Lawaris Karachi
لاوارث کراچی
11 اکتوبر 2019 کو کئی شہروں میں شائع ہونے والے قومی روزنامے کے کراچی ایڈیشن کے سِٹی پیج پر صرف ایک دن کی خبریں پہلے اپنی نظر سے گزار لیں۔
- سولجر بازار کے علاقے گل رعنا کالونی میں ایک گھر سے پولیس کو 14 سالہ لڑکے کی لاش ملی۔ وجہ گھریلو جھگڑا بتلایا گیا۔
- ڈیفنس خیابانِ جامی میں آن لائن فوڈ ڈیلیوری کی دوکان میں دھماکہ، چھ افراد زخمی، ایک شدید زخمی، سول اسپتال کے بَرنس وارڈ میں جان کی بازی ہار گیا۔
- بلدیہ ٹاؤن میں بچہ گھر کے ٹینک میں ڈوب کر ہلاک، عمر صرف تین سال۔
- نارتھ ناظم آباد میں پولیس اور ڈاکوؤں کی فائرنگ، زد میں آ کر 9 ماہ کی بچی کو گولی لگ گئی، بچی نے ماں کی گود میں تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔
- سائٹ ایریا میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے نوجوان کو قتل کر دیا۔ لاش عباسی شہید اسپتال پہنچا دی گئی، نوجوان کی عمر صرف 20 سال۔
- سپر ہائی وے کے علاقے خادم سولنگی گوٹھ میں نوجوان گاڑی کی ٹکر سے ہلاک، جیب میں پڑے شناختی کارڈ سے لاش گھر والوں کو بھجوا دی گئی۔
- کراچی کے دو علاقوں ابراہیم حیدری اور اورنگی سے دو نوجوانوں کی لاشیں ملیں، دونوں لاشوں میں مشترک چیز، گَلے میں رسی کا پھندا۔
- ڈیفنس میں ڈرائیور اپنے ہی ٹرک کے نیچے دب کر ہلاک۔
- گلشن حدید میں لال مسجد کے قریب ٹریفک حادثہ، نوجوان ہلاک، شناخت کے لیے جیب سے کوئی چیز نہیں ملی، لاش لاوارث قرار دے کر ٹھنڈے کمرے میں رکھوا دی گئی۔
- پٹھان کالونی میں نوجوان نے بہن کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا، وجہ بہن کی پسند کی شادی۔
- اردو بازار میں دُکان پر بیٹھے نوجوان کے سر میں اچانک گولی آن لگی، پولیس کے مطابق گولی اتفاقیہ چل گئی۔
- گلشن معمار کے علاقے انور مری گوٹھ میں نوجوان فائرنگ سے زخمی۔
- سہراب گوٹھ کے علاقے جمالی پل کے قریب 50 سالہ شخص گولی لگنے سے زخمی، وجہ گھریلو جھگڑا، پولیس ذرائع۔
یہ خبریں، صرف ایک دن کے ایک اخبار کے ایک صفحے کی خبریں ہیں، ان میں شہر کراچی میں ڈکیتیوں کی خبریں شامل نہیں، پورا اخبار اگر چھانیں تو ان خبروں میں مزید اضافہ کر کے اپنے پاگل پن میں مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
یہ سمجھنا کہ اتنے بڑے شہر میں یہ جرائم تو کچھ نہیں تو عرض ہے، یہ تو وہ خبریں ہیں جو کسی نہ کسی ذریعے سے میڈیائی ریڈار سے ٹکرائیں اور برقی و کاغذی میڈیا پر پھیل کر گھر گھر یا نگر نگر جا پہنچیں۔ کیوں کہ ان میں زیادہ تر خبریں پولیس ذرائع سے حاصل ہوتی ہیں، اور پولیس بھی حتی الامکان کوشش کرتی ہے کہ جرائم کی تشہیر کم سے کم ہو، تاکہ ہماری صلاحیتوں کا بھرم بھی زندہ رہے، اور شہر بھی ٹھنڈا ٹھنڈا لگے، شہر اندر سے چاہے دوزخی تندور کی طرح پک رہا ہو۔
