Aik Aur Yakum May
ایک اور یکم مئی
جب بھی کوئی نظریہ پیش کیا جاتا ہے تو اس کے پیچھے کچھ بنیادی وجوہات ہوتی ہیں، کیونکہ کوئی بھی نظریہ ایسے ہی وجود میں نہیں آجاتا، اس کا ایک پس منظر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر نظریہ پاکستان، نظریہ پاکستان کے پیچھےایک سوچ کارفرما تھی، یہی سوچ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کا موجب بنی۔ اسی طرح کیپیٹل ازم کے نظریات کے الٹ ایک نظریہ کمیونزم وجود میں آیا۔
یکم مئی جو دنیا بھر میں یوم مزدور کے حوالے سے منایا جاتا ہے اس کی بھی کچھ بنیادی وجوہات ہیں، ایک پس منظر ہے جو دنیا بھر کے مزدوروں کو سارا سال اپنا استحصال کروانے کے باوجود اپنے لیے آواز بلند کرنے اور اپنے حقوق کا تحفظ کروانے کی حقیقت سے آشکار کرتا ہے۔
یوم مزدور کی اہمیت اور حقیقت کا اندازہ لگانے کے لیے ضروری ہے کہ یورپ اور امریکا میں اُس وقت کے سماجی اور اقتصادی حالات کا جائزہ لیا جائے تاکہ محنت کش طبقے کو یہ معلوم ہو سکے کہ آخر ایسی کیا وجہ تھی جس کی بنیاد پر محنت کشوں کے سرپرستوں نے مزدوروں کے حقوق کے حصول کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ تک دینے سے گریز نہیں کیا۔ یہ وہ دور تھا جب امریکا اور یورپ میں پرانا فرسودہ جاگیر دارانہ نظام تیزی سے ختم ہو رہا تھا اور اس کی جگہ ایک نیا سرمایہ دارانہ نظام مضبوطی کے ساتھ پنپ رہا تھا۔
اس صنعتی سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ مزدور طبقہ بھی بڑے بڑے شہروں میں روز بروز بڑھ رہا تھا مگر ان مزدوروں کی حالت غلاموں سے بھی بدتر تھی۔ ان مزدوروں کے کام کا کوئی وقت مقرر نہ تھا۔ سولہ سولہ گھنٹے کام، سورج نکلنے سے پہلے ہی وہ اپنے کارخانوں میں داخل ہوتے تھے، پھر سورج غروب ہونے کے بعد ہی کہیں جاکر اپنے جھونپڑی نما مکان میں پہنچتے تھے۔ فیکٹریوں میں مسلسل پندرہ پندرہ اور سولہ سولہ گھنٹے کا جان لیوا کام، غرض کہ انہیں اس ذلت و رسوائی اور بدحالی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
مزدوروں کی اس دہشت ناک حالت کے پیش نظر انہیں سرمایہ داروں کے ظلم وتشدد اور ناانصافیوں سے نجات دلانے کے لیے اس وقت امریکا اور یورپ میں کئی مقامی مزدور تنظیمیں کام کر رہی تھیں۔ ان تنظیموں نے اپنے منشور میں مزدور طبقے کی منظم جدوجہد کے ذریعے محنت کشوں کی حاکمیت قائم کرکے دُنیا میں سوشلسٹ نظام قائم کرنے کے بھرپور عزم کا اظہار کیا تھا۔ ان مزدور تنظیموں نے اس منشور کے لیے بین الاقوامی سطح پر کام کرنے کی سہولت اور تنخواہوں میں اضافے کے مطالبات کے علاوہ فیکٹری کے مزدوروں کو اپنی یونین بنانے کا حق جیسے مطالبات پیش کیے تھے۔
مزدوروں کے یہ بنیادی مطالبات رفتہ رفتہ ساری دنیا کے مزدوروں میں پھیل گئے اور بین الاقوامی مزدور برادری کے مشترکہ نعرے بن گئے جب کہ مزدور برادری کے ان مشترکہ مطالبات کے لیے شکاگو کے صنعتی مزدوروں نے یکم مئی کو دنیا میں پہلی بار ایک منظم قدم اُٹھا کر اپنے کارخانوں میں ہڑتال کرکے جلوس نکالا تھا اور اس جلوس پر سرمایہ داروں کی فوج اور پولیس نے اندھادھند فائرنگ کرکے انہیں منتشر کرنا چاہا تھا اور شکاگو کی گلیاں اور بازار مزدوروں کے خون سے اگرچہ لالہ زار بن گئی تھیں مگر سرمایہ داروں کی اس وحشت ناکی اور بربریت سے خوف زدہ ہو کر دبک جانے کے بجائے مزدور بپھر گئے اور اپنے ساتھیوں کے خون سے انہوں نے اپنے لباس رنگ کر سرخ پھریرے فضا میں لہرا دیے۔ اس طرح مزدور تحریک نے ایک نئی زندگی کی امید جگائی۔
یکم مئی کی ایک لمبی جدوجہد کے بدلے میں مزدوروں کو ملنے والی مراعات اور سیاسی شعور کا ایک جائزہ ہم خصوصی طور پر اگر اپنے ملک کی ٹریڈ یونینز، سیاسی پارٹیوں اور ریاستی اداروں کی قیادت کا جائزہ لیں تو بڑے دکھ اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو نہیں نبھایا بلکہ یوں کہا جائے کہ نام نہاد نجکاری اور اداروں کی ری اسٹرکچرنگ کے نام پر تمام بڑے بڑے اداروں کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ ماضی کی حکومت نے مزدوروں کے تمام حقوق سلب کر لیے۔
آج یوم مزدور کے نام پر تہوار تو منایا جاتا ہے لیکن اس دن بھی مزدور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے سارا سارا دن کام کرتے ہیں اور سرمایہ دار ان کی محنت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنی تجوریوں کو مسلسل بھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ آج سرمایہ دار کی تمام تر دولت کو بڑھانے میں اپنا خون پسینہ ایک کر دینے والا مزدور دو وقت کی روٹی کیلئے ترستا ہے، اپنے بچوں اور بیوی کے اخراجات برداشت نہیں کرپاتا لیکن سرمایہ دار طبقہ آج کے دن بھی اس کا خون جلانے کیلئے اس کے حقوق کے فقط نعرے لگاتا دکھائی دیتا ہے۔
یکم مئی ہمیں دنیا کے مزدوروں کی جدوجہد کا پیغام دیتا ہے۔ ہمیں اس بات کا سبق دیتا ہے کہ ہمیں بھی اپنی صفوں کو درست کرنا ہوگا۔ ملکی سطح پر ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر محنت کشوں اور متوسط طبقے کے مسائل حل کرنے ہوں گے اور ان کی آواز کو ایک موثر طاقت دینا ہوگی۔ فقط نعرے لگانے، کنونشنز کرنے اور ریلیاں نکالنے سے مزدور طبقے کے حقوق کا تحفظ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کیلئے عملی طور پر حکومتی سطح پر اقدامات کرنا ہوں گے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو غریب اسی طرح غریب سے غریب تر اور امیر اسی طرح امیر سے امیر تر ہوتا جائے گا۔ اور غریب یہی کہتا ہوا سنائی دے گا کہ۔۔
عجب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں
لگا کر زخم، نمک سے مساج کرتے ہیں
غریب شہر، ترستا ہے اک نوالے کو
امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں