Lums Ne Urdu Zuban Ke Liye Darwaze Khol Diye
لمز نے اُردو زبان کے لیے دروازے کھول دئیے
اُردو دُنیا کی پہلی تین بڑی زبانوں میں شامل ہے لیکن پاکستان میں اس کا درجہ آج تک متعین نہیں کیا گیا۔ اس زبان کو انگریزی کے سامنے یوں بچھا دیا گیا ہے جیسے یہ سفید پوش ہے اور اس پر قدم رکھ کر انگریزی زبان کو رَعونت کے ساتھ گزر جانا ہے۔ تقسیمِ پاکستان سے قبل اُردو ہندی جھگڑا تھا، پاکستان بننے کے بعد اردو انگریزی جھگڑے کی راہ ہموار ہوگئی۔ پاکستان کے نظامِ تعلیم میں اُردو کو بطور زبان پڑھایا جاتا ہے لیکن میڈیم انگریزی اختیار کیا گیا ہے، انگریزی ہمارے لیے اتنی اہم کیوں ہے؟
اس سوال کے دسیوں جواب ہو سکتے ہیں تاہم ایک جواب جو باوجوہ بُرا محسوس ہونے کے ہمیں اچھا لگتا ہے وہ یہ کہ ہم ایک مستقل غلام قوم ہیں جسے انگریزوں کی غلامی میں خود کو غلام کے لقب سے ملقب ہوتا دیکھ کر نہایت خوشی اور طمانیت کا احساس ہوتا ہے۔ دُنیا بھر میں کہیں یہ رواج موجود نہیں ہے کہ مادری زبان کے علاوہ بدیسی زبان میں تعلیم دی جائے، ہمارے بچے ایک وقت میں پانچ چھے زبانوں میں مغز ماری کر رہے ہوتے ہیں، حیرت کی بات یہ کہ بڑے ہو کر ان کے پاس ایک زبان ٹھیک طرح سے بولنے، لکھنے، پڑھنے، سمجھنے اور اظہارِ خیال کرنے کے لیے موجود نہیں ہوتی۔
ویج بریانی کی طرح اُردو، انگریزی، پنجابی، عربی، فارسی، ہندی اور مقامی زبانوں کے الفاظ کی آمیزیش سے ہماری گفتگو کا کیا معیار سامنے آئے گا کہ ہم بھیڑ ہے نہ بکری، گیڈر ہیں نہ شیر، ہنس ہیں نہ ہی کوا، یہ عجیب صورتحال ہے جس نے پوری قوم کو خلجان میں مبتلا کر رکھا ہے۔ پاکستان کی جامعات میں اُردو کے شعبہ جات موجود ہیں لیکن ان میں ہونے والا کام سطحی اور تعارفی نوعیت کا ہے۔ بی ایس، ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی میں اُردو زبان کا سلیبس ایک سا دکھائی دیتا ہے جس میں برسوں گزر جانے کے باوجود بدلاؤ اور تنوع نہیں ملتا۔ دو چار موضوعات ہیں جن پر سیکڑوں مقالات لکھے جا چکے ہیں، انھیں کا چربہ کاپی پیسٹ کرکے دُہرایا جارہا ہے اورکوئی پوچھنے اور پرشش کرنے والا نہیں ہے۔
اُردو زبان کی سماج میں بطور زبان کا احوال بھی ایسا ہی ہے کہ اُردو بولتے ہوئے شرم، ندامت اور جھجھک محسوس ہوتی ہے۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اُردو زبان بولتے ہوئے سوکالڈ پڑھے لکھے طبقے کو اپنی کم مائیگی اور بے وقعتی کا احساس ہوتا ہے، غلط انگریزی بولتے ہوئے انھیں تفاخر محسوس ہوتا ہے، اس کی ایک بظاہر وجہ یہ ہے کہ انگریزی خواہ کتنی غلط سلط، اوٹ پٹانگ بولتے چلے جائیں، کوئی اُنگلی نہیں اُٹھاتا اور نہ ہی نشاندہی کرتا ہے کہ اندھوں کی دُنیا کی بزم میں آنکھوں والوں کا کیاکام۔