ان ایک دن کے اعداد و شمار کو اگر تیس دن سے ضرب کیا جائے، اور پھر ان تیس دنوں کو سال کے تین سو پینسٹھ دنوں پر ضرب دی جائے، تو ضرب کرنے والے کے دماغ پر ضربیں لگنا شروع ہو جائیں گی۔ چلیں ان سب سماجی، معاشی، معاشرتی، لسانی اور حادثاتی جرائم کو تو تھوڑی دیر کے لئے پَرے رکھیں، صرف ڈکیتیوں اور دورانِ ڈکیتی قتل عام کی ضرب تقسیم کریں تو بھی آنکھیں پھٹ جائیں اور کلیجہ منہ کو آجائے۔
چونکہ ہر خبر کسی نہ کسی گھرانے پر کاری ضرب کی طرح پڑتی ہے، بیٹا، شوہر، والد یا بھائی خود تو ایسی ضرب کھا کر کراچی سے چھٹکارہ پا لیتے ہیں، لیکن پیچھے اپنے خاندان کو زندگی بھر کی ذہنی و جسمانی ضربوں کے حوالے کر جاتے ہیں۔ چلیں پیپلز پارٹی کو تو چھوڑیں، اسے تو اس شہر نے کبھی اتنی اکثریت سے نہیں نوازا، کہ پی پی یہ دعویٰ کر سکے کہ وہ بھی شہری پارٹی ہے، اس بار تو اس کا بلوچ گڑھ، لیاری بھی اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔
لیکن پی پی کے لیے فکر کی کوئی بات نہیں، اگر لاڑکانہ، شکارپور، نواب شاہ اور دوسرے سندھی شہروں سے اتنی اکثریت مل جائے کہ پورے سندھ پر حکومت بن جائے تو کیا ضرورت ہے ان چھوٹے چھوٹے بَکھیڑوں میں پڑنے کی؟ ویسے بھی چھوٹے چھوٹے کام تو بڑے بڑے شہروں میں ہوتے ہی رہتے ہیں، مرنے والوں کے لواحقین تو رو دھو کر دوبارہ زندگی کی گاڑی دھکیلنے میں لگ جائیں گے، کوئی ان کے لیے اپنا مزہ کیوں خراب کرے۔
اس لاوارث شہر کا وارث کون ہے؟ کیا ایم کیو ایم، جسے اپنے گورنر کا ہی سرپرائز ملتا ہے، یا جماعت اسلامی، جس کی کراچی کی قیادت اور مرکز کی سوچ اور ترجیحات میں خاصا فرق ہے، یا مصطفی کمال جس کے ہاتھ اب شاید ہی زندگی بھر کراچی کی مُہار آئے، یا آفاق بھائی جنہیں پرائے تو چھوڑ اپنے بھی ووٹ دینے کو تیار نہیں، یا مسلم لیگ جس کی اس شہر سے زیادہ مرکز یا پنجاب کی سیاست میں دلچسپی رہتی ہے۔
لاوارث کراچی میں چلو پانی کا عذاب ٹینکر سے بھگتا لیا، مہنگی بجلی کی مصیبت بچوں کا پیٹ کاٹ کر کسی بینک کی لائن میں لگ کر بھر دی، گیس کی آنکھ مچولی کو اپنے بچپن کے ایک کھیل کی طرح گزار لیا، سڑکوں کے کھڈّوں اور اپنی کمر کے درد کو یکجان کر کے پار کر لیا، بے پیندے کے لوٹے سنا تھا، بے ڈھکن کے گٹروں میں گِر گرا کر زندگی کو بھوگ لیا، سرکاری دفاتر میں افسروں کو چائے پانی یا مٹھائی دے کر اپنا کام چلا لیا، لیکن ان اندھی گولیوں کا کیا کیا جائے، سائیں کچھ تو بتائیں۔
کلف لگی ورردیاں، خوشبودار گاؤن، فرسٹ کلاس تھری پیس سوٹ اور قومی شان کو ظاہر کرتی شلوار قمیضیں اور واسکٹیں پہنے ہر شخص قومی خدمت میں دن رات مصروف ہے، قومی خدمت کی فکر میں اگر کسی کو ایک چیز کی فکر نہیں تو وہ خود "قوم" ہے۔ قومی خدمت میں مصروف یہ سُورما قومی خدمت سے تھوڑا وقت نکال کر کراچی کی بغل میں موجود ایک اور بڑے شہر "ٹوکیو" میں جرائم کی شرح دیکھ لیں، کوئی نئی اسٹریٹیجی بنائیں نہ بنائیں، وہیں سے کوئی کتابچہ منگوا کر لاوارث کراچی کے وارثوں کو بچا لیں۔میر تقی میر سے معذرت کے ساتھ۔
کراچی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
جس کو اپنوں نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے