Marx Mat
مارکس مت
سوشلزم سے ابتدائی تعارف مولانا وحید الدین خان کی کتاب اسلام اور سوشلزم پڑھ کر ہوا تھا۔۔ یہ تعارف خاصا مارکس شکن تھا۔۔ وحید الدین خان صاحب نے بڑی تگڑی تنقید کی تھی سوشلزم پر۔۔ اردو لٹریچر میں سوشلزم پر خان صاحب جیسی تفصیلی اور کچھ حد تک میعاری تنقید کم ہی پڑھنے کو ملتی ہے۔۔ خان صاحب کے مارکس شکن تعارف کی کڑواہٹ بعدازاں سبط حسن کی کتاب موسی سے مارکس تک اور علی عباس جلالپوری کی تحریریں پڑھ کر دور ہوئی۔۔
سبط حسن اور علی عباس جلالپوری کو پڑھتے ہوئے قاری خوامخواہ کا خود کو چے گویرا کا پتر سا محسوس کرتا ہے، مزدور ایویں ہی کوئی طلسماتی طاقت نظر آنے لگ جاتے ہیں جن کی بغاوت و انقلاب سے کسر سرمایہ داری کے کنکر گریں گے۔۔ جن کے انقلاب کے نعروں سے بورژوا کے شیش محل پاش پاش ہوں گے۔۔ اس طرح کے ہلکے ہلکے کامریڈی دورے ہمیں بھی پڑے اور میں بھی ولادی میر لینن سے کم درجے کا کامریڈ کا نہیں سمجھتا تھا خود کو۔۔
مارکسزم کا بخار زیادہ عرصہ نہیں رہا۔۔ مارکسزم پر جو فلسفیانہ تنقید پرویز نے کی ہے وہ کمال کی ہے۔۔ مگر اتنی ہی مختصر ہے۔۔ پرویز کی کتاب انسان نے کیا سوچا میں اشتراکیت والے حصے میں پرویز کی تنقید موجود ہے۔۔ بہر حال میں مارکسزم پر وسیع لٹریچر پڑھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مارکسزم ایک عقیدے کا نام ہے۔۔ جیسے مذہبی عقائد ایمان بالغیب کا تقاضا کرتے ہیں وہی حال مارکسزم کا ہے۔۔ مارکسزم کے اوتاروں نے سوشلزم کو مزدوروں کا اکلوتا مذہب بنانے کی بھرپور کوشش کی۔۔
مگر پیغمبر بے کتاب کے بغل میں نہ تو صلیب تھی اور نہ تجلی۔۔ اس لیئے کلیم بے تجلی کا حال مسیح با صلیب کی طرح ہوا۔۔
میں ہمیشہ سوچتا ہوں مارکس نے آنکھ جرمنی میں کھولی۔۔ پلا بڑھا یورپ میں۔۔ لکھا انگلینڈ میں۔۔ مگر اس کے نظریات قبول کیئے تیسری دنیا کی پسماندہ عوام نے۔۔ جہاں غربت و بھوک مری تھی۔۔ عوام کو روٹی کو حصول ہے لیئے شدید مشقت کرنا پڑتی۔۔ جہاں پیداواری عمل میں عوام ایک پرزے سے زیادہ حثیت نہیں رکھتی تھی۔۔ جہاں لوگوں ریاستی بدمعاشوں کے رحم وکرم پر ہوتے۔۔ جہاں ایک طرف گھاس پھوس کی جھونپڑی میں لیٹے غریب کی نیند برسات کے خوف سے اڑ رہی ہو اور دوسری طرف امراء کے سنگ مرمر کے محلات میں شراب کے جام انڈیلے جارہے ہوں۔۔ شباب عریاں ہو کر امراء کی بصارت کو تسکین پہنچائے۔۔ وہاں غریب عوام سوچتی ہے کہ یہ طبقاتی تقسیم کیونکر ہے۔۔
ہم کیوں دن بدن روٹی کی تلاش میں زمین میں دھنستے چلارہے ہیں۔۔ جب غریب کے خیالات کے گھوڑے ہانپنے لگے جاتے ہیں تو وہ ہار مان کر اپنی غربت و افلاس کی ذمہ داری کسی پر ڈال کر نفسیاتی کرب سے آزاد ہونا چاہتا ہے۔۔ مذہب یہاں سے جنم لیتا ہے۔۔ غریب کو اپنی حالت کی ذمہ داری خدا پر ڈالنے کا جواز بخشتا ہے۔۔ اس سے غریب کی افلاس تو دور نہیں ہوتی مگر افلاس کہ تکلیف سہنی آسان ہوجاتی ہے۔۔
جہاں مذہب کمزور ہو اور غربت و افلاس نے پنجے ڈالے ہوں وہاں جب غریب کو اپنی حالت کا زمہ ٹھرانے کے لیئے خدا نہیں ملتا تو وہ کوئی اور سہارا ڈھونڈ لیتا ہے۔۔ جیسے سرمایہ دار۔۔ خدا سے تو وہ لڑ نہیں سکتا اس لیئے تقدیر کی افیون پی کر ٹن رہتا ہے مگر سرمایہ دار سے وہ لڑ سکتا ہے۔۔ اسے اپنی غربت کہ وجہ امیر میں نظر آنے لگ جاتی ہے جو خدا کی طرح مافوق الفطرت نہیں ہے بلکہ اسی جیسا انسان ہے۔۔