اُردو زبان میں تخلیقی نوعیت کا کام اس گئے گزرے دور میں بھی حوصلہ افزا ہے جبکہ تحقیقی، تنقیدی اور تالیفی سطح پر بہت بُرا حال ہے، اُردو زبان کے کلاسیکی ادب پر اتنا کام ہونے کے باوجود کلاسیکی سرمائے کو مخطوطات سے نکال کر سامنے نہیں لایا گیا۔ تحقیق کے میدان میں جن اصحاب نے اُردو زبان کی تخلیقی صلاحیت کو تحقیق کے ذریعے سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، رشید حسن خان، ڈاکٹر خلیق انجم، پروفیسر خواجہ محمد زکریا، ڈاکٹر تبسم کاشمیری، ڈاکٹر رؤف پاریکھ، ڈاکٹر گیان چند جین، شمیم حنفی، شمس الرحمان فاروقی، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ سے لے کر ڈاکٹر ناصر عباس نیر تک کا کام ہمارے سامنے ہے، ان اصحاب نے اپنی تصانیف کے ذریعے اُردو زبان کو عالمگیری پہچان دی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تحقیق و تنقید کے میدان میں کلاسیکی اور جدید اُردو تخلیقی سرمائے کو سامنے لایا جائے تاکہ اُردو زبان کے الفاظ و اُسلوب سے معمور فنی شاہ پاروں کو دُنیا کی دیگر زبانوں کے ادبی فن پاروں سے تقابل کرکے دیکھنے کا موقع میسر آسکے۔
تقابلی ادب کے ذریعے دُنیا بھر کے موضوعات کو زبانوں کے اسالیب، لفظیات، شعریات اور تنقیدات کے ذریعے سمجھنے، پرکھنے اور اس کامقام و مرتبہ متعین کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اُردو زبان کے روایتی ڈسکورس کو وضع کیے ہوئے ایک زمانہ گزر چکا، گلوبلائزیشن کی وجہ سے دُنیا بہت آگے بڑھ چکی، اب چیٹ جی پی ٹی کا زمانہ ہے، آپ نے فقط سوچنا ہے اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی نے ممکن کر دکھا ناہے۔ اُردو زبان کو تحقیقی زبان ہنوز میسر نہیں ہے، اُردو زبان میں تحقیق کرتے ہوئے آج بھی صدیوں قبل وضع کیے ہوئے تشبیہات و استعارات استعمال کرنا پڑتے ہیں۔ جامعات میں سندی مقالات کی زبان پڑھ کر دیکھنے سے یہ فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ ایک تخلیقی زبان ہے یا تحقیقی۔ پاکستانی جامعات میں تخلیقی، تحقیقی، تنقیدی اور علمی زبان میں آج تک فرق ہی نہیں گیا جس کا نقصان یہ ہوا کہ ہماری تحقیق کامعیار دُنیا کے مقابلے میں انتہائی پست اور غیر موثر ہو کر رہ گیا ہے۔
پاکستانی جامعات میں علمی زبان لکھنے یعنی علمی نثر لکھنے کا رواج ہی نہیں ہے، علمی نثر کیا ہے اور علمی نثر کیوں لکھنا ضروری ہے، اس کے بارے میں ہنوز کوئی مینول موجود نہیں ہے، جامعات میں تحقیق کرتے ہوئے مقالات کی تدوین میں ریسرچ اسکالر کو اتنی مشکل پیش آتی ہے کہ بے چارے سر پیٹ کر اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہیں اور روتے بلکتے ہیں کہ ہم کس مصیبت میں پھنس گئے ہیں کہ حوالہ لکھنے اور کتابیات دینے کے پچاس طریقےموجود ہیں، فٹ نوٹ لگائیے، کتاب کا حوالہ یوں لکھیے، فونٹ اتنا رکھیے، یہ نہ لکھیے، وہ نہ لکھیے، یہ کاٹ دیجیے، ابے، یہ کیا لکھ دیا، دوبارہ مقالہ ریوائز کرو، یہ تو بکواس ہے، یہ تم نے کیا لکھ دیا وغیرہ وغیرہ۔
