Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. Siri Toye (2)

Siri Toye (2)

سری توئے (2)

حضرت صاحب بار بار سرکاری اہلکاروں پر ناراض ہو رہے تھے اور حکم دے رہے تھے کہ اب وہ چھ مہمانوں کو چھ دن اپنے پاس رکھیں گے اور ساتویں دن ہی ہم کِلی سے حرکت کر سکتے ہیں۔ ہمیں اپنا سارا پروگرام خراب ہوتا نظر آ رہا تھا۔ وہ غصہ ہو رہے تھے کہ لاہور سے مہمان ان کے علاقے میں وزٹ پر آ رہے تھے لیکن انہیں کیوں نہیں بتایا گیا تھا کیا وہ سو پچاس بندوں کو کھانا نہیں کھلا سکتے تھے۔

کِلی حضرت کسی زمانے میں آس پاس کی آبادی کا مرکزی گاؤں تھا جہاں کے چھوٹے سے بازار سے بنیادی ضرورت کی اشیاء مل جاتی تھیں لیکن پھر قحط سالی اور مغربی ہمسایہ ملک میں جنگ کے اثرات یہاں بھی پہنچنے لگے کیونکہ یہ جگہ بارڈر کے پاس تھی۔ دہشت زدہ آبادی شہروں میں چلی گئی اور گاؤں کے گاؤں ویران ہو گئے۔ کلی حضرت کی بھی کافی آبادی اِدھر اُدھر ہوگئی بازار ویران ہوگیا لیکن حضرت صاحب نے تمام تر خطرات کے باوجود اپنے بزرگوں کی قبروں سے دور جانا مناسب نہ سمجھا اور یہیں جمے رہے۔

گاؤں کے پاس زرعی رقبہ بہت کم نظر آ رہا تھا۔ حضرت صاحب ہماری مہمان نوازی کرنے کے چکروں میں تھے جب کہ ہم جلد از جلد سائٹ پر پہنچنا چاہ رہے تھے۔ بالآخر کافی منت ترلے کے بعد وہ ہمارے ساتھ سائٹ پر چل دئے تاکہ نہ صرف ہم بے خطر ہو کر سائٹ پر کام کر سکیں بلکہ واپسی پر ان کا دُنبہ کھائے بغیر نہ بھاگ سکیں جو ہمارے کلی میں پہنچتے ہی کاٹ دیا گیا تھا۔

قافلہ کِلی سے نکل کر ایک مرتبہ پھر پتھریلے راستے پر مغربی سمت پہاڑی درے کی جانب روانہ ہوا جس کے اندر جا کر ڈیم سائٹ آتی تھی۔ راستہ بے حد خراب تھا ایک دو جگہ پر خانہ بدوشوں کے قبرستان اور کچھ کچی جھونپڑیاں بھی نظر آئیں جن کی چھتیں اُڑ چکی تھیں۔ مسلسل قحط سالی اور بدامنی نے خانہ بدوشوں کی باقاعدہ آمدورفت کو بھی معطل کرکے رکھ دیا تھا ہر طرف ویرانی نظر آ رہی تھی۔ ہماری گاڑیاں پہاڑی درے پر پہنچ کر رک چکی تھیں کیونکہ آگے جانے کا کوئی راستہ نہ تھا۔

پہاڑی نالے کا پانی ایک تنگ درے سے گزر رہا تھا۔ نالے کی تہہ پر بہت بے شمار چھوٹے بڑے پتھر بکھرے پڑے تھے جن کے اوپر پیدل چلتے ہوئے ہم آگے بڑھنے لگے۔ یہ کافی دشوار سفر تھا۔ کوئی آدھے پونے گھنٹے کی مسافت کے بعد نالہ ایک نہایت تنگ جگہ سے گزر رہا تھا جس کے دونوں جانب کوئی سو فٹ اونچی عمودی چٹانیں تھیں اور یہی ہماری مطلوبہ جگہ تھی۔ یہاں پہنچ کر تمام پارٹیاں پہلے سے طے شدہ ترتیب سے بکھر گئیں اور اپنے اپنے تہہ شدہ کام میں مشغول ہوگئیں۔ حضرت صاحب اور ان کے لوگ بھی مختلف جگہوں پر مورچہ سنبھال کر بیٹھ گئے۔

