1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaara Mazhar/
  4. Pakhandi (1)

Pakhandi (1)

پاکھنڈی(1)

وہ اپنے حلقہ احباب میں بڑی با ذوق مانی جاتی تھی۔ خوش حالی اور آ سودگی چہرے اور عادات سے ظاہر ہوتی تھی بہت خوب صورت نہیں تھی مگر فراغت نے چہرے پر بارعب سی ملاحت، طمانیت اور لاپروائی گھول دی تھی۔لائق فائق خوبصورت بچے، چاہنے والا ویل سیٹلڈ شوہر، سجا سجایا گھر جو اس نے اپنی موجودگی سے جنت بنا رکھا تھا۔ ایک عورت کو اور کیا چاہیے۔ دیکھنے والےدیکھتے ہر گزرتا دن اس کو ایک مسحور کن تابانی بخش رہا تھا۔ ہر روز ایک دن چھوٹی ہو جاتی۔ خوش مزاجی انگ انگ سے پھوٹتی۔ جہاں دو گھڑی کو کھڑی ہو جاتی لگتا پھلجھڑیاں چھوٹ رہی ہیں۔

آ س پاس کا سارا ماحول روشن ہو جاتا۔ بھر سا جاتا۔ گنگنانے لگتا۔ اکثر لوگ سمجھتے مغرور ہے۔ مگر وہ تو ایک احساسِ طمانیت تھا جو اسے یہ سارے الوہی رنگ عطا کر گیا تھا۔ ورنہ جو بھی اسکو ایک بار ملتا گرویدہ ہو جاتا۔ صاف ستھری گفتگو میں ادبی شستگی گھلی تھی جو اسکے وسیع مطالعے اور با ذوق ہونے کا اعلان کرتی۔جاذبِ نظر تو پہلے ہی دِکھتی تھی اب دمکنے لگی موتیوں کی طرح تاباں، ستاروں کی طرح ضو فشاں۔ تلّے کی تار ہی بن گئی۔ بات بے بات قہقہے ابلتے سہیلیاں جل جاتیں یار کیا کھانے لگی ہے تو۔۔ چوری چوری کوئی ڈائٹ پلان فالو کر رہی ہو۔ ضرور یوگا شروع کر دی ہے۔ نہیں نہیں جم جاتی ہوگی تیسری وثوق سے سر ہلاتی۔

وہ قلقل کر کے ہنس پڑتی۔ اسکی ہنسی میں جھرنے بہتے چاندی کی پازیبیں بجتیں۔ آنکھوں سے مستیوں کے جام بہتے، گہرائیاں ہلکورے لیتیں۔ چہرے پر شادابیاں۔ سنہری سی گلابیاں گھل گئیں۔ جوانی اپنے نصف النہار پہ اب لگتی تھی۔ ہر وقت دوڑتی بھاگتی رہتی۔ ابھی مالی کے ساتھ پائنچے اڑسے دستانے چڑھائے کھرپا پکڑے اسے گوڈی کا ڈھنگ بتا رہی ہے۔ پھول پتوں سی الجھ رہی ہے۔ ابھی۔ ارے ابھی تو ملازمہ کے ساتھ کونا کونا چمکا رہی تھی۔ پورا گھر باغیچے کے تازہ پھولوں سے سجا دیتی اور گھنٹہ بھر میں ہی ٹرے اٹھائے پکوان سجائے اڑوس پڑوس کو کھانے کھلا کر داد سمیٹ رہی ہوتی۔

میاں کے آ نے سے پہلے نہا دھو، سج سنور کر استقبال کو تیار۔رات کو کتابیں ساتھی ہوتیں کبھی لکھ لیتی کبھی پڑھ لیتی۔ لگتا چوبیس گھنٹوں میں سے چالیس کشید کر رہی ہے۔پتہ نہیں ایک دم کیا ہوا چپ چپ رہنے لگی۔ مرجھانے لگی۔ کپڑے مسلے، ملگجے۔ نہانے کا خیال ہی نہ رہتا کسلمندی سے اٹھنا ہی محال لگتا مانو کوئی آ سیب چمٹ گیا ہو۔ دہری سی ہوئی پڑی رہتی۔ بچھو کاٹ گیا یا ناگ ڈس گیا ہو۔ دنوں میں نچڑ گئی ہمدرد کہتے نظر لگ گئی ہے۔ بچے پریشان گھر والا حیران۔ جگت خالہ بی ہول کر سوچتیں ضرور کوئی بڑی بیماری لگ گئی ہے۔ آ خر ہمارا بھی تجربہ ہے۔ متین میاں کتنے پریشان ہیں۔ اندر اندر علاج کروا رہے ہیں۔

اریب قریب کی سکھیاں حیران۔ یار بتا تو ہوا کیا ہے۔ چاہنے والا شوہر پریشان ہو کر سارے ٹیسٹ کروا لایا۔ مگر بیماری ہوتی تو پکڑی جاتی۔ وہ توکوئی روگ تھا جو وہ لگا بیٹھی تھی۔ کوئی ناگ تھا جو پال بیٹھی تھی۔ کوئی جوگ تھا جو دنیا تیاگ بیٹھی تھی۔ ایسے مرض کب کسی ٹیسٹ میں آ تے ہیں۔ بے تکلف سہیلی مذاقاً بولی کہیں عشق کی بلا تو تیرے پیچھے نہیں پڑ گئی۔ اور اسکا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔ میری حالتِ زار ایسی دگرگوں ہو گئی کیا۔ مجھے اس سے کاہے کی چاہ تھی بھلا۔ آ ئینہ حیرت زدہ سا چپ تھا۔۔

ایک اجڑی اکھڑی اجنبی عورت ویران چہرہ لیئے ٹکر ٹکر تک رہی تھی۔۔۔ نہیں نہیں مجھے خود کو سنبھالنا ہو گا من ہی من میں عہد کیا۔ خود کو سنبھال لوں گی ایک اور عہد۔ ورنہ بسی بسائی گھرستی اجڑ جاۓ گی بچے رُل جائیں گے سہیلیوں کی بات ان کے جاتے ہی سمیٹ دی۔اپنے اندر کی سسکتی عورت کو ڈانٹا، ڈپٹا، دلاسہ بھی دیا اور اسکے ساتھ مل کر خوب روئی۔ رو لے رو لے آ ج دل بھر کر رو لے خود کو بھی اور اسکو بھی۔ پھر فاتحہ پڑھ چھوڑیں صبر کر لئیں (دل نے پھر دہائی دی۔) مگر وہ بے حِس بن گئی۔

اندر کی ٹھکرائی ہوئی عورت ضد کرتی۔ کیسے سنبھالوں خود کو۔ کتنی نفیس تھی کتنی شائستہ تھی۔ چار چھ ہر وقت التفات کے منتظر رہتے تھے۔۔ مگر وہ گھاس نہ ڈالتی پھر اب۔ اب کیوں اسکے دام میں آ گئی حواسوں پہ سوار کر لیا۔ کبھی اسے شوہر پر ترس آ تا جو اسکے آ رام کے لئیے اپنے ذاتی آ رام کو خاطر میں نہ لاتا۔ دلجوئی کرتا رہتا۔ مگر وہ تو واقعی آ سیب کی طرح چمٹ گیا تھا۔ کسی لمحے دماغ سے اسکا خیال محو نہ ہوتا شوہر کے ساتھ انتہائی قربت کے لمحوں میں بھی تنہا نہ چھوڑتا۔ شوہر اسکی بے رغبتی پا کر پیچھے ہٹ جاتا وہ اپنی ہی نظروں میں مجرم بن جاتی کاش منّے تم میری زندگی میں نہ آ تے۔

میں کتنی مگن تھی سبک خرام ندی کی مانند۔ وہ بے ربط ہو کر سوچتی۔ کوئی چخ چخ ہی نہیں تھی روپ بدلتے چہرے کو آ ئینے میں دیکھتے ہوۓ بُدبُداتی۔ دین دنیا کتنے اچھے چل رہے تھے۔ سوچتی پتہ نہیں کیسے درّانا وار گھستا چلا آ یا۔ شخصی دیوار کہاں سے کمزور تھی جو سیندھ لگ گئی۔

آ ندھی تھا اڑاتا چلا گیا۔

طوفان تھا چھاتا چلا گیا۔

سیلاب تھا بہاتا چلا گیا۔

بین کرتی آ نکھوں کے نوحے سنتی تو اپنے اجڑنے کا غم مارے ڈالتا۔ پچھتاوے ڈستے۔ میں ایک پختہ عمر عورت کوئی شرمیلی دوشیزہ تو نہ تھی جو پھسل گئی۔ کیسا شیطان تھا جو دنیا و عاقبت خراب کر گیا۔ نہیں وہ تو دلبر تھا دل اسکے خلاف ایک حرف نہ سنتا۔ تھک کر خود ہی خود کو بے قصور قرار دینے بیٹھ جاتی۔ میں کب اسکی باتوں میں آ تی تھی عمر میں چھوٹا تھا۔ اکثر منّا کہہ دیتی میرا چھوٹا بھائی تمہارا ہم عمر ہے۔ہم اسے پیار سے منّا کہتے ہیں۔

ٹھیک ہے مجھے بھی کہہ لو مگر۔ دوسرے والے پیار سے وہ شوخی سے کہتا۔ میں چھ فٹ کا آ دمی تمہارے منّا کہنے پر تنہائی میں اکیلا ہی ہنس پڑتا ہوں۔ وہ کہتی مجھے تم نہ کہا کرو میں تم سے بڑی ہوں تو حلق پھاڑ کے بڑی ڈھٹائی سے ہنس دیتا کسی دن برابر کھڑی ہو کے دیکھ لو۔ کیا فرق پڑتا ہے چھوٹے بڑے ہونے سے۔ بس تمہیں۔ تم کہنا اچھا لگتا ہے۔ عشق ہوگیا ہے تم سے۔ ڈسپوزل عشق۔ قہقہہ لگاتا۔۔ ڈسپوزل عشق؟ وہ کیا ہوتا ہے۔۔۔۔ کبھی سمجھ جاؤگی وہ ہنستا۔جب جوتوں سمیت تمہاری آنکھوں کی جھیلوں میں اتر جاؤں گا۔ دل کے صوفے پر بیٹھوں گا۔ ایسا تیر افگن تھا ہزاروں میل دور سے گھائل کرتا اور بسمل چھوڑ دیتا۔

Check Also

Terha Laga Hai Qat, Qalam e Sarnavisht Ko

By Nasir Abbas Nayyar