Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaara Mazhar/
  4. Meena, Geena (2)

Meena, Geena (2)

مینا، گینا (2)

وہ پڑھی لکھی تھی بچوں کے مڈ ٹرم ہونے والے تھے سکول سے آتے ہی بچوں کی کلاس لگا لیتی، ایک طرف واشنگ مشین چل رہی ہوتی دوسری جانب سلائی مشین پہ تکونیاں، لنگوٹ، بچھونیاں اور پوتڑے بھی سلتے رہتے۔ بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ بھی چلتی اور دیوار پہ سیڑھی لگا کے سوسن سے بھی گپ شپ کر لیتی، کچھ پوچھنا ہوتا تو پوچھ لیتی لیکن یہ سب گینا ہی کرتی مینا کی کبھی آواز ہی نہ آتی سوسن سمجھتی شائد مینا ہر وقت سوتی رہتی ہے۔

گینا کے آ جانے سے مینا کے پچھلے صحن میں زندگی کا ایک ہنگام بپا رہتا۔ مینا کے ہاں ایک بیٹا ہوا اب اس ہنگام میں ایک منے کی ٹیاؤں ٹیاؤں بھی شامل ہو گئی۔ چِھلے کے بعد گینا چلی گئی اور دیوار کے اس پار زندگی ایک دم جامد ہو گئی۔ اب سوسن بھی تھوڑی تھوڑی مصروف سی رہنے لگی تھی پاور پلانٹ کا افتتاح ہو چکا تھا۔ چائنہ کی ٹیم نے پلانٹ پاکستانی انجینئرز اور ٹیکنیشنز کے حوالے کر دیا تھا جسے وہ سب مل کے بڑی کامیابی سے چلا رہے تھے۔

وقتاً فوقتاً انجینئرز اور ٹیکنیشنز کی ٹیمز کو جدید ٹیکنالوجی کے حصول اور جانکاری کے لیے چائنہ، جاپان اور ہانگ کانگ وغیرہ بھیجا جاتا۔ کبھی تو چھ چھ ماہ کے لئے اور کبھی سال دو سال کے لئے۔ اب ایک پلانٹ کی جگہ بتدریج چار پلانٹس نصب ہو چکے تھے اکثر ٹِرپ کر جاتے تو پلانٹ پہ ایمرجنسی نافذ ہو جاتی ایمپلائز کی زندگی میں فرصت ڈھونڈے سے نہ ملتی ان کی زندگی ایک روبوٹ کی طرح بن چکی تھی۔

سوسن کی کوشش ہوتی کہ بچوں کی تدریس کے تمام مسائل سے خود ہی نمٹ لے PTM یا open day پہ خود جاتی اس طرح اس کا ٹیچرز سے اچھا کنکشن بن گیا جو بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں میں بے حد معاون ثابت ہوا۔ دیوار کے اس پار یہ تمام جوکھم طیب صاحب کو خود نمٹانے پڑتے ایک تو مینا پڑھی لکھی نہیں تھی دوسری جانب ویسے ہی چپ چاپ رہتی تھی کہیں نکلتی بھی نہیں تھی کہ دوستانے میں کسی کے ساتھ جایا کرتی، شائد تمام پڑھی لکھی خواتین میں خود کو اجنبی سا محسوس کرتی تھی بہت لئے دئیے سی رہتی۔

زندگی یونہی رواں دواں تھی بیچ کے سال بڑی تیزی اور مصروفیت سے گزرے، سوسن اور مینا کی فیملیاں چار اور پانچ بچوں کے ساتھ مکمل ہو چکی تھیں اب ان کی تعلیم و تربیت کے لئے ہلکان رہتی تھیں۔ اس دوران جب بھی مینا کے ہاں بچے کی آمد متوقع ہوتی یا بچوں کے امتحان ہوتے گینا کو بلوا لیا جاتا اور دیوار کے اس پار کچن گارڈن میں زندگی پھر سے دوڑنے بھاگنے لگتی۔ بچوں کی زندگی کی شوخی سے بھرپور آوازیں پھر سے چہچہانے لگتیں۔

ایسے لگتا جیسے مینا کے بچوں کے منہ سے قفل کھول کے گینا نے اپنے پرس میں رکھ لئے ہیں بچے گینا خالہ کی آمد پہ کھل اٹھتے۔ سوسن اور مینا دونوں نے اپنے اپنے پچھلے صحن میں بچوں کے لئے میری گو راؤنڈ اور آم کے پیڑ پہ جھولے لگوا لئے تھے۔ مینا کے جھولے تبھی آباد ہوتے جب گینا آتی ورنہ مینا کے کچن گارڈن میں کبھی زندگی کی رمق نہیں چمکی۔ سوسن سوچتی شائد واپسی پہ گینا بچوں کے منہ پہ پھر سے قفل لگا کے چابیاں ساتھ لے گئی ہے۔

