Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaara Mazhar/
  4. Kahe Byahi Bides

Kahe Byahi Bides

کاہے بیاہی بدیس

بیٹی کو وداع کرتے سمے اس کے کان میں کہہ دو کہ گزارا نہ ہو تو واپس آ جانا کیسا عجیب اور ناموس سا جملہ ہے۔

اب تمہارا وہاں سے جنازہ ہی اٹھے۔

اسے بھی عجیب لیکن قدرے مانوس اور رائج جملہ ہے۔

اچھے گھروں کی تربیت یافتہ بیٹیاں پھر بھی اپنی طبعیت کے خلاف جا کے گزارا کرتی ہیں، کہ دم رخصت جو توانائی اور جو وسائل ماں باپ کے پاس تھے۔ اولاد کو بیاہنے کے بعد اور عمر بڑھ جانے کے بعد وہ قوت وہ طاقت اب نہیں رہی، گھر میں بہو یا بہوؤں کا اضافہ بلکہ راج ہو چکا ہے۔ اب گھر میں انکے رعب کا سِکّہ چلتا ہے۔ ماں باپ اپنی ضروریات کے واسطے خود لاچار و محتاج ہیں۔

کون ماں باپ ہیں، جنہوں نے بچوں کی اچھی تربیت نہیں کی ہوتی اپنے منہ کا نوالہ بچے کے منہ میں نہیں ڈالا ہوتا راتوں کو نہیں جاگے ہوتے۔ انکی بہترین تعلیم و تربیت کے لئے ہلکان نہیں ہوئے ہوتے بچوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ایثار بھی سکھایا جاتا ہے۔ شادی سے پہلے لڑکا اپنی فطرت کے سبب اندھا بہرا ہوتا ہے۔ جب گھر میں بہو آ جاتی ہے، تو اس کو آنکھوں کی دس جوڑیاں لگ جاتی ہیں۔ اور کان یوں کھلتے ہیں، جیسے بصری آلہ لگوا لیا ہو داماد آنے جانے لگتا ہے، تو گھر کی روایات میں سیندھ لگ جاتی ہے۔

بیٹا سب کچھ دیکھتا سنتا تو ہے، لیکن بیوی کی آنکھ کان سے ایثار تو کرتا ہے۔ لیکن اپنی بیوی کے لئے بہو اپنی اچھی تربیت تو دکھاتی ہے، لیکن اپنی فیملی کے لیے۔ ایسے میں بیٹی کی ایک یا دو بچوں کے ساتھ واپسی جوشیلی خواتین بڑے جوش کا مشورہ دیتی ہیں، کہ واپس آجائیے مت رہئے میں سوچتی ہوں کیا یہ عافیت والا مشورہ ہے۔ یہ مشورہ ضرور دیجیے اسکے بعد کے مسائل کا حل بھی ساتھ دیجیے۔

ماں باپ عملاً ریٹائر ہو چکے ہیں۔ ان میں اب دم خم نہیں ہے، یہ جو لڑکیاں جل کے مر جاتی ہیں، یہ جو مار کھا کھا کے مر جاتی ہیں، یہ جو بہت کچھ سہہ کے اس کالے کوس میں بس جاتی ہیں۔ کیا ان سے عقل میں کم ہوتی ہیں؟ کیا انہیں میکے کا رستہ بھول جاتا ہے؟ جو واپس نہیں آتیں کیا یہی ایک جملہ انہیں سسرال میں باندھ کے رکھتا ہے، کہ اب وہاں سے تمہارا جنازہ اٹھے۔

نہیں، حقائق اور طرح کے ہوتے ہیں۔ جو لڑکیاں وہیں بندھی رہتی ہیں، انہیں اپنے حالات سے نظر آ رہا ہوتا ہے، کہ واپسی کی راہ انگاروں بھری ہے۔ اور منزل ایک بھڑکتی ہوئی دوزخ ایک دوزخ سے نکل کر دوسری میں جا گرنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ البتہ میکے کا بھرم قائم رہ جاتا ہے، ماں باپ کو خبر بھی ہوتی ہے، کئی بار بیٹھکیں بھی بٹھائی جا چکی ہوتی ہے، کئی وعدے وعیدوں کے بعد لڑکی بھیجی جاتی ہے۔ اس دوران ایک دو تین بچے بھی لڑکی کے پلو میں بندھ جاتے ہیں۔

