1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaara Mazhar/
  4. Yaad e Raftgan

Yaad e Raftgan

یادِ رفتگاں

پرسوں ایک پوسٹ لگائی جس میں 90ء کی دہائی کی سحر انگیزی اور ہمارا نوسٹالجیا کئی احباب کو دو تین عشرے پیچھے لے گیا۔۔۔ تقریباً تمام فیس بک فیلوز اِس دہائی کے عشق میں مبتلا پائے گئے۔ ثابت ہوا 90ء کی دہائی ہر لحاظ سے تاریخ کی خوبصورت ترین دہائی تھی۔ ہر میدان کے عروج کا زمانہ تھا۔ سائنس و ٹیکنالوجی پرَ لگا کر اڑان بھر رہی تھیں۔ مگر ابھی بھی اچھا پکنے والا پکوان پڑوس میں پیالہ بھر بھجوانے کے لیے ایک کپ شوربہ بڑھا لیا جاتا۔

ایک پیالی گھی، چینی کے ادھار کے لین دین بغیر کسی شرمندگی کے چلتے رہتے. بے وقت کی بھوک روٹی کے اوپر مکھن اور چینی لگا کے مٹا لی جاتی۔ کتنی بھی آ مدن ہوتی لڑکیاں بالیاں ماؤں کی رہنمائی میں زندگانی کے تمام امور گھر میں ہی نمٹا لیتیں۔ گھروں کی صفائی دھلائی کے لئیے ماسیوں کا رواج نہ تھا۔ عید شب برات پہ بھی کپڑے گھر میں ہی سِلتے۔ بچی ہوئی کترنیں بھی استعمال میں آ جاتیں۔ گوٹے کناری اور کِرن لپّے والے لباس بھی گھر میں ہی تیار کیئے جاتے۔ ڈیزائنرز کا نام کہیں یورپین ممالک میں ہی رہائش پذیر تھا۔

ملبوسات کی تیاری اور کشیدہ کاری کے ہر ٹانکے میں محبتیں اور دعائیں بھی کاڑھ دی جاتیں۔ حتی کہ بیٹیوں کا مکلاوہ ٹورنے کے لیے سوجی اور خشک میوے کے میٹھے لڈو بھی گھر کی سگھڑ خواتین خود ہی تیار کرتیں۔ جس میں محلے والوں کی ناخاستہ و نوخیز بچیاں بھی برابر شریک رہتیں۔ یوں رونق میلے اور کھیل کھیل میں بچیوں کی تربیت بھی ہوجاتی۔ مائیں میدہ گوندھ کر گھروں میں، ، پوٹے کی سویّاں، ، بناتیں جو کسی خوشی کے موقعہ پر بنائی جاتیں۔ باوجود اسکے کہ ہر گھر میں آ ٹھ دس بچے ہوتے دو کمروں میں سب سو جاتے۔ گرمی میں شام پانچ بجے پنکھے بند کر کے چھتوں پر رونق لگائی جاتی مائیں بیٹیوں کو گھر داری کے ہر فن میں طاق کر دیتیں۔

رات دس بجے تمام گھر کی بتیاں بجھا دی جاتیں۔ پورا گھرانہ ایک ساتھ سوتا اور ایک ساتھ جاگتا۔ کھانے پینے کے اوقات مقرر تھے۔ جس روز فجر کی نماز چھوٹ جاتی مائیں سارا دن نحوست اور بے برکتی کے طعنے دیتی رہتیں۔ شرم و حیا اڑنے اور قربِ قیامت کی نشانیوں کی نوبت بجاتی رہتیں۔ چرخِ کہن پر لالی دیکھ کر بڑی بوڑھیاں کہیں خونِ ناحق کی دھائی دیتیں اور توبہ استغفار پڑھتیں۔پورے پاکستان میں 31مارچ تعلیمی اداروں کے سالانہ نتائج کا دن ہوتا۔

نئے جوڑوں کی شادی کی تاریخیں بلا جھجک مارچ کے موسمِ بہار میں رکھ لی جاتیں کہ مہمان سنبھالنا آ سان ہوتا یا دسمبر کی سردی والی چھٹیوں میں شادی نمٹا لی جاتی۔ میرج ہالز یا مارکیز کا نام تک نہ سنا تھا کسی نے۔ گلی محلے میں چند گھنٹوں کے لئیے تمبو قنات لگا کر مہمانوں کو کھانا کھلا لیا جاتا۔ خاندان کے تمام نوعمر لڑکے از خود مہمانداری کی ڈیوٹی سنبھال لیتے۔ یہ لڑکے بالے خاندان کے تمام بزرگوں سے یکساں ڈرتے اور ان بزرگ ایکسرے مشینوں کے سامنے دانستہ جانے سے کتراتے۔

کسی لڑکے کو قابلِ اعتراض جگہ پر دیکھ کر رشتہ دار بزرگ باقاعدہ گھر میں خبر پہنچانے آ تے۔۔ لڑکیاں لڑکے پڑھنے لکھنے کے باوجود جہاں ماں باپ کہتے چپ چاپ شادی کروا لیتے۔ ان دنوں روزگار کے حصول کے لئے باہر کے ملکوں میں جانے کا جنون شدت پکڑ چکا تھا۔ جس گھر میں دو چار بچے پڑھ رہے ہوتےان اورسیز پاکستانیوں کی ان پڑھ مائیں پورے استحقاق سے وقت بے وقت چٹھیاں لکھوانے اور پڑھوانے ہر ہفتے آ جاتیں۔۔ جہاں انہیں چائے کی پیالی اور پورا پروٹوکول ملتا۔

بہن بھائیوں کے چھوٹے ہوئے وے جوتے، کپڑے، جرسیاں، کتابیں کاپیاں چھوٹے بھائی بہنوں کو مل جاتیں۔ اور وہ بھی رغبت سے تبرک کی طرح استعمال کر لیتے۔ پورے گھر میں ایک ہی ٹرن ٹرن والا لینڈ لائین فون ہوتا جو کسی درمیانی جگہ یا لاؤنج میں کنکٹ کروا لیا جاتا۔۔۔ لڈو، کیرم اور اسکریبل مقبول ترین ان ڈور گیمز تھے۔ آ ٹھ بجے پرائم ٹائم کا ڈرامہ پورا خاندان ایک ساتھ بیٹھ کر دیکھتا۔ گلیاں کوچے ویران ہو جاتے۔

فیملی فرنٹ جیسا معیاری سِٹ کام پیش کیا گیا۔ پنجابی فلموں اور موٹی تازی پلی پلائی ہیروئین کی جگہ اردو فلمیں اور دبلی پتلی ہیروئین اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئیں۔ سائنس کی دنیا میں روز ہی کچھ نیا ایجاد ہو جاتا۔ گھر کے ابا، چچا، تایا مل کر قیامت قائم ہونے کی پیشن گوئیاں فرماتے۔ دید، مروت، لحاظ اور فرمانبرداری کی حد بندی بھی اِسی دہائی تک محدود رہی۔ پھر زمانہ رو بہ زوال ہوگیا۔ لگتا ہے فیس بک فیلوز کی زیادہ تعداد بھی اسی خوبصورت دور کے سحر میں مبتلا ہے۔ سو آ ج سے ہم 90ء کی دہائی کو اس صدی کی سنہری ترین اور آ ئیڈیل ترین صدی پکارا کریں گے۔

Check Also

Kahaniyan Zindagi Ki

By Mahmood Fiaz