Old City
اولڈ سٹی
اولڈ سٹی کی گلیاں ناپتے ایک مقام پر پہنچے تو اسرائیلی فوجی کھڑے تھے۔ گویا ہم اقصی کمپاونڈ پہنچ گئے۔ یہ باب سلسلہ تھا جو مسجد کی مغربی دیوار کی جانب ہے۔ ہمارے یہودی میزبانوں نے بتا دیا تھا کہ وہ ہمارے ساتھ اقصی کمپاونڈ میں داخل نہیں ہوں گے۔ لیکن ہمیں کوئی رہنما تو چاہیے تھا۔ یشائی سولومن کو کچھ دے دلاکر رخصت کیا جاچکا تھا۔ اب غالباََ یشایا نے ایک مسلمان گائیڈ کو فون کیا۔ وہ چند منٹ میں آپہنچا۔ اس کا نام رمزی تھا۔ مجھے رمزی یوسف یاد آیا تو سر جھٹک دیا۔
اب ہم، یعنی پاکستانی گروپ کے ارکان رمزی کی قیادت میں آگے بڑھے۔ اسرائیلی فوجیوں نے ہم سے پوچھا، کون ہو؟ آگے صرف مسلمان جاسکتے ہیں۔ انھیں کلمہ سنایا۔ اس کے بعد دو لطیفے ہوئے۔ ایک یہ کہ حنا پینٹ شرٹ میں تھیں۔ اسرائیلیوں نے کہا، پینٹ پہن کر مسجد میں نہیں جاسکتیں۔ سامنے والی دکان سے اسلامی اسکرٹ خرید کر پہنیں۔ انھیں ایک اسکرٹ یا شرارہ خریدنا پڑا۔ دوسرا مسئلہ یہ ہوا کہ اسرائیلی فوجیوں نے ہم سے کہا، آپ اندر جائیں اور ہمارے گائیڈ رمزی کو روک لیا۔
اب بھائی رمزی کبھی عربی اور کبھی عبرانی میں ہزار کہانیاں سنا رہے ہیں لیکن فوجی افسر نہیں مانتا۔ معلوم ہوا کہ رمزی جلدی میں آتے ہوئے اپنا شناختی کارڈ بھول آئے ہیں۔ اس کے بغیر فوجی انھیں نہیں چھوڑیں گے۔ آخر یشایا نے آگے بڑھ کر فوجیوں سے بات کی۔ کچھ کہہ سن کر رمزی کو اجازت ملی۔
یہاں امتحان ختم نہیں ہوا۔ اندر داخل ہوئے تو مسلمان چوکیدار کھڑے تھے۔ گویا وہ اسرائیلی فوجیوں کی تفتیش سے مطمئن نہیں تھے۔ انھوں نے اپنی تحقیقات کا آغاز کیا۔ کون ہو، کہاں سے تعلق ہے، آئے کہاں سے ہو، پاسپورٹ دکھاو۔ نہیں تو کلمہ سناو۔ سب کو کلمہ سنانا پڑا کیونکہ ان کے پاس امریکی پاسپورٹس تھے۔ میں نے پاکستانی پاسپورٹ دکھایا تو بغیر کلمے کے استقبال کیا۔
باب سلسلہ سے اندر گھستے ہی پہلی نظر ڈوم آف دا روک پر پڑتی ہے۔ مسلمان اسے قبتہ الصخرہ کہتے ہیں۔ قبہ یعنی گنبد اور صخرہ یعنی چٹان۔ یہ گنبد سونے کا بنا ہوا ہے۔ سنہ ترانوے میں اردن کے شاہ حسین نے لندن میں اپنا مکان فروخت کرکے گنبد کے لیے سونے کی پانچ ہزار پلیٹیں فراہم کی تھیں۔
لیکن اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھتے، ایک فلسطینی نوجوان نے تن تنہا ہمیں گھیر لیا۔ ہم نے کچھ پوچھا ہی نہیں لیکن وہ اقصی کمپاونڈ کی معلومات ایسے سنانے لگا جیسے سبق رٹا ہوا ہو۔ میں سمجھ گیا کہ اس پر دھیان دیا تو معاوضہ طلب کرے گا، جبکہ ہمارے ساتھ پہلے ہی ایک گائیڈ تھا۔ لیکن چونکہ رمزی کچھ سست اور گفتگو میں کمزور تھے، اس نوجوان کو موقع مل گیا۔ وہ ہمارے ساتھ چلنے لگا۔
