Hamare Andar Ka Masoom Bacha
ہمارے اندر کا معصوم بچہ
بنک ملازمت کے دوران مجھے بےشمار لوگوں سے ملنے اور بات کرنے کا موقعہ ملتا رہا ہے۔ میرا سنجیدہ سے سنجیدہ کلائنٹ بھی بہت جلد مجھ سے بےتکلف اور فری ہو جاتا تھا اور اپنے دل کے حال کھول کر بیان کردیتا تھا۔ یہاں تک کہ لوگ اپنے گھروں کی باتیں بھی بڑے اعتماد سے کرلیتے تھے۔ بوڑھے بچے جوان، امیر غریب، مرد وخواتین سب مجھے اپنا ہمدرد اور دوست سمجھتے تھے اور بزنس تعلقات کی بجائے میرئے ذاتی تعلقات بن جاتے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ میری خوش اخلاقی اور ہمدردی کے اظہار کو سمجھا جاتا تھا۔
میرے منیجر کیبن میں ہمیشہ بڑئے بوڑھوں کا خاص طور رش رہتا جو زیادہ تر میرے پاس گپ شپ اور دل کی باتیں کرنے تشریف لاتے تھے۔ رحیم ایارخان برانچ میں تعیناتی کے دوران ایک بہت ہی بااصول، کم گو، سخت گیر اور خشک مزاج ڈاکٹر صاحب شیخ زید ہسپتال کے پرنسپل مقرر ہوئے جو اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کی باعث مشہور تھے۔ لوگ ان کے نزدیک جاتے اور بات کرتے ہوئے بھی ڈرتے تھے۔
پہلی مرتبہ ان سے ملا تو احساس ہوا کہ وہ سخت مزاج ہونے کے ساتھ ساتھ تھوڑے سے اکھڑ اور کرخت بھی ہیں اور غیر ضروری بات کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ خیر دوسری ملاقات میں کچھ بہتری آئی اور میں نے حسب عادت ہلکا پھلکا مذاق کرنے کی کوشش کی تو وہ میری جرت پر بڑے حیران ہوئے شاید انہیں مجھ سے ایسی بے تکلفی کی توقع نہ تھی۔ لیکن میں بھی اپنے فن کا ماہر ہوا کرتاتھا اور یہ فن میں نے اپنے بینکنگ کیریر کے استاد چوہدری محمد رفیق صاحب سے سیکھا ہوا تھا جو ہر عمر کے مرد وخواتین اور بچوں کے ساتھ بےتکلف اور دوست بننے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگاتے ہیں اور آج پچاسی سال کی عمر میں بھی برادر ملک چین کے لوگ ان کی اسی خوش مزاجی کی باعث ان کے گرویدہ ہیں۔ وہ کہا کرتے ہیں کہ انسان کے اندر کا بچپن ہمیشہ زندہ رہتا ہے کیونکہ بچپن معصومیت، خلوص اور بےفکری کی علامت ہے۔
سیکھنے کاعمل جاری رکھنا چاہتے ہو تو اپنے اندر کے بچے کو زندہ رکھو کیونکہ بڑا نہیں بلکہ بچہ ہی سیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر اس بچے کو اپنے اندر قید کرکے رکھو گے تو علم حاصل کرنے اور سیکھنے کا عمل رک جائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ اندر چھپابچہ ایک ہی عمر کا ہوتا ہے اس لیے بوڑھے بچے یا جوان میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ بس ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اس بچے کو تلاش کر لیں۔ شاید میں نے ڈاکٹر صاحب میں چھپا وہ اندر کا بچہ تلاش کرلیا تھا۔ جو خوش ہونے کے لیے بےچین تو تھا لیکن وہ ان کی شخصیت کے رعب تلے کہیں دبا ہوا مچل رہا تھا۔
میں نے پوچھا سر! کیا آپ کو خوش ہونا اچھا نہیں لگا؟ تو وہ مسکرائے اور کہنے لگے بہت اچھا لگا ہے۔ آپ چائے پسند کریں گے؟ میں نے جواب میں ہاں کہی تو ان کی خوشی دیدنی تھی۔ کہنے لگے سارے دن لوگوں سے سر اور جناب، جناب عالیٰ، محترم، قابل احترام جیسے لفظ سن سن کر اپنے آپ کو بوڑھا محسوس کرتا ہوں۔ میں سوچتا ہوں کہ لوگ مجھ سے سیریس لہجہ میں ہی بات ہی کیوں کرتے ہیں؟ مجھے آپ کی بےتکلفی بہت اچھی لگی آپ سے اب آپکے بینک کے کیبن میں ملاقات ہوگی۔
