Friday, 20 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Ulma e Qadeem Ka Zauq e Moseeqi

Ulma e Qadeem Ka Zauq e Moseeqi

علمائے قدیم کا ذوقِ موسیقی

اکیسویں صدی کے مذہبی علماء خاصے بدذوق واقع ہوئے ہیں، لگتا ہے لطیف جذبات ان کو چھو کر بھی نہیں گزرے، فنون لطیفہ کے پیچھے ہمیشہ "ڈانگ آزمائی" کرتے پائے جاتے ہیں، رقص ان کے نزدیک فحاشی ہے، ڈھول ڈھمکے ان کے نزدیک غیر شرعی ہیں، موسیقی ان کے ہاں حرام ہے، پچھلی صدیوں کے علماء جنھیں یہ بے سرے ملاں اکابر اکابر کہتے نہیں تھکتے وہ تو خاصے اہل ذوق میں سے تھے، ان کے ذوق کا ایک قطرہ بھی اس صدی کے علماء کو نہیں ملا۔

شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کو دیکھیے، شاہ ولی اللہ کے خانوادہ کا بڑا نام، جہاں سے مسلمانان ہند روحانی و دینی فیض پاتے تھے، مگر شاہ صاحب کے ذوق کا یہ عالم، علم موسیقی پر وہ دسترس کہ دہلی کے موسیقاروں میں کوئی فنی اختلاف پیدا ہو جاتا تو تصدیق کے لئے شاہ صاحب سے رجوع کرتے۔

ابوالکلام آزاد کے ذوق موسیقی کے کیا کہنے، کہاں الہلال و البلاغ کا آزاد، کہاں ترجمان القرآن کا شیخ الہند، مگر موسیقی سے دلچسپی کا یہ عالم کے چار سال موسیقار استاد میستا خان کی شاگردی کرکے ستار سیکھنے میں گزار دیے۔

میرے سامنے آزاد کی غبار خاطر ہے۔ مولانا احمد نگر کی جیل میں قید بھگت رہے ہیں، مکتوبات بہ مکتوبات لکھی جارہے ہیں، کبھی فنجان میں پڑی چائے کو موضوع بحث بناتے ہیں، کبھی چینی چائے کی یاد میں آہیں بھر رہے ہیں، کبھی سگریٹ نوشی کے فراق میں سسکیاں، جیل میں جہاں جمالیاتی حسیں مرجھا جاتی ہیں، مولانا وہاں لاسلکی کے اس سیٹ کو یاد کر رہے ہیں جس میں موسیقی سنتے تھے۔

غبار خاطر کا آخری مکتوب کھولیے، اردو میں موسیقی پر اس سے بہتر کچھ نہیں پڑھا، آزاد احمد نگر کے قلعے سے شروع ہو کر کعبہ کے امام المؤذنین کی سریلی آواز تک پہنچتے ہیں، وہاں سے تان حجازی موسیقی سے کھینچ کر مصر ام کلثوم کے گانوں اور وہاں سے یونان کی کلاسیکل موسیقی پر توڑتے ہیں پھر بارہ راگوں اور آسمان کے بارہ برجوں کے تعلق سے لے کر مغرب کی موسیقی سے ہندوستان کی ویدوں کے دور کی موسیقی سے ہو کر امیر خسرو تک کی موسیقی تک سب چند صفحات میں سمیٹ لیتے ہیں، کیا ذوق ہے، کیا مہارت تامہ ہے کیا وسیع مطالعہ ہے، مفسر قرآن موسیقی کے لیکچر دے رہا ہے۔

یہ تو پچھلی صدی کی بات ہے، ابھی اور بھی پیچھے چلئے، تابعین کیا، تبعہ تابعین کیا، صالحین کیا، صحابہ تک کی صفیں اہل ذوق سے بھری ہوئی تھیں، اٹھائیے شرح احیاء العلوم دین، عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب کا ذکر پڑھیے۔

نغمہ سرائی، مزامیر "گا کر پڑھے جانے والے گیت" اور بربط (آلہ موسیقی) کا خاصا ذوق رکھتے تھے، ان کی باندیوں میں بھی کئی مغنیہ تھیں، عبداللہ بن جعفر رضا خود کئی باندیوں کو دھنیں سکھاتے۔

اقتتاس السوانح از شیخ تقی الدین بن دقیق عبداللہ بن زبیر کے حوالے سے لکھتے ہیں وہب بن سنان سے روایت ہے کہ میں نے عبداللہ بن زبیر کو گانا سنتے دیکھا، ابن زبیر کا ہی قول ہے کہ "مہاجر صحابہ میں شاید کوئی ایسا ہو جس کو نغمہ سرائی کا شوق نہ ہو"۔

