1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaara Mazhar/
  4. Kal Ka Baap (1)

Kal Ka Baap (1)

کل کا باپ(1)

ہمارے معاشرے میں بیٹوں کی ماں ہونا ایک اعزاز ہےچاہے وہ جاہل ہوں غیر تربیت یافتہ ہوں یا معاشرے پہ بوجھ میں بھی دو بیٹوں کی ماں ہونے کا اعزاز شانوں پہ سجائے ہوئے ہوں اب مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ بیٹوں کی تربیت میں باپ کا کردار و اعمال سب سے زیادہ اہم ہوتے ہیں بچہ فطری طور پہ وہی کچھ کرتا ہے جو باپ کو کرتے دیکھتا ہے لیکن یہ امر بھی اہم ہے باپ کو بچوں کی تربیت کے نام پہ صرف لاڈ پیار کرنا آتا ہے۔ باپ کی روزی روٹی کمانے والی مصروفیات اتنی ٹف ہوتی ہیں کہ اسے بچوں کی تربیت کی طرف زیادہ توجہ دینے کا وقت نہیں ملتا۔میں فطری طور پہ خوابوں کی دنیا میں رہنے والی لڑکی تھی جسے اپنی خیالی دنیا میں ہر چیز پرفیکٹ چاہئے تھی۔جو اپنی ذات سے جڑے ہر رشتے کو بڑی ایمانداری سے نبھانا چاہتی تھی۔

میں نے اپنی ازداوجی زندگی کی بنیاد بڑی دیانتداری سے رکھی۔ شوہر تو بیوی کا سب سے قریبی اور فوقیت والا رشتہ ہوتا ہے سو ان سے حقوق و فرائض کی میری یہ توقع سب سے زیادہ تھی ہم اپنے محدود سرکل میں انتہائی رومانوی جوڑے کے طور پہ آئیڈیلائیز کئے جاتے تھے۔ ہم نے بڑی سوچ سمجھ کے بعد فیملی پلان کرنا شروع کی میری زندگی میں وقت کو ہمیشہ سے بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ ہر کام کے لئے اوقات مقرر ہیں پاکستانی معاشرت میں وقت کی پابندی خود ایک بڑا عذاب ہے۔ آپ کتنے ہی پابند ہوں آپ کو وقت کی قید سے آزاد لوگ ہی ملتے ہیں۔ وقت جہاں زندگی کو منظّم کرتا ہے وہیں کچھ نقصانات بھی دے جاتا ہے اگر مقررہ وقت گذر جائے تو وہ کام قضا ہی رہ جاتا ہے۔

فیملی سٹارٹ ہوئی تو زندگی بے حد مشکل ہوگئی بچہ وقت پہ سوتا جاگتا کیوں نہیں ہے۔ ایک ہی دفعہ فیڈ لے کے آرام کیوں نہیں کرتا گاہے بگاہے کیوں جاگتا اور روتا ہے۔ میرے پاس ایسے اعتراضات کی ایک طویل لسٹ تھی ابھی ایک جھٹکے سے سنبھلی نہیں تھی کہ دوسرے بیٹے کی خوشخبری مل گئی مجھ پہ گھڑوں پانی پڑگیاچڑچڑی ہوگئی بلکہ ہر وقت چڑ چڑ کرنے لگی بیٹا رات کے وقت باپ کے حوالے ہوگیا ننھے میاں بھی آگئے تو بڑے منے میاں پکے پکے باپ کی ذمہ داری ہو گئے بڑے والے بیٹے باپ سے اس قدر اٹیچ تھے کہ باپ کے بنا کھاتے تھے نہ سوتے تھے۔ میری زندگی عذاب ہوگئی منہ ہاتھ تک باپ سے دھلواتا حتّیٰ کہ نہاتا بھی باپ سے۔

جونئیر اس سے صرف ڈیڑھ سال چھوٹا تھا تو وہ مستقل میری توجہ چاہتا میں نے بچوں کے کھانے پینے، سونے، جاگنے پڑھنے اور کھیلنے تک کے اوقات مقرر کر رکھے تھےپلانٹ پہ RFO کے دنوں میں ایمر جنسی لگی ہوتی ہے جب انکی ڈیوٹی چوبیس چوبیس گھنٹے کے لئے مسلسل ہو جاتی بعض دفعہ آنکھ جھپکنے کے وقفے کے ساتھ اڑتالیس گھنٹوں تک جا پہنچتی تو اسے سنبھالنا مشکل ہو جاتا اور چالیس دنوں کا یہ آر ایف او ہر سال زندگی میں لازمی ہوتا ہے۔ آگے پیچھے پلانٹ کے ٹرپ کر جانے کی صورت میں بھی ایمرجنسی نافذ ہو جاتی ہے ڈیوٹی آورز کے علاوہ آپ کو کسی بھی وقت کال کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ گاڑی گیٹ پہ پہلے کھڑی ہوتی اور کال پہ بعد میں اطلاع کی جاتی کہ گاڑی باہر آپ کا ویٹ کر رہی ہے۔

باہر نکل آئیےواپسی کی شرط فالٹ دور ہونے پہ یا آپکی آخری توانائی نچوڑ لینے سے مشروط ہوتی بچہ نیند سے بے حال ادھر ادھر گرتا پڑتا کہ بابا آئیں گے تو ہی سوؤں گاجوتے نہ اتارنے دیتا نہ بیڈ پہ آتا کہ بابا کے گلے میں بانہیں ڈال کے سوتا تھا کھڑے کھڑے نیند سے بے حال بیڈ پہ سر ڈال دیتابہت مشکل وقت تھا مجھے خود پہ اور اس پہ بے پناہ ترس آتا کوئی بڑا بزرگ ساتھ نہیں رہتا تھا کہ بچہ دادا دادی کے پاس سو جائے مار پیٹ والا زمانہ نہیں تھا میں نئے نئے والدین بننے والے ماں باپ کی طرح اپنے بچوں کی آئیڈیل تربیت کرنا چاہتی تھی مجھے لگتا تھا ہمارا والدین بننا دنیا کا انوکھا ترین اور اوکھا ترین کام ہے۔