میں سمجھ گیا کہ ان کے اندر کا اُداس بچہ جاگ گیا ہے اور خوش ہونا چاہتا ہے۔ یقیناََ انسانی رویے کی دوریوں کو نزدیکیوں میں بدلنے کا فن اس بچے سے زیادہ کسی کو نہیں آتا۔ یوں ہم چند لمحوں میں پرانے دوست لگنے لگے او ر پھر یہ تعلق بڑے عرصہ تک قائم رہا۔ کوئی اندازہ نہیں کر سکتا کہ انہوں نے مجھے کیسے کیسے لطیفے اور دلچسپ اور یادگار باتیں سنائی اور ہم دونوں اپنی بےتحاشا مصروفیات کے باوجود اپنے لیے ہنسنے اور خوش رہنے کا وقت ضرور نکال لیتے تھے۔ وہ بڑی عمدہ سوچ اوربڑی مثبت اور نفیس مزاح کی حس کے مالک تھے۔ اسں لیے کہتے ہیں کہ آپکا ظاہر جیسا بھی ہو آپکے اندر کا انسان معنی رکھتا ہے۔
کئی دن سے شرارت ہی نہیں کی
میرے اندر کا بچہ لاپتہ ہے
میں نے ملازمت کے دوران ملکی اور غیر ملکی سالانہ کانفرسز کے گالا ڈنرز کے دوران اپنے بڑے بڑے افسروں اور بزرگ ساتھیوں اور عام زندگی میں بے حد سنجیدہ ہم پیشہ افراد کو اپنےچیف ایگزیکٹیو اور صدور تک کے ساتھ ساتھ دنیا سے بے نیاز خوشی اور مسرت سے رقص کرتے دیکھا ہے۔ یہی وہ لمحات ہوتے ہیں جب ہم میں چھپا بچہ ایسے ماحول میں ایک دم سب سے بےنیاز ہو کر سامنے آجاتا ہے۔
اس وقت وہ سب معصوم بچوں کی طرح اپنے عہدے، عمر اور جسامت کو بھول کر خوشی کی یہ حرکتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی سب کچھ کھیل کے میدان میں جیتنے کے بعد دیکھنے کو ملتا ہے جب فتح کا جشن مناتے ہوئے پوری دنیا کے سامنے مختلف انداز میں رقص کرکے اور بچوں کی طرح عجیب حرکتیں کرکے اپنی خوشی کا اظہار نوجوانوں کے ساتھ بڑے بوڑھے بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ میں ایک ایسے ڈاکٹرز کے کنووکیشن میں شریک تھا جہاں ڈگریاں لینے کے بعد انہوں نے خوشی کا اظہار کرنے میں بچوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا اور جوش میں اپنے کیپ فضا میں اچھال دئیے۔
کچھ دن قبل ایک شادی کی تقریب میں سب بچپن کے کلاس فیلوز شریک تھے جو زیادہ تر پروفیسر لیول کے ڈاکٹرز تھے لیکن ان کی گفتگو اور بےتکلفی دیکھ کر یہی لگتا تھا کہ وہی پرائمری کے بچوں کی محفل جمی ہوئی ہے۔ گذشتہ روز دنیا پور میں ہم چند پرانے دوست اکھٹے ہوئے تو ہمارے اندر کے بچے باہر نکل کر آگئے۔ ہماری گفتگو اور قہقہے سن کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ ہم سب ستر سالہ بوڑھے ہیں اور سب دل اور شوگر کے مریض بھی ہیں ہم سےکئی نے یا تو بائی پاس آپریشن کرایا ہوا تھا یا پھر کئی کئی سٹنٹ ڈالو کر ادویات کے سہارے زندہ ہیں۔
کہتے ہیں کہ اپنے اندر کے معصوم بچے کو کبھی مرنے نہ دیں کیونکہ حد سے زیادہ سمجھدار اورسنجیدہ رہنا آپ کو وقت سے پہلے بوڑھا کردیتا ہے۔ ہر انسان کے اندر ایک بچہ چھپا ہوتا ہے جو اپنے ارد گرد خوشیاں دیکھنے کا آرزو مند ہوتا ہے۔ جو اپنے ہم جولیوں اور ہم عمر ساتھیوں کی صحبت میں ہنسنا اور ہنسانا چاہتا ہے۔ جب ہم اپنے اندر کے بچے کو سلامت رکھتے ہیں تو ہم دنیا کو سادگی اور محبت سے دیکھنے لگتے ہیں۔ چھوٹی خوشیاں بڑی لگنے لگتی ہیں۔