کہاں اس صدی کے نئے نویلے ملاں جو راگ سر تال سے ناواقف، جمالیاتی حس سے محروم موسیقی پر حرام کے فتوے دیتے جاتے۔

خدا کے پیغمبر داؤدؑ کا لحن داؤدی کیوں بھول جاتے ہیں، احادیث میں لحن داؤدی کو مزامیر داؤدی سے پکارا گیا ہے، مزامیر مزمار سے نکلا ہے جس کا معنی ہے وہ گانا جسے کسی ساز سے گایا جائے۔

زبور کا مطالعہ کریں، ہر باب میں جا بجا خدا کے ہاں نغمہ سرائی کے ساتھ حمد سرائی کی تلقین ہے۔

زبور کے آخری باب نمبر 150 کی آیت نمبر تین تا چار ملاحظہ کیجئے

ترجمہ

"نرسنگے کی آواز کے ساتھ خدا کی حمد کرو، بربط و ستار پر حمد کرو، دف بجاتے ہوئے ناچتے ہوئے اس کی حمد کرو، تاروں، سازوں، بانسری کے ساتھ اس کی حمد کرو، بلند آوز جھانجھ اور زور سے جھنجھناتی جھانجھ کے ساتھ خدا کی حمد کرو"۔

مولانا جعفر شاہ پھلواروی نے "اسلام اور موسیقی" لکھ کر قلم توڑ ڈالا، کیا دلائل ہیں، کیا انبساط ہے، کیا تکلم ہے۔

لخن داؤدی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں "داؤدؑ کے دور میں عبادات کا ظاہری ڈھانچہ رہ گیا تھا، روح نکل چکی تھی، سوز و گذار جو عبادت کا مغز ہے اس کی جگہ سخت دلی، غرور عبادت، دلوں میں خشکی و خشونت پیدا ہو چکی تھی، ایسے میں داؤدؑ نے دل میں سوز و گداز پیدا کرنے کے لیے موسیقی اور اس کے لوازم سے کام لیا"۔

زبور میں موسیقی اور نغمہ سرائی کی باریک سے باریک چیزوں کا خیال رکھا گیا ہے، زبور میں کئی راگوں کا ذکر ہے جن کے ساتھ خدا کی حمد سرائی کرنے کا حکم ہے جیسے شمنیت، شوشنیم، علاموت، مخلت، یونت، سوسن عیدت جن کی سروں کے ساتھ زبور کی تلاوت کی جاتی تھی۔

امام غزالی کی موسیقی کے بارے میں رائے بڑی دلچسپ ہے۔ غزالی نے احیا علوم الدین کی دوسری جلد میں موسیقی پر پورا باب باندھا، غزالی کا کہنا ہے موسیقی غم، شقی القلبی سمیت کئی نفسیاتی عوارض میں شفاء کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کا بعد ایک دلچسپ جملہ کچھ یوں لکھتے ہیں "اگر کسی کو بربط اور اس کے تاروں کے نغمے متاثر نہ کریں وہ فاسد المزاج ہے"۔

یہ متشرع اور قباؤں والے کیا فاسد المزاج ہیں، غزالی نے جانوروں پر موسیقی کے اثرات کا ذکر کیا ہے، حدی یعنی مخصوص نغمون سے تھکا ہارا اونٹ اپنی رفتار تیز کر لیتا تھا، ایک حجازی غلام نے حدی سے سو اونٹوں کو مارا تھا۔

مگر یہ زائد خشک ٹس سے مس نہیں ہوتے، ان پر نہ ہارمونیم اثر کرتا ہے، ان کے بے کیف مزاج کا پیانو کی دھنیں بھی کچھ اکھاڑ نہیں پاتیں نہ ہی تھبلے کی تھاپ ان کثیف مزاجوں کا کچھ بگاڑ پاتی ہے۔

ان سے اورنگزیب عالمگیر ہی بہتر تھا، ٹوپیوں سی کر بھائیوں کو مروانے والا شقی القلب، مجدد الف ثانی کا سیاسی ترجمہ، فتاویٰ عالمگیری کا مؤلف، مگر کسی دور میں زین آباد کی کسی مغنیہ پر فریفتہ ہوگیا تھا اور ذوق و شوق سے گانا سنتا، لکھنے والوں نے تو یہ بھی لکھا کہ گانے کے شوق میں زین آبادی کے ہاتھوں تیار کردہ شراب کے جام پر جام چڑھا جاتا۔

یہاں عالمگیر جیسا خشک مزاج ذوق موسیقی رکھتا تھا وہاں صوفیاء کہاں پیچھے رہتے، رومی کے سوز و ساز سے سے لے کر امیر خسرو کے قوال و ستار تک ایک پوری فہرست ہے سماع و ستار کی۔ رومی کی مثنوی کا پہلا شعر ہی بانسری کے ذکر سے شروع ہوتا ہے۔