میں ایک جیالوجسٹ کو ساتھ لے کر اسپل وے کی مناسب جگہ کی تلاش میں نکل گیا اس جگہ موبائل سگنل بالکل نہیں تھے اور اونچی آواز سے دوسرے کو مخاطب کیا جا سکتا تھا جو کہ اس ویرانے میں گونجتی ہوئی کافی دور تک سنی جا سکتی تھی۔ سائٹ پر گھومتے ہوئے کافی ہیجان منٹ محسوس ہو رہا تھا۔ نالا اس تنگ راستے کے اوپر کافی کھل کر ایک پیالہ نما پیٹ بناتا تھا جو کہ ہماری مستقبل کے ڈیم کی جھیل ہو سکتی تھی۔

میں جیالوجسٹ کے ساتھ گھومتے کافی آگے نکل آیا تھا اور اندازہ تب ہوا جب ساری پارٹیاں ہماری نظروں سے اوجھل ہوگئی تھیں اور نہ ہی ہماری آواز کسی تک پہنچ سکتی تھی۔ یہ ایک پیچیدہ پہاڑی سسلسلہ تھا اور ہمیں راستہ بھولنے کا شدید خطرہ لاحق ہو چکا تھا لیکن علاقے کا قدرتی کنوارا پن ہمیں گھومنے پھرنے پر اُکسا رہا تھا لیکن ساتھ ہی اپنی ٹیموں سے بچھڑنے کا خطرہ بھی بار بار ذہن میں آتا۔

کئی گھنٹوں کے پیدل مارچ کے بعد ہم نے اسپل کی جگہ منتخب کر لی اس کے کوآرڈی نیٹ لئے۔ اس جگہ پر جگہ جگہ چٹانوں پر گولیوں کے نشانات نظر آ رہے تھے۔ ہم لوگ کافی تھک چکے تھے اور ابھی گاڑیوں تک واپسی کا چار پانچ کلومیٹر کا نالے کے پتھروں اور گدلے پانی میں پیدل سفر باقی تھا۔ واپسی اپنی ٹیموں کو ڈھونڈتے اور درے سے نکل گاڑیوں تک پہنچتے سب لوگوں کی ہمت جواب دے چکی تھی اور ہم گاڑیوں کی سیٹوں پر ڈھیر ہو گئے۔ ہم تیرہ کلومیٹر سے زیادہ پیدل چل چکے تھے اور کئی چڑھائیاں چڑھنا پڑی تھیں۔

کلی حضرت میں حضرت صاحب کے مردان خانے میں کھانا چُن دیا گیا تھا جس میں دنبے کا گوشت، کابلی پلاؤ کے ساتھ افغانی نان اور دیسی پودینے کی لسی تھی۔ حضرت صاحب کے بیٹے سے بھی تعارف ہوا جو کہ حیرت انگیز طور پر پنجاب کی ایک یونیورسٹی سے ماس کمیونیکشن میں ڈگری کر چکا تھا۔ اس سے مجھے نالے میں پانی کے بہاؤ کے پیٹرن اور مقامی لوگوں کے بارے میں نہایت مفید معلومات ملیں۔ میں نے اسے لاہور آفس آنے کی دعوت دی تھی اور شام ہونے تک ہم وہاں سے ژوب کے لئے نکل چکے تھے۔

اس ابتدائی دورے کے بعد ہماری متعدد ٹیموں نے وہاں کے دورے کہے اور کئی ٹیموں نے تو چار چار چھ چھ ماہ کے کیمپ لگا کر سروے اور چٹانی معلومات اکٹھی کیں - پانی کی سیمپلنگ کی، سوشل اور ماحولیات والوں نے کِلی اور ارد گرد کے دیہات میں لوگوں کے ساتھ بیٹھکیں کیں اور یوں ایک دن یہ منصوبہ کاغذوں سے نکل کر تعمیر کے مرحلے میں داخل ہوگیا۔

تمّت۔

Check Also

Platon Ki Siasat Mein Ghira Press Club

By Syed Badar Saeed