جب غربت سے پیدا ہوا فرسٹریشن ایک خاص حد کو پہنچ جائے تو وہ غریب کے دل میں امیر سے دولت چھیننے کی خواہش پیدا کرتی ہے۔۔ اب اس خواہش کو آپ نام مارکسزم کا دے دیں، یا مزدکیت کا یا انقلاب کا۔۔ "فارمولہ وہی ہوگا بس کمپنی تبدیل ہوگی"۔۔
جہاں بھی اشتراکیت کا بخار عوام کو چڑھا چاہے روس ہو، چین ہو، کوریا کو یا کیوبا۔۔ ان سب میں عوام کی حالت ایسی ہی تھی۔۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے بھوک و افلاس کے یہ حالات تو تیسری دنیا کے اور ملکوں میں بھی تھے مگر اشتراکیت کا بخار دنیا کے ان حصوں میں کیوں آیا تو پہلا عرض کیا جاچکا ہے۔۔
جہاں مذہب کمزور ہو وہاں اپنی خراب حالت کا ذمہ دار ٹھہرانے کے لیئے کوئی نہ کوئی جواز تراشا جاتا ہے۔۔ چین میں باقاعدہ مذہب کا کوئی ادارہ تھا نہیں۔۔ صرف کفویشزم کی کمزور روایات ہی تھیں۔۔ کوریا کا بھی یہی حال تھا۔۔
وہاں عوام کو لگا کہ ہم امیر سے کھینچ کر امیر ہو جائیں گے۔۔ ہمارے حالات بدل جائیں گے۔۔ مگر ایسا ہوتا نہیں۔۔ ترقی کبھی چھیننے سے نہیں ہوتی۔۔ کارل مارکس نے اپنی کتاب کمیونسٹ مینوفیسٹو میں violent revolution کا تصور دیا ہے جس میں مزدور سرمایہ دار سے ذرائع پیداوار چھین کر آپس میں برابر تقسیم کر دیں گے۔۔
یہ اپروچ ڈاکوں یا لٹیروں کی ہوسکتی ہے۔۔ جو ڈاکہ ڈالنے کے بعد لوٹ کا مال خود بھی برابر بانٹ لیں۔۔ جب ڈاکو سے پوچھا جائے کہ اس نے یہ ڈاکہ کیوں مارا تو وہ کہے کہ یہ ہمارا ہی مال تھا جس پر استحصال سے قبضہ کیا گیا ہے ہم نے ڈاکہ نہیں مارا بس اپنا مال واپس لیا ہے۔۔
کیا ایسے "انقلابی"ڈاکو کو تمغہ اشتراکیت سے نوازا جائے گا یا لتروں کے آگے رکھا جائے گا۔۔
سرمایہ دار کو گالی والے مزدور یہ نہیں سوچتے۔۔ سرمادار نہ ہوتا تو وہ روزگار کہاں سے حاصل کرتے۔۔ سرمایہ دار ہمشیہ ویژنری ہوتا ہے۔۔ جو مزدور اور مشین کے اشتراک سے پیدواری عمل بڑھاتا ہے۔۔ اگر مزدور اتنا ہی قابل تھا تو وہ سرمایا دار کو گالیاں کڈنے کے بجائے خود کیوں اشتراکی کارخانہ لگا سکا۔۔
کیوں مزدور خود سرمایہ دار کے استحصالی کارخانے مدمقابل مارکسزم کی بھاپ پر چلنے والا کارخانہ لگا سکے۔۔ یہی فرق ہوتا ہے مزدور اور سرمایہ دار میں۔۔ مزدور ایک ریوڑ ہوتے ہیں۔۔ جو صرف اجرت ہی زبان سمجھتے ہیں ویژن کی نہیں۔۔
مارکسزم تیسری دنیا کی محرومیوں کا ایک اظہار تھا۔۔ یہ اظہار اگر مارکسزم کی صورت میں نہ ہوتا تو کسی اور صورت میں ہوجاتا۔۔ oliver Roy جو اسلامی بنیاد پرستی پر ایک سند کی حثیت رکھتے ہیں۔۔ وہ اپنی کتاب failure of political Islam میں ایک بہت دلچسپ دعویٰ کرتے ہیں۔۔
"ان کے نزدیک اسلامی دنیا جو تیسری دنیا شمار ہوتی ہے وہاں اٹھنے والی سیاسی اسلام کی تحریکیں سوشلسٹ تحریکوں سے متاثر تھیں۔۔ "
بذات خود اشتراکی تحریکیں تیسری دنیا کی پیدوار تھیں۔۔ تو سیاسی اسلام کی تحریکیں بھی تیسری دنیا کی محرومی کا غیر اشتراکی تسسل ہی ہے۔۔ چاہے وہ جماعت اسلامی ہو یا اخوان المسلمین۔۔ دیکھا جائے تو اس نوعیت کی اسلامی بنیاد پرستی کی تحریکوں کے بانی مدارس کے فضلا نہیں تھے بلکہ جدید مغربی تعلیم سے مسلح لوگ تھے۔۔ چاہے وہ حسن البنا ہو یا سید قطب یا مولانا مودودی۔۔ اس میں کوئی بعید نہیں کہ وہ کہیں نہ کہیں انھوں نے سیاسی اسلام کو اپنے لاشعور میں مشرف مارکس مت کرکے قابل عمل بنانے کی کوشش کی ہو۔۔
مگر مارکس مت نے جہاں ناکامی کا سامنا کیا وہی حال سیاسی اسلام کا بھی ہوا۔۔ کیونکہ یوٹوپیا خیالات کی دنیا میں اچھے لگتے ہیں۔۔ جب وہ خیالات کا باڈر کراس کرکے حقیقی دنیا میں آجائیں تو مارکس مت کی طرح پاش پاش ہو جاتے ہیں۔۔