Brahmanism
برہمن ازم
یہ قصہ شروع ہوتا ہے دوہزار قبل از مسیح سے جب وسطی ایشیاء کی وسیع وعریض چراہ گاہوں اور پہاڑوں سے قبائل کوہ ہندوکش کے راستے برصغیر میں اتر آئے۔۔ یہ قبائل خالص جنگجو تھے، گھوڑے پالتے۔۔ خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے، جب وہ برصغیر میں آئے تو یہاں اس وقت وادی سندھ کی تہذیب اپنے دن پورے کر رہی تھی۔۔ ان شمالی قبائل کا سامنا جب سندھ کے باشندوں سے ہوا تو انھیں خاصا کمزور پایا۔۔ ہڑپہ اور موئنجودڑو کے لوگ خاصے پرامن تھے۔۔ جنگ و جدل سے واقف نہ تھے۔۔ مگر انھوں نے آریائی قبائل کا مقابلہ بڑی جانفشانی سے کیا۔۔ مگر بالآخر ودیشی حملہ آوروں نے سندھ کے لوگوں کو محکوم کرکے غلام بنالیا۔۔ یہ غلام آریہ قبائل کے مشترکہ غلام ہوتے۔۔
سید سبط حسن اپنی کتاب پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء میں لکھتے ہیں کہ۔۔ "رگ وید میں چار ٹانگوں والے اور دو ٹانگوں والے پسؤں کا ذکر ہے۔۔ "پسو سنسکرت میں اس جانور کو کہا جاتا ہے جو رسی سے بندھا ہوا۔۔ یہ دو ٹانگوں والے پسؤں وہی غلام تھے جنھیں بعد ازاں شود بنا دیا گیا۔۔ "
آریاؤں نے باقاعدہ غلامی کا کوئی ادارہ قائم نہ کیا۔۔ بلکہ اپنے محکوم لوگوں میں رشتے بھی قائم کیے۔۔ ان رشتوں کے قائم ہونے سے حاکم و محکوم کا فرق مٹنے لگا تو آریاؤں نے ان دیوتاؤں کو جگایا جو وہ اپنے ساتھ وسطی ایشیاء سے ساتھ لائے تھے۔۔ اب ان کے خداؤں پر ہندوستان کا رنگ چڑھ گیا تھا۔۔ یہ آریائی قبائل حکمرانی کے فن سے اس وقت تک ناآشنا تھے۔۔ برصغیر میں ریاستی طاقت کا فقدان تقاضا کر رہا تھا نئے سماجی ڈھانچے کا، یہ ڈھانچہ کھڑا کیا آریاؤں نے۔۔ انھوں نے سماج کو چار ذاتوں میں تقسیم میں کر دیا۔۔
برہمن، کھشتری، ویش اور شودر۔۔ برہمن مذہبی طاقت تھے، کھشتری فوجی طاقت، ویش معاشی طاقت اور شودر وہی لوگ تھے جن کی زمین پر آریہ قبائل نے قبضہ کرکے انھیں اپنا محکوم بنا لیا۔۔ شودر ہندوستان کے اصل باشندے تھے۔۔ شودروں کی حثیت مزدوروں سے زیادہ نہ تھی وہ un skilled labour تھے۔۔ یہ ٹھیک ویسی ہی تقسیم تھی جیسی افلاطون نے سماج کی تقسیم کی تھی۔۔ وہ اپنی شہرہ آفاق کتاب ریپبلک میں لکھتا ہے کہ "ریاست کی حکمرانی فلاسفر کے پاس ہوگئی۔۔ سپاہی فوجی طاقت ہوں گئے اور کسانوں کا درجہ ویش کی طرح ہوگا اور غلاموں کی حثیت افلاطون کی ریپبلک میں شودروں کی ہوگی"۔۔
آریاؤں نے طبقاتی تقسیم تو کر دی مگر اس تقسیم کا جواز قائم کرنے کے لیے انھیں مذہب کہ ضرورت پر گئی۔۔ یہ نظریہ دیا گیا کہ برہمن کو دیوتا نے منہ سے بنایا ہے، کھشتری کو بازوں سے اور شودر کو پاؤں سے۔۔ طبقاتی تقسیم میں مزید سریا سمینٹ ڈالنے کا کام ہندوازم کے بنیادی عقیدے کرما نے کیا۔۔ کرما کے مطابق جو انسان کی موجودہ حالت ہے وہ اس کے پچھلے جنم کے کیے گئے اعمال کا نتیجہ ہے۔۔ اگر کوئی شودر بن کر ذلت کی چکی میں پس رہا ہے تو اس میں قصور اس کے پچھلے جنم میں کیے گئے پاپوں کا ہے۔۔
