Bar e Sagheer Ke Muslim Mufakreen Ka Almiya
برصغیر کے مسلم مفکرین کا المیہ
شاہ ولی اللہ برصغیر کے مسلمانوں کے ایک بڑے مفکر تھے۔ ان سے پہلے شاید ہی ان کے درجہ کا کوئی مفکر برصغیر میں گزرا ہو۔ شاہ صاحب کی معاشیات اور سیاسیات پر گہری نظر تھی، مگر شاہ اپنی فکر کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش سے ہمیشہ کتراتے رہے۔
اس وقت کا برصغیر بڑا منتشر تھا۔ اورنگزیب عالمگیر کے بعد مغلوں کا تخت دہلی لزرنے لگا تھا۔ عالمگیر کے وارثوں کی پکڑ کرسی پر کمزور ہو رہی تھی۔ حیدر آباد کے نظام نے بھی خود مختاری کا اعلان بغاوت بلند کر دیا۔ بنگال کے نواب نے بھی تخت دہلی کو آنکھیں دکھانا شروع کر دی تھیں اور ان سب سے بڑھ کر مرہٹے ایک بڑی طاقت کے روپ میں ابھر رہے تھے۔ اس ساری صورتحال میں یہ خیال تو شاہ صاحب میں بہر حال پختہ ہوگیا تھا۔ برصغیر کے مسلمانوں کی راہنمائی کے لیے خدا نے انھیں مبعوث کیا ہے۔ اس خوش فہمی کا اظہار شاہ صاحب نے اپنی کئی تحریروں میں کیا بھی۔ مگر شاہ صاحب نظریاتی راہنمائی سے کام چلانا چاہتے تھے عملی قدم اٹھانے سے ہمیشہ پرہیز کرتے۔ جو ایک عدد عملی قدم اٹھایا وہ بھی مسلمانوں کے گلے پڑ گیا۔
احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دینا شاہ صاحب کا بہت بڑا بلنڈر تھا۔ شاہ صاحب جیسے مفکر کو معلوم ہونا چاہے تھا کہ افغانی حملہ آور ہندوستان پر تبلیغ کا چلہ لگانے کبھی نہیں آیا کرتے تھے۔ وہ جب بھی آئے لوٹ مار کرنے آتے تھے۔ غزنوی سے لے کر نادر شاہ درانی تک لٹیروں کی ایک فہرست تھی۔
مگر پھر بھی احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان پر حملہ کی دعوت کا خط لکھ ڈالا۔ خلیق احمد نظامی اپنی کتاب شاہ ولی اللہ کے سیاسی مکتوبات میں شاہ ولی اللہ کے خطوط نقل کیے ہیں۔ کیسے شاہ صاحب مرہٹوں اور جاٹوں کی کمزوریوں پر بریفنگ دے رہے ہیں ابدالی کو وہ کیسے آکر برصغیر میں منجی ٹھونکے سب ہندوستانیوں کی۔
شاہ ولی اللہ کے سیاسی مکتوبات کا صفحہ نمبر 29 خاصا دلچسپ ہے۔ ابدالی کے نام ایک خطوط میں اسے ہندوستان پر حملے کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے للچانے واسطے لکھا ہے "ہندوستان کے محصولات آٹھ سو کروڑ سے کم نہیں ہیں۔ راجپوتانہ کا خراج دو کروڑ سے ہر گز کم نیں ہے۔ بنگال کا خراج ایک کروڑ ہوگا"۔
