Sunday, 29 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Barq Sahab

Barq Sahab

برق صاحب

ڈاکٹر غلام جیلانی میرے پہلے مرشد تھے۔۔ پہلے مرشد کی چھاپ پہلے محبوب کی یاد طرح پتھر پر لکیر کی مانند ثبت رہتی ہے۔۔ الھدی انٹرنیشنل اسلام آباد سے دورہ تفسیر القرآن اور حدیث کیئے کچی عمر کے پختہ لڑکے کے ہاتھ ایک دن دو اسلام نامی کتاب لگ جاتی ہے۔۔

کتاب اپنے نام ہی کی طرح انوکھی تھی۔۔ کتاب کیا تھی، جذبات و دلائل کا ایک سیلاب تھا جو ساتھ بہہ کر لے جاتا۔۔ کتاب نے روایتی دینی فکرکے شیدائی نوجوان کو جھنجوڑ کے رکھ دیا تھا۔۔ اس کتاب کے مصنف کا نام تھا ڈاکٹر غلام جیلانی برق۔۔

برق صاحب سے پھر بھی بیعت اتنی آسانی سے نہ کی۔۔ مرید کی طرح مرشد کی زندگی میں ہنگامہ خیز تھی۔۔ امام مسجد کے گھر پیدا ہونے والے برق کی فکر مسجد کے محراب سے بہت آگے کی تھی۔۔ برق نے مدرسہ بھی پڑھا۔۔ درس نظامی کے فاضل بھی ہوئے۔۔ ایک مسجد کے مولوی بھی بنے۔۔ مگر مولوی برق میں ایک ڈاکٹر برق بھی چھپا بیٹھا تھا۔۔ وہ ڈاکٹر برق جس کے لکھے مقالے نے کسری آکسفورڈ کے کنگروں کو گرا دیا تھا۔۔ ہارورڈ یونیورسٹی نے ان کے مقالے کو قبولیت بخشی۔۔ کسے معلوم تھا کہ مصلے پر امامت کرانے والا مولوی برق ایک دن ڈآکٹر برق بن کر ملائیت کے بخیئے ادھیڑ دے گا۔۔

برق صاحب کی سب سے باکمال کتاب دو اسلام تھی۔۔ وہ کتاب ایک دفعہ تو روایتی دینی فکر رکھنے والے انسان کو ہلانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔۔ برق کے دلائل میں بہاؤ اتنا تیز ہے کہ قاری کو بھرپور مخالفت کے باوجود ساتھ بہا لے جاتا ہے۔۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ، اب اسلام دو ہیں ایک اسلام وہ جو قرآن میں ہے اور دوسرا وہ جو لاکھوں ملاؤں۔۔ درجنوں محدثین اور آئمہ نے احادیث اور روایات کی شکل میں گھڑ کر پیش کیا ہے۔۔ یہ دو اسلام ایک دوسرے کے متوازی چل رہے ہیں۔۔

اس کتاب پر تنقید بہت ہوئی۔۔ مولوی برق منکر حدیث برق ہو گے۔۔ کئی کتابیں لکھیں گئیں اس کے خلاف۔۔ مگر دو اسلام پر سب سے جاندار اور پر اثر تنقید جماعت المسلمین کے بانی مسعود بی ایس نے کی ہے۔۔ انھوں نے دو اسلام پر جوابی کتاب۔۔ تفھیم اسلام۔۔ کے نام سے لکھی۔۔ برق کے ایک ایک اعتراض کا چن چن کر بھرپور جواب دیا۔۔ مسعود بی ایس سے بھر پور اختلاف کے ان کے انداز تنقید کی داد تو بنتی ہے۔۔

دو اسلام اور انکار حدیث سے ڈاکٹر صاحب نے بعدازاں رجوع کر لیا تھا۔۔ اور توبہ کے طور پر احادیث کے حق میں"تاریخ حدیث"کے نام سے ایک پلندہ لکھا۔۔ مگر توبہ میں وہ لذت کہاں جو گناہ میں ہے۔۔ تاریخ حدیث برق کی سب سے تھکی ہوئی کتاب تھی۔۔ پڑھ کر لگتا تھا۔۔ برق کی کنپٹی پر بندوق رکھ کر زبردستی کسی نے کتاب لکھوائی ہے۔۔

قادنیت پر برق کی کتاب حرف محرمانہ آئی۔۔ برصغیر کے مولویوں نے احمدیوں کو کافر کرنے میں زیادہ اور ان کے عقائد کا علمی جواب دینے میں کم زور لگایا ہے۔۔ علمی تنقید کیسی کی جاتی ہے یہ حرف محرمانہ پڑھ کر پتہ چلتا ہے۔۔ برق نے یہ کتاب درد دل رکھ لکھی ہے۔۔

کتاب کے انتساب میں لکھتے ہیں"ان احمدی بھائیوں کے نام جو حق و صداقت سے محبت رکھتے ہیں۔۔ "

کتاب پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کوئی سرجن مریض کا درددل رکھ کر بلیڈ سے چیرا لگا رہا ہے۔۔ تاکہ اس چیر پھاڑ سے مریض کی جان بچ سکے۔۔ حرف محرمانہ میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ۔۔

"(مسلئہ قادیانیت)کا حل اسی میں ہے کہ اگر احمدیت کی رائے ٹھیک ہے تو ہمیں سپر ڈال دینا چاہے اگر نہیں تو وہ بھی مسلمانوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائیں۔۔ "

