Friday, 18 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Chemicals Ka Locha

Chemicals Ka Locha

کیمیکلز کا لوچا

منو بھائی باکمال کالم نگار تھے۔ "گریبان"کے عنوان سے کالم لکھتے، اور الفاظ کے تیشے سے کئی گریبان چاک کرتے، منو بھائی نے اپنے ایک کالم میں میجر کے گھوڑے اور اس کے انجام کا ذکر بڑے دلچسپ انداز میں کیا تھا، منو بھائی نے لکھا تھا "میجر کے گھوڑے نے تین حوالداروں، چار صوبیداروں کو لاتیں رسید کرنے کے بعد آخری لات بم کو دے ماری"۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک کو دیکھ کر مجھے میجر کا گھوڑا اور اس کی آخری لات یاد آرہی ہے، نائیک صاحب نے انڈیا میں ہندو مت کے مذہبی حوالداروں، اور یورپ میں کلیساء کے صوبیداروں کو ساری عمر مناظروں میں لاتیں رسید کرتے رہے اور آخری لات دورہ پاکستان کرکے بم کو دے ماری۔

ذاکر نائیک صاحب نے ساری عمر غیر مسلموں کے ساتھ تکرار کرتے اور ان کے سوالات کا جواب دیتے گزاری ہے، کبھی ان کا واسطہ اپنے ہم مذہبوں سے نہیں پڑا، جن جیسا بننے کی تلقین وہ یورپ میں جاکر غیر مسلموں کو کرتے رہے، ذاکر نائیک کے بڑے سارے سیشن یورپ، انڈیا وغیرہ میں ہوتے رہے، جہاں ان کی آڈینس غیر مسلم تھی، وہاں پر بائیبل کے رٹے ہوئے چیپٹر فر فر انگریزی میں اگل دینے سے دوکانداری چل جاتی تھی، اگر کوئی سوال بھی کردے تو وہ تقابل ادیان کے متعلق ہوتا۔ جس کے بعد سوال کرنے والا اکثر شف شف سرکار کے مریدوں کی طرح کلمہ پڑھ کے مسلمان ہو جاتا۔

مگر اس بار ڈاکٹر ذاکر نائیک اسلام کے گڑھ میں تشریف لائے ہیں، ضیاء کے بعد چونکہ اسلام کا گڑھ حجاز سے یہاں منتقل ہوگیا ہے، ہم عربوں سے مقدار میں کچھ زیادہ ہی مسلمان ہو گئے ہیں یا بقول یوسفی باؤلے ہوگیے ہیں، ہم مذھبی کے بجائے عاشق ہیں، عشق میں جنون ہوتا ہے، مذہب سے عشق institutelized religion سے فرار کا نام ہے، بڑا مذھب ڈسپلنڈ کا تقاضا کرتا ہے، ڈسپلنڈ سے اکتانے والے لوگ عشق کی راہ لیتے ہیں۔

عشق والا معاملہ خاصا حساس ہے، یا تو ڈسپلنڈ مذھب سے فرار حاصل کرنے والے تصوف میں پناہ ڈھونڈتے ہیں، یہ بابا بلھے شاہ، منصور حلاج، بایزید بسطامی بنتے ہیں اور اگر عشق کے کیمیکل زرا سے بھی اوپر نیچے ہو جائیں تو پھر کیمیکل کا لوچا ہو جاتا ہے، وہی والا لوچا جو لگے ریو منا بھائی مووی میں سنجے دت کو ہوجاتا ہے، جس میں اسے گاندھی جی کے بارے میں زیادہ سوچنے پڑھنے اسے گاندھی جی ہر طرف دیکھائی دینے لگتے ہیں اور خیالاتی گاندھی کو حقیقت سمجھنے لگتا ہے۔

اسی کیمیکل کے لوچے سے غا زی علم ال دین، ممتاز قادری بنتے ہیں۔

پھر اوتار اور نبی آکر خود بھی کہیں یہ جو کچھ تم کر رہے ہو وہ ہماری تعلمیات نہیں تھیں۔ تو کیمیل لوچے کے شکار لوگ کہیں گے آپ غلط کہہ رہے ہیں۔ ہم ٹھیک ہیں۔

ذاکر نائیک صاحب اسی کیمیکل لوچے میں مبتلا مسلمانوں کے ملک میں آئے ہیں، ساری عمر کافروں کو انگریزی میں اسلام کی تبلیغ کرتے رہے، جب اصل اور پیدائشی مسلمانوں سے واسطہ پڑا تو ہاتھ پاؤں پھول گئے، رقاص سٹیج پر کھلتا ہے ٹھیک ویسے ہی مبلغ صاحب کی بائبل اور اشلوکوں کے رٹے کی قلعی اپنے ہم مذہبوں کے بیچ اترنی شروع ہوگئی۔

آئے دن کوئی نہ کوئی بلنڈر وجا رہے ہیں۔

برادر، سسڑ آسک آ گڈ کوسچین والا سین کافروں کے دیس میں ہوتا تھا، جہاں آپ یہ منجن بیچ سکتے تھے کہ اسلام کو دیکھنا ہے تو آج کے مسلمان کو نہ دیکھو، گاڑی جتنی مرضی اچھی ہو اگر ڈرائیور خراب ہوگا تو گاڑی ٹھوک دے گا، اس میں قصور گاڑی کا نہیں ہے ڈرائیور کا ہے۔

حضرت مذھب گاڑی نہیں ہوتا، مذھب کتابوں سے زیادہ عادات میں نظر آتا ہے، مذھب فلسفہ تو ہوتا نہیں جسے کتابوں میں فریم کروا کے رکھ لیا جائے اگر یہ اپنا آپ اقوام کی عادات میں سرایت نہ کروا سکے تو قصور ڈرائیور کے ساتھ ساتھ گاڑی کا بھی ہوتا ہے۔

اب آپ بچیوں کو غیر محرم سمجھ کر ان کے سر پر دست شفقت رکھنے سے گریز کریں تو سوچ آپ کو کس نے دی۔

سنگل وومن کو پیبلک پراپرٹی کہہ کر آپ کس منہ سے ایک غیر مسلم عورت کو اسلام کی دعوت دے سکیں گے آسلام عورت کے حقوق کا ضامن ہے۔

کیمیکل کا لوچا خاص کر برصغیر کے مذھبی میں پایا جاتا ہے۔ بس اس کے کور وقت کے حساب سے اترتے رہتے ہیں۔ جیسے آجکل ڈاکٹر صاحب کے اتر رہے ہیں۔

Check Also

Hum Kis Liye Likhte Hain?

By Nasir Abbas Nayyar