Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaara Mazhar/
  4. Thyroid Glands, Aik Jankari

Thyroid Glands, Aik Jankari

تھائرائڈ گلینڈز، ایک جانکاری

چودہ برس پہلے مجھے ہائپو تھائیرائڈ کا مرض لاحق ہوا یہ مرض کس نام کی بلا تھی، بالکل خبر نہیں تھی بالکل انجانا سا نام تھا، کافی دن لگے نام یاد کرنے میں۔ علامات میں بس گلا اکثر خراب رہتا شدید درد کرتا ناک سے سانس بند ہو جاتی اور لیٹنے سے منہ سے بھی بند ہو جاتی میں تکیوں کے ڈھیر پہ ٹیک لگائے اور منہ کے ذریعے سے سانس لے کے بیٹھے بیٹھے نیند پوری کرتی۔

پہلے ہاسپٹل کے فزیشن کو دکھایا دوائیں لیتی رہی پھر ای این ٹی سپیشلسٹ تک ریفر کی گئی ناقابل علاج ہو کے پی ایف بھیج دی گئی۔ سال بھر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کوئی ہائی پونٹنسی کی اینٹی بایوٹک تک بھی اثر نہیں کر رہی تھی مرض کی شدت تب اور بھی بڑھ جاتی، جب میری آب و ہوا تبدیل ہوتی یعنی جب میں دوسرے شہر میں جاتی میرا گلا ایک دم گپ چپ ہو جاتا آواز گم ہو جاتی۔

مجھے جو بھی بات کرنا ہوتی میں دوسرے کے کان میں منہ رکھ کے بات کرتی اگر کبھی کسی کو آواز بند ہونے کی شکایت ہوئی ہے، تو صرف وہی جانتا ہے کہ یہ کتنی بڑی بے بسی کی بات ہے۔ اول اول میں یہ سمجھی کہ شائد ماں کے یا سسرال کے گھروں میں گھی کا برانڈ مختلف ہے۔ اس لئے آواز بند ہو جاتی ہے۔ اتفاقاً کسی ہیلتھ ڈائجسٹ میں تھائرائڈز کے امراض و علامات پہ ایک آرٹیکل پڑھا۔

تو مجھے لگا کہ اس مرض کی تمام علامات مجھ میں موجود ہیں، میں بھاگی بھاگی اپنی میڈیکل سپیشلسٹ کے پاس گئی اور انہیں کہا کہ مجھے لگ رہا ہے کہ میری صحت کا مجرم یہ تھائرائڈ ڈس آرڈر ہے، انہوں نے پوچھا آپ کو کیسے لگا میں نے اپنی تمام کمزور علامات بتائیں انہوں نے اتفاق کرتے ہوئے فورا ٹیسٹ لکھ دئیے تیسرے دن لیبارٹری سے رپورٹ آئی جو کہ مجھے ہائپو ٹھائرائڈِزم کی مریضہ بتا رہی تھی۔

میں سخت پریشان ہوگئی، میری تحقیق بتا رہی تھی کہ یہ مرض تھوڑا سا ظالم ہے، جلدی دوا کے قابو میں نہیں آتا علاج کی شروعات ہو گئیں، آپ کے مرض اور باڈی کو کتنی ڈوز کی ضرورت ہے یہ جاننے میں پانچ سال گزر گئے۔ ان طویل پانچ برسوں میں ہر دو ماہ بعد بلڈ سیمپلز کے ٹیسٹ اور ان میں شدید گڑ بڑ کے بعد ڈوز بڑھائی جاتی جو نہار منہ تین ٹیبلٹس تک جا پہنچی۔

