Aaj Tum Yad Be Hisab Aaye
آج تم یاد بے حساب آئے
آج ہمارے خالدی (خالد سعید) کو ہم سے جدا ہوئے دو برس بیت گئے۔ ان دو برسوں میں کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب ہم میں سے کسی نے انھیں یاد نہ کیا ہو۔ وہ ہماری روزمرہ کی گفتگوؤں، آرٹس فورم کے اجلاسوں، اکابر ادیبوں کے تذکروں، نئی کتابوں کے تبصروں، سگریٹ کے مرغولوں، گول باغ میں چائے کی چسکیوں اور سیاسی دھماچوکڑی کے چٹکلوں میں اسی طرح شامل رہتے ہیں جیسا کہ پہلے دن سے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ یہیں کہیں ہمارے آس پاس موجود ہیں۔ اور یہی سب سے زیادہ زندہ شخص کی نشانی ہے۔
خالدی کو گزشتہ ماہ ہی تو گول باغ میں اپنی محبوبہ ایف ایکس کار میں دیکھا تھا۔ وہ گاڑی سے باہر نکلے۔ پرنسٹن کے لمبے کش لیتے ہوئے ملتان میں پیپلز پارٹی کی حالیہ الیکشن میں بے مثال کامیابی کا نعرہ مستانہ بلند کیا۔ وہ سرشار تھے کہ ملتانیوں نے یوسف رضا گیلانی سے دوستی کا حق ادا کر دیا ہے۔ انھوں نے جینز کی جیب سے موبائل فون نکالا اور علی نقوی کو فون کرتے ہوئے کہا کہ علی اب تو ملتانیوں سے خوش ہو ناں۔ علی بہت خوش ہوا نمستے ہاتھ جوڑ کر شکریہ ادا کیا۔
عامر سہیل کو نئے گھر اور "انگارے" کی سہ بارہ اشاعت کی مبارک باد دی اور مقبول گیلانی کو کن اکھیوں سے دیکھا تو گیلانی فورا سمجھ گئے اور کہا "لالہ تعمیل تھیسی"۔ اسی دوران ان کا ناصر عباس نیر سے فون پر رابطہ ہوا تو انھیں اورینٹل کالج کے "قید خانے" سے رہائی پر بڑی گرم جوشی سے مبارک باد دی کہ بڑے دماغوں کے لیے سرکاری ملازمت طوقِ غلامی سے کم نہیں۔ بالخصوص اس وقت جب ہر طرف بغض و عناد اور حسد و کینہ کی اجارہ داری ہو۔ ان حالات میں یہ رہائی نعمتِ غیر مترقبہ ہے۔
ابھی چند دن پہلے کی بات ہے۔ انھوں نے ملتان آرٹس فورم میں ڈاکٹر اسد اریب کے اعزاز میں منعقد کیے گئے خصوصی اجلاس میں ان سے وابستہ یادوں کو تازہ کیا۔ کچھ چھیڑ چھاڑ بھی ہوتی رہی۔ جنھیں سن کر اسد اریب کبھی سرشار کبھی شرما جاتے۔ یہی پر ہی انھوں نے اپنے محبتی شاگرد اختر علی سید کو "ایڈورڈ سعید اور دانشور کا کردار" پر گفتگو کرتے سنا تو بہت خوش ہوئے۔ اپنے اسی شاگرد سے اپنی وضع کردہ نئی اصطلاح "نیو ڈارک ایج" کی تفہیم، تعبیر اور تشکیل سنی تو جھوم اٹھے کہ میرا کام ہوگیا۔
مقبول گیلانی ملائشیا جانے لگے تو خالدی نے انھیں سرگوشی میں کہا: "ملائشیا ویندے پئے ہوتاں اپنڑی نوہاں (بہوئیں) کیتے سس نال گدی اوائے۔ انھاں کوں سس دی کمی نہ محسوس تھیوے"۔
انھیں مزید تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اتھائیں کتھائیں"چٹڑے پدھر تے بہہ دل لٹوائی ھم وے" گاسو تاں کوئی نہ کوئی آ ویسی"۔
وہ ڈاکٹر علی اطہر کا سفرنامہ ملاوی "فاصلوں کے درمیاں" پڑھ چکے تھے۔ اب جب وہ کینیا جانے لگے تو انھیں کہا "ڈاک اس سفرنامے میں کچھ جنسی معاملات بھی ضرور لکھنا۔ " علی اطہر مسکرانے سے زیادہ شرمانے لگے تو کہا اس شرمیلے پن کو یہیں ملتان چھوڑ کر جاؤ۔
خالدی ایک دن گول باغ میں چائے پی رہے تھے کہ وہیں سئیں رفعت عباس سے ملاقات ہوگئی۔ وہ ان کا نیا ناول "نیلیاں سلھاں پچھوں" پڑھ چکے تھے۔ علیک سلیک کے بعد کہا: سئیں تساں ایں ناول اچ کمال کر ڈتے۔ اساں ایویں ملتانی ثقافت تے بہوں مانڑ کریندے رہ گئے ہیں۔ تساں تاں ایندی وی بھن ترٹ کر ڈتی اے۔ ہیر دے قتل دی ایف آئی آر کٹھے کٹویسوں۔ میں تہاڈے نال آں۔ " رفعت عباس نے کسی قدر طمانیت کا اظہار کیا۔
ڈاکٹر اسلم انصاری کو فارسی کلیات "گلبانگِ آرزو" کی اشاعت پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ "انصاری صیب ہن تساں آپ بیتی لکھو، جیہڑی جوش ملیح آبادی دی "یادوں کی برات" تے ساقی فاروقی دی "آپ بیتی پاپ بیتی" توں ہک قدم اگھاں ہووے۔ " یہ سنتے ہی انصاری صاحب کچھ ششدر اور کچھ سراسیمہ ہوگئے۔
دیوارِ خستگی ہوں مجھے ہاتھ مت لگا
میں گر پڑوں گا دیکھ مجھے آسرا نہ دے
یہ شعر سنتے ہی خالدی نے فورآ کہا: "انصاری صیب پریشان نہ تھیوو، کل تہاڈی سالگرہ اے۔ سیلیبریشن کریندے ہیں۔ تساں فکر نہ کرو، سارا انتظام تھی ویسی۔ تہاکوں چا وی گھنسوں تے چھوڑ وی ڈیسوں۔ کل ہمت کرو چا۔ زندگی اچ کجھ نویں کم وی کرنڑے پوندن"۔
انصاری صاحب نے یہ سنتے ہی خاموشی اختیار کی۔ لیکن یہ خاموشی ایجاب و قبول والی نہیں تھی۔
خالدی ہم سب کے دلوں میں زندہ ہیں اور ہمیشہ رہیں گے لیکن پھر بھی ان کی یاد دلوں کو کچوکے لگاتی رہتی ہے۔ درویش صفت شاعر ذوالکفل بخاری نے شاید ایسے گیانی لوگوں کے بارے میں بہت پہلے کہا تھا:
وہ جہاں گردِ زمانہ
ناکشودہ منظروں کے کھوج میں محوِ سفر
نت نئی راہوں پہ پھیلی
پُر تحیرّ روشنی کی اَن چھوئی ٹھنڈک کا پیاسا
صد ہزاراں سال کی تشنہ دہانی لے گیا
روشنی باطن کی، آنکھوں کی چمک
دوپہر کی دھوپ سی اُجلی جوانی لے گیا
اک مہاگیانی جو اپنی گیان دانی لے گیا
شَبد اپنے لے گیا وہ، اپنی بانی لے گیا
وہ سبھا ساجن، پریمی، ہاں وہ سیلانی پریتم
بھیدیا، بھیدوں بھرے جیون جگت کا بھیدیا
سنجوگ، سنگت، سانجھ کے، سمبندھ کے بھیدوں بھری جیون کہانی لے گیا۔