مگر ویدوں میں ایک قدیم وید یجر وید میں لکھا ہے کہ "کوئی برہمن پیدائشی برہمن نہیں ہوتا بلکہ وہ ذاتی صفات کی بنا کر برہمن ہوتا ہے کیونکہ برہمن ایک روحانی درجہ ہے"۔
یجر وید کے اس حوالے سے سید سبط کا اوپر مذکور حوالہ ناسخ ہو جاتا ہے۔۔
مگر آریاؤں کی یہ سماجی تقسیم یہاں کے باسیوں کو راس آگئی۔۔ شودر نے اپنی ذلت کو کرما کے سپرد کرکے مزید نوکر بنتا گیا۔۔ برہمن مذہبی طاقت اپنے پاس رکھ کے اور کھتریوں کے ساتھ سازباز کرکے مقدس سے مقدس تر اور ان چھوئے بنتے گئے۔۔ شودر انھیں چھو نہیں سکتا تھا ان کا کھانا جوٹھا نہیں کر سکتا تھا۔۔ شودر اور برہمن کے مندر بھی الگ الگ تھے، وقت گزرنے کے ساتھ ذات پات کا یہ نظام مزید institutelized ہوتا گیا۔۔
مگر برہمن کی طاقت صرف لوکل سطح تک رہی۔۔ پورے خطے کی سطح پر برہم بھی کچھ خاص اکھاڑ نہ پائے کیونکہ ہندوستان کو ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں نے ہی کھدیڑا ہے جس میں برہمن ایک ریاستی سطح پر ابھر نہ پائے مگر سیاسی اور فکری طاقت ان کے پاس بہر حال تھی۔۔ چندر گپت موریا کا مشیر خاص چانکیہ جو ایک بڑا فلاسفر بھی تھا وہ برہمن تھا۔۔
بھگتی تحریک کے بانی رہنما رامانند بھی برہمن تھے وہ بڑے دانشور تھے۔۔
جدید برہمنیت کی پرورش مغلیہ سلطنت کی گود میں ہوئی اور اس نے اپنے پر پرزے جاکر برطانوی سامراجی کی چھتر چھایا میں نکالے۔۔ کئی مسلم حکمرانوں نے اہم عہدوں پر ہندؤں کو بٹھایا اور ان ہندؤں میں سے زیادہ تر برہمن تھے ایک تو سماج پر ان کی پکڑ مضبوط تھی دوسرا انھیں مذہبی تقدیس حاصل تھی اس لیئے برہمن مسلم حکمرانوں کے لیئے وہی ثابت ہوئے جو انگریز کے لیئے سرسید۔۔ اونچی ذات کے ہندوؤں کو مغل بادشاہوں کے دربار میں رسائی ملتی۔۔ صرف جلال الدین اکبر کی مثال دوں گا۔۔ اکبر کا وزیر خزانہ راجہ تودر مل ہندو تھا اور کھشتری ذات سے تعلق رکھتا۔۔ راجہ مان سنکھ اکبر کا بڑا خاص جرنیل تھا وہ بھی راجپوت ہندو تھا۔۔
راجہ بیربیل اکبر کا مشیر خاص اور چہیتا بھی، وہ بھی برہمن ذات سے تعلق رکھتا تھا۔۔ سلاطیں دکن کے ہاں بھی کئی انتظامی عہدوں پر ہندو کرتے اور نوے فیصد ہندو برہمن ہوتے۔۔