آئیں میں آپ کو مساجد دکھاتا ہوں۔ اس کمپاونڈ میں چھ مساجد ہیں۔ جو مسجد اقصی کے نام سے مشہور ہے، وہ دراصل مسجد قبلی ہے۔ اقصی اس پورے احاطے کا نام ہے۔ اس کے ایک جانب مسجد براق ہے۔ وہاں رسول اللہ نے اپنا پروں والا گھوڑا کھڑا کیا تھا۔
کیا ہم وہاں جاسکتے ہیں؟ میں نے دریافت کیا۔
نہیں، وہ مسجد آج کل بند کی ہوئی ہے۔ یہ سامنے پرانے گنبد والی مسجد قبلی ہے۔ باجماعت نماز یہیں ہوتی ہے۔ آپ ادھر کھڑے ہوجائیں، میں فوٹو کھینچ دیتا ہوں۔ لوگ اس مسجد میں قرآن لاکر رکھتے ہیں اور ان پر اپنے پیاروں کے نام لکھ دیتے ہیں تاکہ انھیں ثواب ملتا رہے۔ کیا آپ قرآن ساتھ لائے ہیں؟ نہیں؟ میں ابھی لے کر آتا ہوں۔
نوجوان ذرا دیر کو غائب ہوگیا۔ مسجد کے دروازے پر بیٹھے ایک بزرگ ہمارے پاس آئے۔ پوچھا، کون ہیں، کہاں سے آئے ہیں۔ ہم نے تعارف کروایا تو خوش ہوئے۔ دوست تصویریں کھینچنے میں مصروف ہوئے تو میں ان سے نام پوچھا۔ انھوں نے بتایا کہ نام خالد ہے، انتظامیہ کے رکن ہیں۔
اب میں مسجد میں داخل ہوا۔ اندر چند افراد نمازیں اور باقی قرآن پڑھ رہے ہیں۔ اچھا خاصا بڑا ہال تھا۔ مرکزی دروازے سے داخل ہوکر پیچھے مڑ کر دیکھا تو حسن اور حسین لکھا ہوا تھا۔ میں نے دیواروں اور چھت کی تصویریں بنائیں۔ دیواروں پر صحابہ اور اہلبیت کے نام لکھے تھے۔
باہر نکلا تو وہ نوجوان کئی قرآن لے کر کھڑا تھا۔ شاید سب ہی نے ایک ایک قرآن لے کر مسجد میں رکھ دیا۔ میں نے ایک نسخہ کھول کر دیکھا، اس پر ناشر کا نام القدس لکھا تھا، اگرچہ وہ چھپا ہوا قاہرہ کا تھا۔ میں نے ایک کاپی اپنے لیے رکھ لی۔ اس نے حیرت سے پوچھا، کیا آپ کے گھر میں قرآن نہیں ہے۔ میں نے کہا، کوئی تین سو ہیں۔ لیکن بیت المقدس کا قرآن نہیں ہے۔ یہ تبرک کے طور پر لے جاوں گا۔
اب میں نے اس سے پوچھا، دوست کیا کام کرتے ہو؟ یا ابھی پڑھائی جاری ہے۔ اس نے کہا، میرے والد اقصی کمپاونڈ کی سیکورٹی میں شامل ہیں۔ لیکن میں بیروزگار ہوں۔ بلکہ ابھی جیل سے نکلا ہوں۔ غزہ حملوں کے بعد سوشل میڈیا پر الٹا سیدھا لکھ دیا تھا جس کی وجہ سے پکڑا گیا اور جیل میں رہا۔ اب کچھ مہینوں تک ملازمت پر پابندی رہے گی۔ اس دوران کمیونٹی ورک اور نیک چال چلن دیکھا جائے گا اور پھر پابندی ختم ہوگی۔ میں نے اسے پچاس شیکل دیے تو خوش ہوگیا۔