یہ ننھی ننھی ٹیبلٹس ٹھائیراڈ گلینڈز کو ریپئر تو کرتی ہیں۔ لیکن مریض کی ہڈیوں کو سخت نقصان پہنچاتی ہیں اسکے ساتھ کیلشیم دوا اور غذا میں لازمی رکھنا پڑتا ہے۔ میں نے گوگل پہ جاکے تحقیقی و علمی آرٹیکلز پڑھے تا کہ اسے اچانک بن جانے والی ہمسفر کے ساتھ رہنا سیکھ سکوں ان آرٹیکلز اور ریسرچز کو اپنی بیماری کے ساتھ ملا کے پڑھنے کا بڑا اچھا فائدہ ہوا مطالعہ سے معلوم ہوا کہ مجھے اپنی ڈوز گھٹانے کی ضرورت ہے۔

میں نے اپنی ڈوز اور اپنے میڈیکل سپیشلسٹ کے مشورے کے ساتھ بتدریج دوا میں کمی کا سفر شروع کیا۔ آپکے مرض کا ایک علاج آپکے ڈاکٹر کرتے ہیں، اپنی ہیلتھ کنڈیشن کے ساتھ تھوڑا سا مریض نے بھی کرنا ہوتا ہے یہ بات اس لئے کہی کہ ٹیسٹ رپورٹس سے ظاہری علامات اور مرض کی کنڈیشن دیکھ کر میڈیکل سپیشلسٹ ڈوز کی مقدار تجویز کر دیتا ہے۔

لیکن دوا مریض کی باڈی کے ساتھ کیا ری ایکٹ کرتی ہے یہ مریض ہی بتا سکے گا آپ ڈاکٹر کے اکیلے اکلوتے مریض نہیں ہیں نہ ہی آؤٹ ڈور پیشنٹ کو ہر وقت لیبارٹری میں ایگزام کیا جا سکتا ہے۔ تھائرائیڈز عموما دو طرح سے پرابلم میں آتے ہیں یا تو سرے سے کام کرنا ہی چھوڑ چکے ہوتے ہیں۔ جو ہائپو تھائرائڈزم کہلاتا ہے یا پھر زیادہ ایکٹو ہو جاتے ہیں، جو ہائپر تھائرائڈزم کہلاتا ہے۔

ہائپوتھائرائڈزم میں گلے کے تتلی نما گلینڈز کام نہیں کرتے اور مریض کی حرکات و سکنات دھیرے دھیرے مائل بہ سستی ہو جاتی ہیں، ہر دم سستی سوار رہتی ہے ہاتھ تک ہلانے کو جی نہیں چاہتا جتنی بھی حرکت کرنی ہے من کو مار کے کرنی ہے ڈائجسٹ سسٹم بہت سلو ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے جسم بھی موٹاپے کا شکار ہو جاتا ہے، آواز کا لوچ ختم ہو جاتا ہے اور پھر آواز بھاری ہوتے ہوتے مردانہ سی یا ٹوٹی پھوٹی سے ہوجاتی ہے۔

نیند کی دیوی ہر دم فدا رہتی ہے۔ جس سے آنکھیں مندھی مندھی رہتی ہیں اور مریض خراٹے بھی بھرنے لگتا ہے بالوں کا ٹیکسچر پتلا ہوکے پھٹ جاتا ہے رنگ اڑ جاتا ہے۔ جس سے بال بد رنگے اور اڑے اڑے سے رہتے ہیں ناخن کا ٹیکسچر ایکدم پتلا ہو جاتا ہے اور کپڑا بھی زور سے مس ہونے سے ناخن ٹوٹ جاتے ہیں اور سب سے بڑی پرابلم کہ ایک ہارٹ بیٹ مِس ہونے لگتی ہے، یعنی مرض کی شدت کے لحاظ سے مریض کی دو دھڑکنوں کے بعد تیسری دھڑکن مِس ہو جاتی ہے۔

پھر چوتھی آتی ہے دل پہ ہاتھ رکھیں تو واضح طور پہ محسوس ہوتا ہے دھک۔ دھک۔۔ دھک یا پھر دھک۔ دھک۔ دھک۔ دھک۔ اور سب سے اہم بات کہ مریض اونچائی والی جگہ پہ جاتے ہی دل ڈوبنے والی کیفیت میں گھر جاتا ہے، آکسیجن کی کمی سے شدید متلی کی کیفیت طاری رہتی ہے اور چلتے چلتے کئی بار دماغ الٹ پلٹ جاتا ہے۔ جیسے کسی نے دو چار سیکنڈز کے لئے ایک موٹی کتاب کے ورق اپنی انگلی اور انگوٹھے میں دبا کے پھڑپھڑا دئیے ہوں۔