جب اورنگزیب کے بعد مغل کمزور ہوئے۔۔ ادھر مراٹھا سلطنت بھی بکھرنے لگی اور انگریزی تاجر دھیرے دھیرے سورت کے کارخانہ سے نکل کر پورے برصغیر کو خام مال کی کان بنانے کے لیئے پر تولنے لگا۔۔ دھیرے دھیرے اس نے ہندوستان پر اپنے پنجے جما دئیے۔۔ اس سمے سب سے پہلے جنھوں نے انگریز کی مراعات سے فائدہ اٹھایا وہ مہاراشٹر اور تامل ناڈو کے برہمن تھے۔۔ یہ برہمن کلاس اٹھی اور انگریز کی چمچہ بن گئی۔۔ انگریز بہت گھاگ تھا وہ جلد ہی ہندوستان کے سماجی ڈھانچے اور ذات پات کو سمجھ گیا۔۔ اسے سیاسی طاقت سے عاری ہندوستان میں دو سماجی طاقتیں نظر آئیں۔۔ ہندؤں میں برہمن اور مسلمانوں میں گدی نشین۔۔
اس نے ان دونوں کو نوازنا شروع کر دیا تاکہ ان دو کی مدد سے ہندوستانی سماج پر اپنی گرفت مضبوط کر سکے۔۔ گدی نشین عموما سید ہوتے یا جو عرب کے ساتھ شجرہ نسب جوڑتے۔۔
یہاں ایک اور بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگئی کہ 1869 میں انڈین سول سروس کا امتحان پاس کرنے والے پہلے ہندوستانی راجہ دکھشنا مورتی تھا جو تامل برہمن تھا۔۔ اسی طرح پہلا مسلمان آئی سی ایس پاس کرنے والا محسن تیابجی کا شجرہ نسب بھی عرب سے ملتا ہے۔۔ مگر برطانوی سامراج میں ہندؤں اور خاص کر ہریمن ہندؤں کو کافی فیور ملتے گئے۔۔ قدرت اللہ شھاب شھاب نامہ میں لکھتے ہیں کہ جس وقت انھوں نے آئی سی ایس کا امتحان دیا تھا اس وقت گنتی کے چند مسلمان سول سروس میں تھے اور ان میں سے زیادہ تر مسلم اشرافیہ کے گھرانوں کے لڑکے ہوا کرتے۔۔
انگریز نے آکر برہمنیت کو مزید خونخوار بنا دیا اور طبقاتی تقسیم کو مزید بڑھاوا دیا، ذات پات کو سرکاری سطح پر ہے آیا۔۔ انگریز نے غدر کے بعد ہندوستانیوں کو 2378 جاتیوں میں تقسیم کیا۔۔ crimimal act of 1871 بہت ہی بھیانک ایکٹ تھا، اس ایکٹ میں انگریز نے کچھ ذاتوں کو پیدائشی مجرم قرار دیا تھا۔۔ جس میں چمار بھی شامل تھے۔۔ یہ اتنا سفاک ایکٹ تھا کہ جو اس مخصوص ذات میں میں پیدا ہونے والے ہر انسان کو مجرم بنا دیتا۔۔
انگریز نے برہمنیت کو مزید بڑھاوا سرکاری نوکریوں میں ذاتوں کا کوٹا رکھ کے دیا۔۔
میں اس برہمنیت کو کالیونیل برہمن ازم کہتا ہوں۔۔ کالیونیل بریمن ازم کے اثر سے برصغیر کبھی نہ نکل سکا۔۔ اس سے جو سیاسی لوگ سامنے آئے وہ اسی سامراجی برہمنیت کی پیدوار تھے۔۔
کانگریس کی تمام بڑی قیادت میں کوئی شودر نہیں نظر آئے گا۔۔ موتی لال نہرو اور جواہر لال نہرو برہمن تھے۔۔
گاندھی جی ویش ذات سے تھے۔۔ سرداد پٹیل گجرات کی ایک تگڑی ویش ذات سے تھے۔۔ نیتا جی سبھاش چندر بوس بھی کھشتری تھے۔۔
انڈیا نے آزادی کے بعد بھی انگریز کی ذات پات کے پالیسی کو آگے چلایا گیا۔۔ schedule caste کے نام ان کے آئین کا آرٹیکل 341 چند مخصوص ذاتوں کو آئینی شودر بنا دیتا ہے۔۔
ادھر مسلم لیگ بھی نوابوں اور گدی نشینوں کا ایک ریوڑ تھی۔۔ جو مسلم برہمن ازم کی ایک مختون شکل ہے۔۔
چاہے ہندوستان ہو یا پاکستان سامراجی برہمنیت جونک کی طرح سیاست اور مذہب سے چمٹ کر ہندو اور مسلم شودروں کا خون چوس رہی ہے۔۔