برق صاحب کا ایک اور خاص کام امام ابن تیمیہ پر مقالہ ہے۔۔ اردو میں ابن تیمیہ پر اتنا جامع کام پہلے کم ہی ہوا تھا۔۔ مقالے کی تصیح برق نے مولانا مودودی سے کروائی تھی۔۔ اسی مقالے کو بعدازاں آکسفورڈ یونیورسٹی نے قبولیت بخشی تھی۔۔ مقالے میں برق صاحب نے ابن تیمیہ کی درجنوں کتب کے احوال کو حروف تہجی کی ترتیب سے مرتب کیا ہے جو بڑے خاصے کی چیز ہے۔۔

برق صاحب کا سب سے مشہور کام ان کی کتاب دو قرآن ہے۔۔ برق نے اعتراف کیا تھا کہ وہ کسی دور میں ملحد رہ چکے تھے۔۔ ملحد برق کے الحاد کا کفارہ دو قرآن کی صورت میں ادا ہوا۔۔

برق صاحب کے خیال میں۔۔ ایک قرآن تو وہ ہے جو صحیفے کے اندر لکھا ہے اور دوسرا قرآن وہ ہے جو فطرت میں ہے۔۔ ایک قرآن قول خدا کثے اور دوسرا عمل خدا۔۔ برق نے اچھا خاصا سائنس کو کلمہ پڑھوا کر مسلمان کر لیا تھا دو قرآن میں۔۔ جہاں سائنس کو اسلام کے آگے سجدہ کروانے کی ضرورت پڑتی وہاں سائنس کو سجدہ کرواتے اور جہاں مذہب کو سائنس کا ساجد بنانے کی نوبت آئی تو وہاں دریغ نہیں کیا۔۔

دو قرآن میں ابابیل کے ہاتھیوں پر کنکر برسانے سے ان کے ہلاک ہونے کی بھی سائنسی توجیہ کرتے ہوئے لکھا کہ اگر ایک کنکر کو بیس ہزار فٹ کی بلندی سے نیچے پھینکا جائے تو وہ کنکر بندوق کی گولی جتنا خطرناک ہو سکتا ہے۔۔ جو بآسانی ہاتھی کو مار ڈالے گا۔۔ اور جہاں آدم کی پیدائش کا قصہ آیا تو برق نے نظریہ ارتقاء کو مختون کرکے قبول کر لیا۔۔

برق کی جو کتاب میرے دل کے قریب ہے وہ ہے من کی دنیا۔۔ مشرقی تصوف اور مغربی ایلوپیتھی کا دم لگا کر برق صاحب نے جو "لاجیکل تصوف" کا اچار بنایا ہے وہ ہے تو بہت خوش ذائقہ مگر پیٹ کو خراب کر دیتا ہے۔۔ برق نے جابجا مغربی ماہرین عمل تنویم یا ہپٹانزم اور علماء ایلو پیتھی کے اقوال کا ملغوبہ تیار کرکے صوفی ازم کو برحق ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔۔

مگر ڈاکٹر صاحب یہ بھول گیے ایلو پیتھی اور ہپٹانزم ایک فن ہے۔۔ اگر تصوف کو اس سے ثابت کریں گے تو تصوف بھی ایک فن بن کے رہ جائے گا۔۔ فن انسان کو کمرشل بناتے ہیں اس سے آپ تقوی اور تطہیر قلب نہیں حاصل کرسکتے۔۔

ڈاکٹر غلام جیلانی برق بہت بڑے سکالر تھے۔۔ ان کا حلقہ بہت وزنی تھا۔۔ مولانا مودودی، شورش کاشمیری، ڈاکٹر حمیداللہ، شفیق الرحمن، عبدالماجد دریا بادی اور علامہ مشرٹ جیسے لوگ ان کی مجلس میں بیٹھا کرتے۔۔

پر برق صاحب درویش صفت انسان تھے۔۔ کوئی جتھا یا معتقدین کا گروہ بنا کر نہیں چھوڑا۔۔ مودودی صاحب نے جماعت اسلامی کی چھتری بنا کر تان لی۔۔ شورش کو احراریوں کی چھتر چھایا مل گی۔۔ عبدالماجد دریا بادی دیوبند کے پلو میں چھپ گے۔۔ علامہ عنایت اللہ مشرقی کو خاکساران مل گے۔۔ پیچھے رہ گے ہمارے مرشد برق صاحب۔۔ نہ کوئی فرقہ کھڑا کیا نہ تنظیم اور نہ نام لیوا۔۔ مگر برق کی تحریریں نام لیواؤں کی محتاج نہیں ہیں۔۔

برق نے من کی دنیا میں اپنی زندگی کے بارے میں لکھا ہے کہ ناکامیاں ان پر عاشق ہوگئیں تھیں۔۔ ہر دروازہ بند تھا۔۔ علمی فتوحات حاصل کرنے کے باوجود کنگال تھا۔۔ کبھی جیب میں پیسے نہ ہوتے اور جب پیسے ہوتے تو انھیں رکھنے کے لیئے جیب نہ ہوتی۔۔ پھر انھیں ایک بزرگ مرشد مل گئے۔۔

انھوں نے برق صاحب کو بتایا کہ تمھاری پیدائش سینچر کے دن کوئی جو منحوس دن ہے اس نحوست کا اثر زائل کرنے کے لیئے انھیں بزرگ نے چند وظائف بتائے جس کے بعد برق صاحب کی زندگی ان کے بقول بدل گئی۔۔

ہمیں مرشد برق کے وظیفے نہ بدل سکے تو مرشد بدل لیا مگر پہلی نوکری پہلے مرشد اور پہلے معشوق کے اثر سے انسان نکل نہیں پاتا۔۔

Check Also

Zikr Phir Ganda Wish Ka

By Abdullah Tariq Sohail