گینا بـڑی دلجمعی سے بچوں کو پڑھاتی، ان کے ساتھ کھیلتی، برآمدے میں ہی وائٹ بورڈ لگا ہوا تھا اسی پہ بچوں کو لکھنا سکھاتی اور میتھس کے کلیے اور انگلش رائمز، پرائمری سانگز رٹواتی۔ دونوں بہنوں کی سلائیاں، کڑھائیاں اور ڈیزائنگ بھی ساتھ ساتھ چلتی رہتیں، بچیوں کی فراکیں اور لڑکوں کے کرتے ہاتھ کی کڑھائی سے سج جاتے۔ گینا اس گھر کی روح تھی چند مہینے رہ کے اور سب گھر والوں میں زندگی کی روح پھونک کے گینا غیر معینہ مدت کے لئے واپس چلی جاتی واپس کیا جاتی گویا زندگی میں سے روح نکل جاتی۔

طیب صاحب اور مینا کی فیملی کافی دور دراز کسی گاؤں میں آباد تھی۔ جانے آنے کے لئے اچھی خاصی تگ و دو اٹھانی پڑتی۔ ہر چند ماہ بعد گینا کو لانے چھوڑنے میں طیب صاحب کو کلفت اٹھانی پڑتی کبھی گینا آ بھی نہیں پاتی تھی اور کبھی بچوں کے انتہائی ضروری ٹیسٹ اچانک بھی پلان ہو جاتے تو طیب صاحب دو چار چھٹیاں لے کے خود ہی بچوں کو پــڑھا لیتے لیکن کبھی ان کے ماتھے پہ بل نہیں آیا۔

اب سوسن اور مینا کی بڑی بچیاں ہائی کلاس میں جا چکی تھیں خود ہی لکھ پڑھ لیتی تھیں بلکہ مینا کی بچیاں چھوٹے بھائیوں کو بھی پڑھا لیتی تھیں گینا کی شادی ہو چکی تھی۔ گھر ایک جیسے تھے، شوہروں کی جاب ایک جیسی تھی، سائٹ اور آفس ایک ہی تھے لیکن دونوں گھروں میں صبح الگ الگ طریقے سے طلوع ہوتی تھی اور زندگی الگ الگ طریقے سے رائج تھی کیونکہ بیچ میں ایک ڈگری مسنگ تھی۔

مینا صبح صبح جاگ کے طیب صاحب کو آفس روانہ کرتی بچوں کو سکول بھیجتی اور گھر داری کے کاموں میں جت جاتی۔ کبھی فارغ نہیں بیٹھتی تھی اور نہ ہی ادھر ادھر گھومتی پھرتی تھی ایک طرح سے گھر کو جنت بنا رکھا تھا، گارڈننگ کا اسے بے حد شوق تھا تو جلتی بلتی دوپہر میں بھی ہر طرف پھول اور ہریالی لہلہاتی رہتی۔ سوسن اور دوسری عورتیں ہفتے میں دو تین بار ایک دوسری کے گھر میں جمع ہوتیں خوب ہلہ گلہ کرتیں کبھی ون ڈش پارٹی، کبھی کٹی پارٹیز۔ کبھی کوئی الٹی سیدھی گوسپ لیکن مینا اس ہلے گلے یا پارٹیوں میں کبھی شریک نہیں ہوئی۔

زندگی آگے بھی رواں دواں رہی لیکن سوسن اور مینا کا ساتھ یہیں تک رہا۔ مردوں کی ترقیاں ہوئیں تو دونوں کے گھر الگ الگ جگہوں پہ شفٹ ہو گئے لیکن ایک جگہ کام کرنے والوں کی خبر تو رہتی ہے، ان کی بچیاں بھی اچھی ڈگریاں لے چکی ہیں ایک نے انگلش میں ماسٹرز کیا دوسری نے سوشیالوجی میں ڈگری لی، بیٹا الیکٹریکل انجینئرنگ میں ڈگری لے کے طیب صاحب کا جونئیر ہے باقی دونوں ابھی زیرِ تعلیم ہیں۔

یہ ایک پڑھے لکھے مرد اور غیر تعلیم یافتہ عورت کی کہانی ہے جسے آئیڈیل ہی کہا جا سکتا ہے ان کے گھر سے کبھی کوئی اونچی آواز نہیں نکلی، میں سوچتی ہوں کہیں کہیں تعلیم نے ہمیں بگاڑا ہے سنوارا نہیں ورنہ جوڑوں میں اتنا فرق معمولی بات نہیں تھی۔ اگر یہی کہانی الٹ دی جائے یعنی پروفیشنل ڈگری عورت کی ہوتی اور مرد کم تعلیم یافتہ ہوتا تو زندگی کیسی ہوتی؟

جواب قارئین پہ چھوڑا ہے۔

Check Also

Jogi Aur Nehru

By Rauf Klasra