ہم زندگی کے چیلنجز اور مسائل کا سامنا ہلکے پھلکے انداز میں کرتے ہیں۔ اندر کا بچہ ہمیں تخلیقی اور تعمیری بناتا ہے اور دوسروں کے ساتھ ہمدردی کرنے اور نئے نئے تجربات میں دلچسپی لے کر انہیں انجام دینے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ یہی بچپن کا جذبہ ہمیں زندگی میں آگے بڑھنے اور اسکے ہر لمحہے سے لطف اندوز ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔ یہ بچہ خواب دیکھتا ہے یہ مٹی کےگھر بنانا چاہتا ہے۔ یہ شرارت کرنا چاہتا ہے۔ یہ صرف مسکرانا ہی نہیں قہقہہ بھی لگانا چاہتا ہے۔ یہ خوش ہونا چاہتا ہے۔ اندر کا بچہ مر جاےتو انسان کا احساس بھی مر جاتا ہے۔
ذرا سوچیں کہ جب ہم بڑے ہوتے ہیں تو ہمارے اندر کا بچہ مر کیوں جاتا ہے؟ بچپن کی یادوں کو ہر شخص حسین اور ناقابل یقین سمجھتا اور کہتا ہے تو پھر اس دور میں رہنا کیوں نہیں چاہتا؟ ہم بڑے ہوتے ہی اس بچے کو اپنے اندر کہیں چھپائے رکھتے ہیں اور سنجیدگی، متانت اور رعب کا ایک خول چہرے اور شخصیت پر سجا لیتے ہیں۔ آئیں ایک دفعہ پھر سے بچہ بن کر اس معاشرئے میں معصومیت کے پھول بکھیریں اور اس کی اصلاح کا بوجھ اٹھائیں اور وہ بچہ بنیں جو غریب، امیر، بڑا، چھوٹا، انسان۔ حیوان، خوشی اور غم، مجبوری اور مغروری، ظلم اور جبر کے فرق کو نہ سمجھتا ہو۔
پہلے بچپن کی خوبصورتی، پرکشش ماحول اور خوبصورت مہک اس لیے پھیلتی تھی کہ یہ بچہ خوبصورتی اور خوشبو اپنے محلے اور گلی میں اپنے ہمراہ ساتھ لاتا تھا اور اس کی معصومیت بھری باتوں اور حرکتوں سے بڑے اور چھوٹے سب لطف اندوز ہوتے تھے۔ کیونکہ باہمی دوریاں ختم کرنے کا فن ان معصوم بچوں سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ اسی لیے یہ بچے اچھے لگتے ہیں کہ یہ لڑ کر بھی خود ہی صلح کر لیتے ہیں۔ ان کے درمیان صلح کرانے کے لیے کسی کو مداخلت نہیں کرنی پڑتی۔ یہ نہ معافی مانگتے ہیں اور نہ ہی معافی منگواتے ہیں۔
حسد و بغض سے پاک یہ وہ پھول ہوتے ہیں جو کبھی نہیں مرجھاتے۔ یہ اپنا جیب خرچ بھی آپس میں بانٹنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ یہ اپنے حصے کی خوشیاں بانٹ کر محبتیں خرید لیتے ہیں۔ ان کی خوشبو سے پورا گلی محلہ ہی نہیں بلکہ پورا معاشرہ مہکتا ہے۔ ان کے پر خلوص اور چاہت کا اظہار کرتے مسکراتے اور چمکتے دھمکتے چہرئے باہمی دوریاں پیدا ہی نہیں ہونے دیتے ہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ بچے من کے سچے ہوتے ہیں۔
آئیں اپنی جھوٹی انا کے بت توڑیں اور اپنے اندر سے انہیں شرارتی اور معصوم بچوں کو باہر نکالیں اور اسی چاہت، محبت، سادگی، اپنائیت اور دلکشی سے اپنے ز الفاظ اور زبان کو پاکیزگی اور ہمدردی کے سانچے میں بدل دیں۔ یہ اس گھٹن زدہ معاشرے میں خوشیاں بکھیرنے کی کوشش یقیناََ آپ کا معاشرے پر احسان عظیم ہوگا۔ ایک دانشور کا قول ہے کہ انسان دوبار جنم لیتا ہے پہلی بار کوکھ کے اندرسے اور حتمی بار اپنے ہی اندر سے!