چند کتابیں پڑھ کے اپنے لئے رہنمائی کے چند اصول بھی وضع کر رکھے تھے اور جو محرومیاں اوپر تلے کے بہن بھائی ہونے کی بنا پہ اپنے بچپن میں سہی تھیں ان سے اپنے بچے کو بچانا چاہتی تھی سو کشمکش میں ہی رہتی تھی سکول جانے لگا تو بھی باپ کے گلے میں شکنجہ ڈال کے سوتاصبح یونیفارم تک ان سے پہنتالیکن پلانٹ رواں رکھنے کے لئے آر ایف او کا عذاب ہر سال مسلط ہوجاتا اور جب جب انکی نائیٹ ڈیوٹیز ہوتیں میرے نصیب میں بھی جگراتے لکھ دیئے جاتےوقت کا کام گزرتے رہنا ہے جیسے دریا کی روانی پہ بند نہیں باندھا جا سکتا وقت کو بھی نہیں روکا جا سکتا بچے سکول جانے لگے تو ہم نے جان لٹا دی ہر طرح کا آرام تج دیا۔

اپنے اوقاتِ کار بچوں کی سہولت کے مطابق کر لئے۔ قدرت نے میرے ہاتھ میں ایک جیتا جاگتا انسان دے کے اس پہ اختیار دے دیا تھا کہ جیسے چاہوں اپنی مرضی سے ترتیب دے سکتی تھی اور خاندان اور معاشرے کے لئے کار آمد یا ناکارہ بنا سکتی تھی میں نے اسے اپنے لئیے چیلنج بنا لیاجب جب بچوں کو سراہا جاتا میں فخریہ ہو جاتی اینول رزلٹ پہ بچوں کی وکٹری سٹینڈ پہ پوزیشن لازمی ہوتی اب وہ اپنی یونیفارم اور جینز پریس کر لیتا تھا جوتے بھی پالش کر لیتا تھاٹین ایج میں داخل ہوتے ہی بچے جانے کیوں باپ سے دور ہونا شروع ہو جاتے ہیں نظریں چرانے لگتے ہیں چھوٹی چھوٹی بے ایمانیاں یا من مانیاں کر کے خود کو معتبر سمجھنے لگتے ہیں۔

ماں کی نظر سے کچھ بھی چھپا نہیں ہوتابچوں کا آئیڈیل ایک ویلا باپ ہو سکتا ہے جسے وہ روبوٹ کی طرح اپنی مرضی پہ آن آف کر سکیں دوسرے لفظوں میں بچوں کو ہر وقت آئیڈیل باپ نہیں ملتا جو وہ بچوں کو پورا وقت دے سکے لڑکپن تک تو ابا بچوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتے رہےفٹ بال اور والی بال کھیلتے گھوڑا بن کے سیر کرواتے سائیکلیں چلانا سکھائیں سوئمنگ پہ ریگولر لے جاتے گود میں لے لے کے کلمے رٹواتے جمعہ کو اہتمام کے ساتھ مسجد لے کر جاتےتینوں باپ بیٹا ساتھ نکلتے سر پہ منی منی ٹوپیاں جمائے دائیں بائیں باپ کی انگلیاں تھامے سفید کپڑوں میں بچے بہت پیارے لگتےباپ کا سینہ چوڑا ہو جاتا سڑک بھر بھر جاتی میں چپکے چپکے پیچھے سے قدم گنتی پھر آفیشلی مصروفیات اس قدر بڑھ گئیں کہ بچوں اور باپ میں دوری پیدا ہونے لگی۔

چودہ سال کا تھا پتہ نہیں کیوں ہاتھوں سے نکلنے لگا دن بدن اگریسو ہوتا جارہا تھا۔ جمعہ پڑھنے دوستوں کے ساتھ ابا سے الگ جاؤں گا۔ ٹوپی دور اچھال دی کہ نہیں پہنوں گا بال خراب ہوتے ہیں۔ کٹنگ نہیں کرواؤں گااچھے بھلے اپنے ٹیسٹ رزلٹ آف سیزن کپڑوں کی پاکٹ میں یا جوتوں کے ڈبوں میں چھپانے لگادرزن کا گھر دور ہوگیا تو مجھے کسی کے ساتھ جانے کی حاجت رہنے لگی گاڑی چلانا سیکھ چکا تھا لیکن چڑ جاتا کہ درزن آنٹی کے گھر نہیں لے کے جاؤں گاگھر میں کچھ بھی لا کے دینا میری ذمہ داری نہیں ہے چھوٹے میاں ان کے نقشِ قدم پہ چلتے آنکھوں میں رکھ کے پالا تھا بلکہ ہاتھوں میں مستقل چار چھالے احتیاط سے رکھے ہوئے تھے خدایا کہاں چوک ہوگئی پہلے بھی کبھی آنکھ بھر نیند نہیں سوتی تھی اب ٹینشن سے نیند اڑنے لگی آنکھیں پھٹنے لگیں۔

Check Also

Gandum, Nizam e Taleem, Hukumran Aur Awam (2)

By Zia Ur Rehman