اللہ بھلا کرے، ڈاکٹر ناصر عباس نیر کا جنھوں نے "علمی نثر: اُصول و رسمیات"کے عنوان سے ایک مینول لمز یونی ورسٹی کے پلیٹ فارم سے ہم تک پہنچایا، یہ مینول دُنیا بھر کے جدید مینول کو سامنے رکھ کر وضع کیا گیا ہے جس کی ترتیب میں عہدِ حاضر کے نامور محققین کی خدمات کو مستعار لیا گیا ہے۔ یہ مینول ہمیں بتاتا ہے کہ جامعات میں ڈگری کے حصول کے لیے لکھے گئے مقالات کے علاوہ تحقیق و تنقید کی غرض سے لکھی گئی زبان کو علمی زبان کیسے بنایا جاتاتا ہے۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے اُردو زبان میں علمی نثر لکھنے کا آغاز کیا تھا، یہ کام انھیں اتنا مہنگا پڑا کہ ان کی جملہ تصانیف پر یہی اعتراض وارد کیا جاتا رہا کہ یہ صاحب کیا لکھتے ہیں اور کس طرح لکھتے ہیں کہ ان کا لکھا ہوا سمجھ میں نہیں آتا۔
لمز یونی ورسٹی کا میں تہ دل سے ممنون ہوں کہ اُردو زبان کی بڑھتی مقبولیت کے پیشِ نظر اس یونیو رسٹی نے اُردو زبان کے لیے اپنے دروازے کھولے، لمز یونی ورسٹی کے گرمانی مرکزِ زبان و ادب کی طرف سے "علمی نثر: اُصول و رسمیات" پر چار ورکشاپ کا انعقاد ہو چکا ہے جس میں پاکستان بھر سے ریسر چ اسکالر شرکت کرتے ہیں اور علمی نثر لکھنے کا جملہ طریقہ کار سیکھتے ہیں۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے لمز یونی ورسٹی میں اُردو زبان کے فروغ کا جو پودا لگایا ہے وہ اب چھتنار کی صورت اختیار کر گیا ہے، گرمانی مرکزِ زبان و ادب کے مقاصد میں مغربی دُنیا سے آنے والے رجحانات، میلانات، تنقیدی تھیوریز، سیاسی و جفرائیائی بدلاؤ کے پیشِ نظر ادبیاتِ عالم میں ہونے والے تخلیقی، تحقیقی اور تنقیدی کام کو اُردو زبان میں متعارف کروانا شامل ہے۔
گرمانی مرکز زبان و ادب کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نصرہ شہباز خان کا یہ خواب ہے کہ لمز یونی ورسٹی اُردو زبان و ادب کے فروغ کے حوالے سے دُنیا بھر میں ایک منفرد شناخت کے طور پر سامنے آئے۔ اس خواب کی تکمیل میں انھوں نے جن اصحاب کو اپنی ٹیم کا حصہ بنایا ہے ان میں ڈاکٹر ناصر عباس نیر، ڈاکٹر ضیا الحسن، ڈاکٹر نجیب جمال، ڈاکٹر رؤف پاریکھ، ڈاکٹر تبسم کاشمیری، ڈاکٹر سہرو الہٰدی، ڈاکٹر عابد سیال، سیدہ حبیبہ رضوی، ڈاکٹر شائسہ حسن سمیت بیسویں مشہور علمی و ادبی شخصیات ہیں جو اُردو زبان و ادب کا درخشندہ ستارہ ہیں۔
گرمانی مرکزِ زبان و ادب سے نکلنے والا سالانہ ریسرچ جنرل "بنیاد" اس معیار کی ایک مثال ہے۔ اُمید کی جاتی ہے کہ لمز یونیورسٹی کے گرمانی مرکزِ زبان و ادب کی طرف سے اُردو زبان کو تحقیق کی جدید رسمیات سے نہ صرف آگہی کا تخلیقی و تنقیدی سرمایہ سامنے آئے گا بلکہ اُردو زبان و ادب سے متصل متعلمین و معلمین کی رہنمائی کے لیے یہ ادارہ اپنی خدمات دیتا رہے گا۔