ہائپر تھائراڈزم میں سب کچھ ہائپو کے برعکس ہوتا ہے، مریض کا نظام انہضام بہت بڑھ جاتا ہے ہر وقت بھوک لگی رہتی ہے نیند نہیں آتی ہر چیز نگلنے کی وحشت میں آنکھیں پھٹی پھٹی رہتی ہیں بے تحاشا کھانے کے باوجود جسم سوکھتا جاتا ہے اعضاء گھسنے لگتے ہیں، پیشنٹ کو معمولی بات پہ شدید غصہ آتا ہے۔ میرے تھائرائیڈز کام کرنا چھوڑ چکے تھے اور دل کی دھڑکن دھک۔ دھک۔۔ دھک جیسی ہوتی تھی۔

میں نے مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود اپنی مضبوط قوت ارادی اور گوگل سرچ کی معلومات سے کام لیتے ہوئے اس افتاد کے ساتھ فائیٹ کرتے ہوئے مرض کو شدت پہ جانے نہیں دیا نہ ہی سستی کو غالب آنے دیا تھا۔ میرے پاس وسیع لان اور بیک یارڈ میں کچن گارڈن تھا دن کا بیشتر وقت میں گارڈننگ میں گزار دیتی، جس سے کافی ایکٹو رہتی ابھی موٹاپا بھی ایسا نہیں تھا کہ بد نما معلوم پڑتا۔

چھ سال گزرنے کے بعد میری ڈوز 50 mcg کی ایک ٹیبلٹ پہ رک چکی تھی ڈوز لینے کے آدھ پون گھنٹے بعد ناشتہ کر سکتے ہیں، یعنی ڈوز کی تاثیر آپکے خون میں رواں ہو جائے تب۔ روزانہ نہار منہ دوا لینا اتنا ضروری ہے کہ آپ سانس لینا بھول جائیں تو بھول جائیں دوا بھولنا افورڈ نہیں کر سکتے۔ ہاں ایک آسانی میں نے خود تلاش لی ہے کہ اگر کبھی کسی ایمرجنسی میں ڈوز لینا بھول جائیں تو اگلے دن ڈبل ڈوز لے لیجیے۔

تھائیراڈ ایک ایسا لاڈلا سا مرض ہے۔ جو تمام زندگی آپکے ساتھ رہتا ہے، ہر دو تین ماہ بعد ٹیسٹ لازماً ریپیٹ کرنے ہوتے ہیں تاکہ اگر مرض گڑ بڑ کر رہا ہے تو اوور ڈوز یا لیس ڈوز سے جلدی قابو میں کر لیا جائے۔ سات آٹھ سال کی خواری کے بعد گذشتہ سات سالوں سے میری ڈوز ایک ٹیبلٹ پہ رک چکی ہے۔

T3

FT4

TSH

عموماً نارمل کے آس پاس ہی رہتا ہے، کبھی تو رزلٹ اور نارمل رینج برابر ہوتی ہیں۔ کبھی معمولی سے پوائنٹس کا فرق آجاتا ہے۔ لیکن وہ بھی نارمل میں ہی سمجھا جاتا ہے اور دھڑکن بھی دھک۔ دھک۔ دھک کے معمول پہ ہے۔ اگر کوئی ڈاکٹر اس آرٹیکل کو پڑھے اور انہیں لگے کہ اس معلومات میں کہیں کوئی کمی بیشی غلط انفارمیشن ہے، تو گائیڈ کر دیں تاکہ درستی کر دی جائے مریض بہرحال ڈاکٹر نہیں ہوتا۔

Check Also

Mazdooron Ka Aalmi Din

By Kiran Arzoo Nadeem