بہاؤ الدین زکریا تو اس فن میں ید طولہ رکھتے تھے۔

"کئی راگ اور راگنیاں آپ ہی ایجاد کردہ تھیں، حتی کے "ملتانی دھناسری" بھی ان ہی ایجاد کردہ تھی، یہی وجہ تھی کہ گڑ گاؤں کے سارے میراثی آپ کو اپنا پیر مانتے" (آستانہ زکریا از ڈاکٹر مولوی محمد شفیع)۔

شاہ عبد الحق محدث دہلوی نے اپنی کتاب مدارج النبوت میں امام شافعی کا قول نقل کیا ہے "بنیادی دینی نصوص سے موسیقی کی حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ اسی کتاب میں محدث دہلوی نے امام احمد حنبل کا اپنے صالح نامی بیٹے سے بھی گانا سننے کا ذکر کیا ہے"۔

جہاں اتنے بڑے نام موسیقی میں پیچھے نہ رہے وہاں اکابر اہلحدیث کہاں پیچھے رہتے۔ نواب صدیق حسن بیک وقت نواب آف بھوپال، مجتھد و مفسر ہیں، برصغیر کی جماعت اہلحدیث کے بانیوں میں سے ہیں، وہ اپنی کتاب ابجد العلوم جلد 2 صفحہ 300 میں یہاں تک کہہ دیتے ہیں "میری نظر میں پورے ذخیرہ حدیث میں موسیقی کی ممانعت پر ایک بھی صحیح حدیث موجود نہیں"۔

اب کیا کہیے ان سلفی حضرات کو جو زندگی کی تمام لطیف و جمالیاتی مشاغل سے کنارہ کش خدا کے تیار کردہ جمالیاتی شاہکار جنت میں جانے کا ویزہ کٹوائے بیٹھے ہیں، کیا جنت ایسے بد ذوقوں کو سوٹ کرتی ہے، جہاں اتنی لطیف سے لطیف، باریک سے باریک، لگژری سے لگژری تر چیزوں کا خیال رکھا گیا ہے، کیا اس جنت کی یہ توہین نہیں کہ وہاں ایسے بے سرے، شقی القلب، خشک دل، لطافتی حسوں سے محروم زائد سونے کے تختوں پر اوندھے پڑے ہوں، غلماں سے شراب طہورا پی رہے ہوں، موتی نما شیش محل کیا ایسے آرٹ سے نفرت کرنے والوں کو سوٹ کرتے ہیں۔

کیا آشا بھوسلے کے پرسوز گیت لہو الحدیث ہیں اور ویل چیئر والے رضوی بابے کی گالیاں احسن الحدیث ہیں۔ کیا جگجیت سنگھ اور اے آر رحمان کی میوزک کمپوزیشن حرام ہے اور جھنگ کے مرحوم مولوی کی کافر کافر کی نفرت انگیز صدائیں سننے پر جنت کا باب الریحان کھول دیا جائے گا۔

کون کافر نصرت فتح علی خان کی مدھوش کر دینے والی قوالی، راگوں کا صوتی آپریشن، بے ساختگی میں ڈوبتی سرگم کو حرام قرار دے گا اور لاؤڈ سپیکروں میں ایک ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کی چنگھاڑتی آوازوں کو گوش ہائے فردوس قرار دے گا۔

میں نے تو خود وہ لوگ دیکھے ہیں، جنھوں نے ٹی وی توڑ کے اپنے جماعتی رسالوں میں ان کی اشاعت کچھ اس طرح کی کہ آج بھائیوں نے شیطان کو گھر سے باہر نکال دیا، آج ان جماعتوں کے قائدین اپنے اپنے چینل بنائے بیٹھے ہیں اور ٹی وی سے اترنے کا نام نہیں لیتے۔

ایک دفعہ امام مالک سے کسی نے پوچھا "کیا غنا یعنی گانا حرام ہے"۔

امام مالک نے کہا "غنا کا منکر یا تو جاہل ہو سکتا ہے یا غلیظ الطبع عراقی"۔

طبعی غلاظت میں ہندی عراقی سے کہاں پیچھے رہ سکتے تھے۔ ایسے ہی ایک غلیظ الطبع ہندی نے استاد سلامت علی خان سے کہا تھا "آپ گانا وغیرہ گاتے ہیں یہ تو غیر شرعی ہے"۔

استاد بہر حال استاد تھے، جواباََ ارشادا "شریعت کا تو مُجھے نہیں علم پر اتنا علم ہے کہ اذان میں پورے بارہ سر لگتے ہیں"۔

Check Also

Muzakrat, Kon Kisay Kya De Sakta Hai?

By Najam Wali Khan