1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zafar Iqbal Wattoo/
  4. Hamare Conchale

Hamare Conchale

ہمارے چونچلے

ہم میدانی علاقوں میں رہنے والوں کے چونچلے سب سے الگ ہیں۔ دفتر کے ایک ساتھی ٹوائلٹ میں جاتے ہی ہمیشہ سب سے پہلے کموڈ کا فلش بٹن دباتے اور جب تک پہلے سے صاف کموڈ نیلے پانی سے دوبارہ مکمل ایمانی طہارت حاصل نہیں کر لیتا تو تبھی وہ اس پر بیٹھ کر اسے دوبارہ غلیظ کرنے پر تیار ہوتے۔ کئی دفعہ ان سے اس حرکت پر بات بھی کی مگر وہ کہتے کہ اس کے بغیر ان کی تسلی نہیں ہوتی۔ یعنی تین چار لیٹر صاف پانی کو خواہ مخواہ غلاظت والے گٹر میں بہانے پر ہی دل کو تسلی ہوتی ہے۔

لاہور کے فلٹریشن پلانٹس پر پینے کا پانی بھرنے والے لوگ اسی صاف پانی سے پہلے اپنی پانی والی بوتلیں دھو رہے ہوتے ہیں اور یہ فلٹر شدہ پانی سڑک یا گلی میں کھڑا ہوکر کیچڑ بنا رہا ہوتا ہے، حالانکہ اس کو ایک پائپ کے ذریعے قریبی پارک یا حوضی میں ڈالا جاسکتا ہے تاکہ دوبارہ استعمال ہو سکے۔

آپ لاہور کے کسی ڈھابے پر چلیں جائیں وہ لوگ سب سے پہلے پانی کا ایک جگ اور گلاس میز پر رکھ جائیں گے۔ اور کھانا کھانے والے حضرات پہلے اسی جگ میں سے ایک گلاس صاف پانی بھر کر گلاس میں دوتین دفعہ گھما کر فرش پر یا باہر پھینکیں گے اور پھر دوبارہ گلاس میں پانی پئیں گے۔ اسے گلاس میں پانی مارنا کہتے ہیں۔ اسی طرح گلاس میں کسٹمرز کے بچے ہوئے پانی جو ہوٹل والے خود بھی سڑک پر پھینک دیتے ہیں۔

دنیا ہمیشہ اپنے آپ کو درپیش مسائل کے حل کی طرف سوچتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو پانی کی فراوانی کے باوجود اسے باتھ روم فلش کرنے کے لئے استعمال کرنے کو بہت غلط سمجھا جاتا ہے اور اس مقصد کے لئے ری سائیکل شدہ پانی کا استعمال کیا جاتا ہے یا پھر ویکیوم فلش استعمال کئے جاتے ہیں جو کہ باتھ روم فلش کرنے کا سب سے بہترین طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح گھروں یا دفتروں کے فرش یا گاڑیوں کو دھونے کے لئے کبھی پائپ کے ذریعے پانی استعمال نہیں ہوتا۔ جو لوگ بیرون ملک جاتے رہتے ہیں انہوں کسی کو پائپ کے ذریعے پودوں کو پانی لگاتے ہوئے نہیں دیکھا ہوگا۔

میں نے کافی عرصے سے اپنے ڈرائیور پر پائپ سے گاڑی دھونے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ وہ ہمیشہ بالٹی میں پانی بھر کر گاڑی صاف کرتا ہے۔ شروع شروع میں اسے ہمیشہ یہ ایک مشکل کام محسوس ہوتا تھا، لیکن اب وہ اس کا اتنا ماہر ہوگیا ہے کہ جہاں کہیں نئی جگہ پر قیام ہوتا ہے وہ دوسرے ڈرائیوروں کی بالٹی بھر پانی سے گاڑی مکمل صاف کرنے کی تربیت کر رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح ہم بھی اگر اپنی ذات یا اپنے دو ہاتھوں سے گزرنے والے پانی کے ہر استعمال کو سوچ سمجھ کر کرنا شروع کردیں تو بہت بہتری آسکتی۔ تعلیمی اداروں میں اساتذہ اس سلسلے میں بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

ایک اہم کام یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ گھر، سکول یا دفتر میں وضو پوائنٹ یا جاتے دھونے والے پوائنٹ (واش بیسن یا ٹونٹی) مختص کردہے جائیں۔ جس کا سارا استعمال شدہ پانی ایک علیحدہ ٹینک میں جمع کرکے پودوں کو لگایا جاسکتا ہے۔

مجھے اور آپ کو صاف پانی کے حوالے سے اپنی سوچ اور عادتیں بدلنے کی بے حد ضرورت ہے تاکہ شہری علاقوں حد سے زیادہ پمپنگ کی وجہ سے میں زیر زمین پانی کی تیزی سی نیچے جاتی ہوئی سطح کو قابو کیا جاسکے۔ پانی دوست سوچ ہی ہمیں مستقبل کے بحرانوں سے بچا سکتی ہے۔

Check Also

Shahbaz Ki Parwaz

By Tayeba Zia