شدہ کتاب کا نام سر اکبر رکھا اور یہ دعویٰ تک دارا شکوہ نے کر ڈالا کہ قرآن میں جس کتاب مکنون کا ذکر آیا ہے وہ یہی اپنیشد ہیں۔۔
قاضی جاوید صاحب اپنی کتاب تاریخ و تہذیب میں لکھتے ہیں کہ۔۔ وحدت الوجود خالص ہندوستانی تصور ہے۔۔
ان کا دعویٰ ہے کہ بایزید بسطامی جو اولین وجودی صوفیاء میں شمار ہوتے تھے انھوں نے وحدت الوجود کا درس اپنے ایک ہندوستانی استاد بو علی سندھی سے لیا۔۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے کسی جگہ بایزید بسطامی اور ان کی استاد بو علی سندھی کے متعلق یہی لکھا تھا۔۔
مگر اسلامی وحدت الوجود کی فلسفیانہ عمارت کھڑی کرنےمیں ابن عربی کا بہت بڑا ہاتھ ہے، اندلس میں پیدا ہونے والے ابن عربی اسلامی علوم اور یونانی فلسفے دونوں کو قریب سے دیکھا۔۔ علی عباس جلالپوری اپنی کتاب اقبال کا علم الکلام میں لکھتے ہیں۔۔ "ابن عربی نے نوفلاطونیت کے سرخیل فلاطونیس سے وجودی نظریات قبول کیے"
ابن عربی کا تصور وحدت الوجود ایک سطر میں پرویا جائے تو وہ ابن عربی کے اپنے الفاظ میں کچھ یوں سامنے آتی ہے "وجود مدرک تو خدا ہے اور کائنات اس کے معنی"جس کا انتہائی سادہ الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ خدا لفظ کی طرح ہے اور کائنات معنی کی طرح جیسے معنی کا اصل لفظ ہے ٹھیک ویسے ہی کائنات کا اصل خدا ہے۔۔ یہ معنی اور لفظ کا رشتہ ہے جس میں اصل خدا ہے۔۔ یہ خدا کا ہی وجود ہے۔۔ کائنات اس کے وجود کا اظہار ہے۔۔ اس سے کائنات اور خدا کے درمیان فرق ختم ہو جاتا تھا، بندے اور خدا دونوں ایک ہو جاتے اور عبادات کا کوئی مقصد نہ رہتا نہ جنت و جہنم کا کوئی جواز۔۔ ابن عربی کے نظریہ وحدتِ الوجود پر خوب تنقید ہوئی۔۔ اس کو کفریہ نظریہ کہا گیا۔۔
مشتاق یوسفی نے کہا تھا شاعر جو باتیں شعروں میں لکھ کر داد وصولتا کثے اگر وہی باتیں نثر میں کی جائیں تو لوگ گالیوں کی بوچھاڑ کردیں۔۔ ابن عربی اور مولانا رومی میں یہی فرق تھا۔۔
رومی نے وحدت الوجود کو شاعری کے لبادے میں پیش کیا تو اقبال جو ابن عربی کو گمراہ کہتا تھا وہ خود کو رومی کا مرید ہندی کہلوانے لگا۔۔
رومی نے شاعری میں میٹھے زہر کی مانند وحدتِ الوجود کو گھول کر عوام کو پلایا۔۔ مثوی کی ابتدا ہی جس شعر سے کرتے ہیں وہ کچھ یوں ہے کہ
بشنو از چوں حکایت می کند
واز جدائی شکایت می کند
یعنی یہ بانسری کی آواز نہیں ہے بلکہ بانسری اپنے اصل یعنی درخت سے جدائی کی شکایت کر رہی ہے ٹھیک ویسے ہی روح انسانی اپنے اصل یعنی وجود خدا سے کٹ کر اس دنیا میں آگئی ہے اور بانسری کے ساز کی طرح اس کی روح بھی اپنے اصل سے جدائی میں بے چین ہے۔۔ مولائے روم نے بڑے نفیس اندا، سے وحدت الوجود کو بیان کیا۔۔