یہ وہی بات ہوگی کہ لٹیرے یا ڈاکو کو بتایا جائے کہ میری گھر کی فلاں فلاں تجوری اتنے اتنے پیسے اور زیورات پڑے ہیں۔ اگلا صرف پھر ان زیورات کی زیارت کے لیئے تو آئے گا نہیں۔ یہی کچھ پھر احمد شاہ ابدالی نے کیا۔ پانی پت کی تیسری لڑائی میں اس نے مرہٹوں کو تو شکست دے دی مگر شاہ ولی اللہ کے اس مسیحا نے لوٹ مار کا بازار گرم کیا کہ لوگ غزنوی اور نادر شاہ درانی کو بھول گے۔ بعض مذہبی مورخین ابدالی کی لوٹ مار کو من گھڑت قصے قرار دیتے ہیں۔
ان سے پوچھیں۔ قبلہ یہ بتائیں۔ کیا ہندوستان پر آٹھ حملے ابدالی نے مدنی چلہ لگانے کے لیے کیئے تھے۔ کیا وجہ تھی وہ گندم پکنے کے وقت ہی حملہ آور ہوتا تھا۔
یہ محاورہ کیوں زد زبان عام ہوگیا تھا۔
کھاتا پیتا لاہے تھا
باقی احمد شاہے دا
پنچاب کی سترہ ہزار لڑکیوں کو اس کی فوج کیا مومنات بنانے کے واسطے اغوا کرکے لیے جارہی تھی۔ جنھیں جاٹوں نے ابدالی کی قید سے رہائی دلائی تھی اور اس سے دلچسپ بات یہ کہ ابدالی مغل بادشاہ شاہ عالم کی بیٹی سے جبری شادی کرکے افغانستان ساتھ لے گیا تھا۔
سنگھ گوڈا نے اپنی Durani. The Father of modern Afghanistan میں"مجاہد" ابدالی کی وہ دھوتی کھولی ہے کہ پیچھے صرف ننگ دھڑنگ لٹیرا ابدالی ہی رہ جاتا ہے۔
اس طرح کے بلنڈر صرف شاہ ولی اللہ سے ہی نہیں ہوئے۔ سید احمد شہید کی تحریک مجاہدین بھی بے وقوفیوں اور جہالت کا مرکب تھی۔
ارے بھئی برصغیر پر قابض انگریز ہو رہا ہے۔ وسائل وہ لوٹ رہا ہے۔ مسلمانوں کو دیوار کے ساتھ وہ لگا رہا ہے اور انگریز کے خلاف مسلمانوں کا جو ردعمل پیدا ہوا اس کا رخ جا کے سکھوں کی طرف موڑ دیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ جو انگریز کے خلاف واحد ایک طاقت بچی تھی۔ ہمارے تحریک مجاہدین کے سرخیلوں نے اسی کے خلاف محاذ کھول کے انگریزوں کی دانستہ یا نادانستہ مدد کی۔
بھلا یہ کیسا ممکن تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی برصغیر پر مضبوط گرفت کے ہوتے ہوئے سید احمد اپنی مسلح گروہ کے ساتھ دہلی سے پشاور پہنچ جاتے ہیں اور راستے بھی کسی ایک جگہ بھی انگریز ان کے راستے میں نہیں آتا۔
یہ تحریک آزادی نہیں تحریک سامراجی تھی۔ انگریز کے تحریک مجاہدین کے بارے میں کیا خیالات تھے۔
ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اپنی کتاب برصغیر کی ملت اسلامیہ میں لکھتے ہیں"کمپنی نے ان مقامی ساہو کاروں پر جرمانہ لگایا تھا جو سید احمد کی تحریک مجاہدین کو چندہ دینے میں کوتاہی برتا کرتے تھے"۔
یہ تھی ہماری مسلمانوں کی قیادت۔ ہر جگہ ہر مؤقع پر غلط فیصلے اور بلنڈر۔ رنجیت سنگھ ایک سیکولر تھا۔ سید احمد نے ٹوپی یہ کروائی عوام کو کہ وہ مسلمانوں ہر ظلم کرتا ہے۔ حالانکہ اس کی بیوی ماہی موراں مسلمان تھی۔ اس کا وزیر خارجہ بھی ایک مسلمان تھا۔ سید احمد اپنی بے وقوفیوں کی وجہ سے پختونوں کو اپنے خلاف کر بیٹھے اور بعدازاں بالاکوٹ کے مقام کر سکھوں کے ہاتھوں ہلاک ہوگئے تھے۔