ماں باپ بہت دیکھ بھال کے رشتہ طے کرتے ہیں، لاکھوں اسکی تعلیم بھی لگاتے ہیں، لاکھوں کا جہیز خرید لیتے ہیں، لیکن قسمت کو سدھایا جا سکتا ہے نہ خریدا جا سکتا ہے۔ قسمت نہیں دے سکتے وہ اپنے ماتھے پہ لکھی ہی خرچ کرنی پڑتی ہے۔ شادی کے ایک ہفتے بعد ہی لڑکی اور اس کے ماں باپ کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ آئندہ زندگی کیسے گزرنے والی ہے بہتر ہے تب ہی علیحدگی کا فیصلہ کر لیا جائے۔

اس بسنے اور نہ بسنے والے معاملے میں کسی بھی طرف کا مشورہ دیتے مجھے خود کو اتنی بے بسی لگتی ہے، میں کم عقلی اور بے بسی والا یہ مشورہ کبھی نہیں دینا چاہتی کہ واپس آجاؤ نہ ہی یہ مشورہ دینا چاہتی ہوں کہ وہیں بستی رہو۔ بس میری عقل جواب دے جاتی ہے۔ جہاں آگے کنواں ہو پیچھے کھائی وہاں کس میں کودنے کا مشورہ دیا جائے گا ساتھ رہنے میں بھی تکلیف اور الگ ہوجانے میں اور بھی تکلیف۔

بیاہی بیٹی واپس آکے چاہے اپنے چَم کے جوتے پہنا دے گھر والے اور دو دھاری معاشرہ راضی نہیں ہوتا جو وہیں رہ کے مار کھاتی رہے بے وقوف کہلاتی ہے۔ جو واپس آجائے وہ زبان کی تیز اور چلتر کہلاتی ہے۔ رفتہ رفتہ بیٹی اپنے ہی باپ کے گھر میں نوکرانی بن جاتی ہے۔ اکثر دودھ پھل میں اس کا حصہ نہیں بچتا سونے کی مستقل جگہ نہیں بنتی بنا جذبات کے ایک پتھر سمجھ لیا جاتا ہے۔ کتیا جتنی عزت نہیں رہتی میکے میں بھی اسی بیٹی کی عزت ہوتی ہو جو اپنے گھر میں رستی بستی ہے۔

میکے میں بیٹھی تو روز جیتی اور دن میں کئی بار مرتی ہے۔ میکے میں بیٹھی بیٹی کا تکیہ ہمیشہ گیلا ملے گا بچوں کو ننھیال میں نارمل ماحول نہیں ملتا بھائیوں کے بچوں کی راجدھانی میں یہ زبردستی کے حصہ دار بچے گھر کے چھوٹے نوکر بن جاتے ہیں، ماموں نانا کو کسی بھی کام کے لئے یہی بچے نظر آتے ہیں، حتیٰ کے ماموں کے بچوں کو بھی ہم عمر نوکروں پہ رعب جمانا بھلا لگتا ہے، میرا کہنا کہ بیٹیوں کو صرف واپسی ٹکٹ مت بھیجئے اگلے مسائل سے نمٹنے کی منزل کا اتا پتا بھی دیجیے۔

میں نے بہت سی جوان بچیوں کو سسرال سے واپسی کے بعد پچھتاتے بھی دیکھا کہ بیٹیوں کو شادی کے بنا گھر بھی نہیں بٹھایا جا سکتا قدرت کے قانون میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ اور فطرت و بشریت کے تقاضوں پہ کون سا بند باندھا جائے گا بھلا سیرابی کے کئی چور راستے نکل آتے ہیں، پھر یہی معاشرہ تھو تھو کرے گا میں دو چار ڈرے ہوئے لوگوں کو جانتی ہوں جنہوں نے بیٹیوں کو پڑھا لکھا کے بر سر روزگار کر دیا دنیا انہیں طعنے دیتی ہے۔

بیٹیوں کی کمائی کھانے کے لئے شادی نہیں کرتے اللہ سے نیک نصیبوں کی دعا کے ساتھ بچیوں کی شادی کرنا بہتر ہے کہ رب انہیں اپنے گھروں میں ہنستا بستا رکھے۔

Check Also

Aaj Tum Yad Be Hisab Aaye

By Ilyas Kabeer