Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Bano Qudsia

Bano Qudsia

بانو قدسیہ

بانو قدسیہ قدرت اللہ شہاب کے روحانی گینگ کی ایک فعال کارکن تھیں۔ قدرت اللہ شھاب صاحب بذات خود ایک منجھے ہوئے بیوروکریٹ تھے۔۔ ایوب خان کے بڑے قریب رہے، قدرت اللہ شھاب نے ایوب خان کے دور میں ہی رائٹر گلڈز کے نام سے ایک ادبی تنظیم بنائی تھی، جسے ایوبی سرکار کی سرپرستی حاصل تھی، اس تنظیم کا افتتاح بھی ایوب خان نے کیا تھا، اس موقع میں کسی ادیب نے رائٹر گلڈز پر تنقید کرتے لکھا تھا کہ "قدرت اللہ شہاب نے ساری لکھاری اکٹھے کرکے ایوبی آمریت کی جھولی میں ڈال دیئے ہیں"۔

ساری زندگی ایوبی آمریت کی خدمت گزاری میں گزار کر آخری عمر میں شھاب کو بھی قرون وسطی کے صوفی باصفا کی طرح روحانیت کا دورہ پڑ گیا، "آمریت سے روحانیت تک کے سفر کو شھاب نے اپنی کتاب شھاب نامہ کے آخری باب میں بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے کہ کیسے انھیں نائنٹی نام کا موکل ٹکر گیا جو ان کی روحانی راہنمائی کرکے راہ سلوک کی منازل طے کرواتا، افسروں کو موکل بھی انگریز ہی ٹکرے ہیں، نائنٹی خاصا بڑا لکھا موکل تھا، شھاب کی روحانی اور غیبی راہنمائی غالباً انگریزی خطوط کی صورت میں کرتا۔

بہر حال بات ہو رہی تھی شھاب کے روحانی گینگ کی۔۔ اسی دور میں شھاب کے افسری مقناطیس سے کشش کھا کر اور بھی بہت سے دانشور سلسلہ شھابیہ سے چمٹتے گے۔۔ ممتاز مفتی، واصف علی واصف، بابا اشفاق اور بانو قدسیہ یہ سب اسی روحانی جتھے کے تھے۔۔

یہ وہی روحانی جتھہ تھا جس نے اگلے تیس سال تک ادب کے نام کر عوام کے دماغ خصی کرنے کا فریضہ سر انجام دیا۔۔ ان میں واصف علی واصف تو پھر بھی خاصے معقول تھے، شھاب، مفتاز مفتی بھی تھوڑا بہت گزارہ کرتے تھے مگر بابے اشفاق نے ادب کے نام پر جو بونگیاں ماری ہیں اگر ادب کے پاس اختیار ہوتا تو وہ بابے اشفاق پر ادبی بدفعلی کا مقدمہ کروا دیتا۔۔

جہاں اشفاق بابا بونگیوں سے روحانیت کی خدمت کرتے تھے وہاں ان کی شریکِ حیات بانو قدسیہ انٹیلکچوئل طرز کی خدمت میں مصروف تھیں۔۔ بانو قدسیہ کا اس سمے ناول آیا تھا۔۔ راجہ گدھ کے نام سے۔۔ اس کا انتساب بھی بانو آپا نے قدرت اللہ شہاب کے نام کیا ہے۔۔

ناول کا خلاصہ یہ تھا کہ رزق حرام کھانے سے انسان کے جینز متاثرہ ہو جاتے ہیں، جس کا اثر اس کی نسلوں تک جاتا ہے۔۔ یہ تصور بڑا خوشنما تھا اور ایک ایوریج مذھبی ذہن کے لیے یہ انکشاف کسی ٹریٹ سے کم نہیں تھا، اسی وجہ سے ناول کو بہت مقبولیت ملی۔

شروع میں تو یہ رزق حرام والا تصور بآسانی ہضم ہوگیا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جوں جوں ہاضمہ خراب ہوتا گیا، اس کا خمار بھی اتر گیا۔۔ میرا ماننا ہے کہ رزق حرام وحلال کے اثرات کا فیصلہ اس دنیا میں نہیں کیا جاسکتا۔۔

اگر آپ زہر کھالیں تو مر جائیں گئے چاہے حلال کے پیسوں کی ہی نہ کیوں خرید گئی ہو اور شھد کھانا آپکی صحت کے لئے نفع بخش ہوگا، چاہے حرام کے پیسے کا ہی کیوں نہ خریدا گیا ہو۔۔ یہ دنیا مادی قوانین کے تابع ہے اخلاقی قوانین یہاں لاگو نہیں ہوتے، حلال کے پیسے سے خریدے گدھے کی ریس آپ اگر حرام کی دولت سے خریدے گے موٹر سائکل سے لگائیں تو حلالی گدھا حرامی موثر سائکل سے ہار جائے گا۔۔

حرام حلال کے سماجی اثرات ہو سکتے ہیں مگر بائیولوجیکل اثرات ہر گز نہیں سکتے، اگر ایسا ہوتا تو دنیا کی ایک کثیر تعداد کے جینز بگڑے ہوتے اور آدھی دنیا لنگڑی لولی ہوتی رزق حرام کی وجہ سے، مگر ایسا نہیں ہوتا۔۔

یہاں پر لوگ نسلوں سے غریب ہوتے ہیں، مسکنت و غریبی ان کی نسلوں میں سفر کرتی ہے، وہ محنت و مشقت سے رزق حلال کماتے ہیں مگر یہ رزق حلال ان کے جینز اور ان کی زندگی کو بہتر نہیں کر پاتا اس کے مدمقابل ایک شخص رزق حرام سے عیش کرتا ہے اور مال و دولت اس کی نسلوں کو منتقل ہوتا ہے، کئی نسلوں کے حالات سنور جاتے ہیں مگر یہ رزق حرام اس کی جینز اور اس کی نسلوں کا کچھ بھی نہیں اکھاڑ پاتا۔۔

Check Also

Platon Ki Siasat Mein Ghira Press Club

By Syed Badar Saeed