مگر اس راسخ العقیدگی اور ناپختگی کی بنیاد رکھنے والی ہستی کا نام تھا شیخ احمد سرہندی۔ سید احمد شہید اور شاہ ولی اللہ ان ہی کی فکر کا نتیجہ تھے۔ شیخ کو بطور مجدد الف ثانی بیسویں صدی کے شروع میں دو قومی نظرئیے کا چورن بیچنے کے لیئے لانچ کیا گیا تھا۔
مجدد صاحب نے مسلمانوں کے ساتھ سب سے بڑا ہاتھ وحدتِ الشہود متعارف کروا کے کیا۔ برصغیر کے ابتدائی مسلم حکمران بڑے لبرل سیکولر اور روشن خیال تھے اور اس روشن خیالی کی وجہ تھا وحدت الوجود جو بھگتی تحریک جیسی تحریکوں کو جنم دینے کا باعث بنا تھا۔ وحدت الوجود ہندوازم اور اسلام کے امتیازات مٹا کر وحدت انسانیت کا درس دیتا۔ مجدد صاحب نے اس کے مدمقابل وحدت الشہود کا نظریہ پیش کرکے پہلے تو اس روشن خیالی کا خاتمہ کیا۔
مجدد صاحب اپنے دور کے خادم رضوی تھے۔ غیر مسلموں کو اذیت دینے کو عبادت کا درجہ دیتے۔
مکتوبات امام ربانی میں لکھا ہے "مجدد الف ثانی عقل کے استعمال کو گمراہ کن قرار دیتے۔ ریاضی ان کے نزدیک بے ہودہ علم تھا۔ افلاطون کو بد بختوں کا رئیس قرار دیتے اور اس کی وجہ یہ بیان کرتے کہ جب اس کے سامنے عیسی ع کی دعوت پیش کی گی تو اس نے انکار کر دیا تھا۔
ہزار سال بعد پیدا ہونے مجدد صاحب کو یہ تک پتہ نہ تھا کہ افلاطون عیسیؑ کی وفات سے کئی سال پہلے ہی مر گیا تھا۔ دعوت اس تک خاک پہنچنی تھی۔
مجدد صاحب کی فکر کو سیاسی طاقت اورنگزیب عالمگیر کے دور میں ملی۔ اورنگزیب مسلمانوں کا ہٹلر تھا۔ درجنوں مندر اس نے گرائے تھے۔ مسلمان برصغیر پر بڑی شان سے حمکران رہے اور اس کی وجہ ان کی سیکولر پالیسیاں تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ ہزار سال میں کسی ہندو یا سکھ کمیونٹی نے مذہب کی بنیاد پر مسلم حکمرانوں کے خلاف بغاوت نہ کی۔
مگر ہمارے مسلم مفکرین کورے تھے۔ ان کا سب سے بڑا المیہ یہ تھا کہ وہ ہندوستان کی مٹی سے جڑ نہ پائے۔ اس لیئے کبھی انھیں غیر غزنوی میں مسیحا نظر آیا تو کبھی ابدالی جیسے لٹیرے میں۔ اپنی مٹی سے بے رخی کی سزا آج تک مسلمان بھگت رہے ہیں۔ کبھی وہ اپنی جڑیں نیل کے ساحل میں تلاشتے ہیں تو کبھی کاشغر کی خاک میں ڈھونڈتے ہیں تو کبھی قرطبہ کے میناروں ٹکریں مار رہے ہیں۔
مگر اپنی مٹی سے غداری کرنے والوں سے ان کی اپنی تہذیبی جڑیں روٹھ جاتی ہیں۔ اور انھیں گمنامی کی کھائی میں دھکیل دیتی ہیں۔