ہندستان میں اسلام کے پھیلنے وحدت الوجود کا بڑا کردار رہا۔۔ اسلام میں قبائلیت کا سطحی پن اور عرب کے ریگستان کی خشکی زیادہ تھی، اصل اسلام فلسفیانہ گہرائی اور روحانی چاشنی سے محروم تھا، اگر وہی قبائلی اسلام یہاں پیش کیا جاتا تو شاید ہی کوئی قبول کرتا مگر صوفیا نے اس میں وحدت الوجود کا تڑکا لگایا۔۔ اسلام کو ویدانت کی خراد مشین پر چڑھا کر اسلام کو ہندوستانیوں کے لیئے پرکشش بنایا خواجہ غلام ایک کافی میں کہتے ہیں
احد تے احمد فرق نہ کوئی
واحد ذات صفاتاں نے
برصغیر میں مسلم روشن خیالی کی بنیاد بھی وحدت الوجود بنا۔۔ یہ مذہبی تفریق کو ختم کرتا۔۔ جب ہندو مسلم کا وجود ایک ہی ہے جو خدا ہے تو پھر مذہبی تفریق کیوں کر ہوسکتی تھی۔۔ بھگتی تحریک بھی اسی وحدت الوجود کے بطن سے پھوٹی۔۔ جو ہندو مسلم رواداری کی قائل تھی جو رام رحیم، مندر مسجد، عبدالرحمن کرم چند اور خدا بھگوان کا فرق مٹانے پر اصرار کرتی۔۔ ہندو مسلم کی خلیج کو پاٹنے کے لیئے جس نے پل کا کردار ادا کیا وہ تھا وحدت الوجود۔۔ اس سمے برصغیر میں روایتی ملاں بھی پرورش پا رہے تھے جنھیں ہندو مسلم رواداری ایک آنکھ نہ بھاتی، وہ اسکو جڑ سے کاٹنا چاہتے تھے ان کا خیال تھا کہ اگر اسی طرح ہندو مسلم ایک دوسرے کے قریب آتے رہے تو مسلمانوں کی اپنی تہذیبی شناخت مٹ جائے گئی۔۔ اس سب کے سدباب کے لیے جو شخصیت مارکیٹ میں آئی وہ تھی مجدد الف ثانی کی۔۔
انھوں نے وحدت الشہود کی پھکی دینی شرع کر دی۔۔ جس کے مطابق کائنات اور خدا ایک نہیں دو الگ الگ وجود ہیں۔۔ انسان اور خالق کے درمیان فرق ہے۔۔ وحدت الشہود سے مذہبی تفریق بھی قائم ہوتی تھی۔۔ ہندو مسلم کا فرقئی بھی بڑھتا۔۔ وحدت الشھود مقام عبدیت تک انسان کو رکھتا ہے، وحدت الوجود تو جنون کا نام ہے جو مقام عبدیت سے اٹھ کر ذات حق میں گم ہوجاتا ہے۔۔
وحدتِ الشہود کے خالق مجدد الف ثانی ہندوستانی مسلمانوں کے غزالی ثابت ہوئے جنھوں مسلم روشن خیالی کو جڑ سے سکھاڑ ڈالا تھا۔۔
سولہویں صدی میں ایک اور فرنگی وجودی آتا ہے جو کائنات کے رشتے کو خدا سے جوڑ دیتا ہے۔۔ وہ کہتا ہے خدا کسی اور الگ وجود کا محتاج نہیں۔ نیچر اور خدا ایک ہی چیز ہیں اس فرنگی صوفی جس نام تھا Spinoza.. اس کا مشہور قول ہے۔ God or nature..
خدا اور نیچر دونوں ایک کے یا قدرت بذات خود خدا ہے۔۔
میں اکثر کہتا ہوں کہ وحدتِ الوجود کے لاشعور میں الحاد کنڈلی مار کے بیٹھا ہے۔۔ یہ خاموش الحاد ہے، جس کے پاس اپنا آپ چھپانے کے لیے صوفیانہ عیاریاں ہیں۔۔ فلسفیانہ موشگافیاں ہیں۔۔ باطنی معانی ہیں۔۔ یہ صوفیانہ الحاد ہے۔۔
جب کوئی وجودی صوفی یہ اقرار کرتا ہے، وجود صرف ایک ہے یا کائنات اور خدا ایک ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ خدا ہی کائنات ہے یا کائنات خدا ہے۔۔ اس مقام پر پہنچ کر ایک صوفی وہیں کھڑا ہوتا ہے جہاں ایک ملحد کھڑا ہوتا ہے وہ بھی کائنات کو خدا تسلیم کر رہا ہوتا ہے۔۔ مگر وہ کلمے بغیر والا ملحد ہوتا ہے اور یہ کلمے والا۔۔