1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaara Mazhar/
  4. Fitri Aaeli o Samaji Zindagi

Fitri Aaeli o Samaji Zindagi

فطری عائلی و سماجی زندگی

رب تعالیٰ نے ہر جاندار کو (مذکر و مونث)جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا اور جنس مخالف میں بے پناہ کشش رکھ دی تاکہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کے رہیں اور نسلوں کی افزآئش کے لئے سعی کریں۔ تاہم ہر لیگل تعلق کے لئے کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں۔ انسانی تمدن خاندانی نظام کی پیداوار ہے اور اسکی بقا کا ضامن بھی۔ گویا خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ جوڑوں میں آزادانہ میل جول کے لئے ہرمذہب اور معاشرے کے اپنے معیار ہیں جنہیں انکے ماننے والے شہری اور ہر مقیم کو فالو کرنا پڑتا ہے۔

تاہم بنا شادی کے جسمانی تعلق قائم کرنا کسی بھی مہذب معاشرے میں کبھی بھی پسندیدہ اور قابل قبول عمل نہیں رہا۔ مسلم معاشرے میں نکاح کو تحفظ اور قبولیت و پذیرائی کی سند حاصل ہے۔ میاں بیوی خاندانی نظام کی اکائی ہیں اور نکاح جوڑے کے درمیان عائلی زندگی کی جائز بنیاد ہے۔ عائلی زندگی نسلِ انسانی کی بقااور افزائش کے مقصد کے لئے لازم ہے مسلم معاشرے میں اس پاکیزہ زندگی کا واحد جائز راستہ عقد ہے۔ نکاح دونوں اصناف میں بہت سے خرابیوں سے حفاظت اور غض بصر کا باعث ہے۔ بےحیائی سے روکتا ہے۔ یہی فطرت کا پسندیدہ راستہ ہے۔ اگر اس نظام کو تباہ برباد کر دیا جائے تو معاشرے کی شیرازہ بندی کسی طرح ممکن نہیں۔

اسی لئے رب تعالیٰ نے عائلی زندگی کے استحکام، بقا اور افزائش کے لئے نہایت واضح ہدایات دی ہیں۔ میاں بیوی کا تعلق جبّلت کی تسکین کا باعث تو ہے محبت اعتماد اور رحمت کا باعث بھی ہے۔ اس مقدس معاہدے(نکاح) کے تحت دونوں ایک دوسرے کے پابند ہوجاتے ہیں۔ مرد کو قوی بنا کر ایک درجہ فضیلت دی گئی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق خاندان کی کفالت مرد کی ذمہ داری ہے۔ کثیر البالی یا قلت البالی رب کے ہاتھ میں ہے بیوی کی ذمہ داری ہے کہ شوہر کے فراہم کردہ وسائل پر قانع رہے اور گھر کا نظام سلیقے اور خوش اسلوبی سے چلائے۔

عورت کسی مرد کے نکاح میں جانے کے لئے اپنا حق مہر طلب کر سکتی ہے، وصول کر سکتی ہے، ادھار کر سکتی ہے اور چھوڑ بھی سکتی ہے اسے یہ تمام حق حاصل ہیں شریعت نے بتیس روہے آٹھ آنے پہ مہر نہیں لگائی۔ وہ اپنے مہر کی رقم اپنے استعمال میں لائے کنویں میں پھنک دے کالے چور کو دے ڈالے تجوری میں رکھ لے یا کسی کاروبار مین لگا دے ادائیگی کے بعد شوہر اس سے پوچھنے کا حقدار نہیں ہے۔ بیوی کے ساتھ حسن سلوک روا رکھے۔ ظلم و زیادتی نہ کرے اور عدل و احسان کا رویہ اختیار رکھے۔

اس معاہدے کے تحت عورت کا فرض ہے کہ نیک اور شوہرکی فرمانبردار رہے۔ شوہر کی غیر موجودگی مین اس کے گھر کی محافظ رہے شوہر کے تمام اثاثہ جات اولاد اور اپنی عزت کی امین رہے۔ اسکی نسل کی تربیت میں خیانت نہ کرے۔ طلاق لینے دینے کا عمل اگرچہ جائز ہے لیکن پسندیدہ نہیں بلکہ شائد مکروہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں طلاق لینے دینے کو انتہائی برا عمل سمجھا جاتا ہے جو ذاتی طور پہ مجھے بھی سخت ناپسند ہے۔

اگر خوب سے خوب تر کی تلاش میں زندگی گزار دی جائے تو نسلوں کا مستقبل تباہ ہو جاتا ہے سو تحمل اور صبر و برداشت سے نباہ کی کوشش کیجیے خوب تر کی جستجو چھوڑ کر قسمت پہ قانع ہوجانے والوں کا درجہ دنیا و آخرت میں الگ ہی فضیلت رکھتا ہے۔ مجھے سخت تکلیف ہوتی ہے کہ نوجوان بچیوں کی تربیت انتہائی جذباتی لوگوں نے زبردستی اپنے ہاتھ میں کر لی ہے اور نسلِ نو کو ہر روز ڈنکے کی چوٹ پہ بغاوت کا درس دیا جاتا ہے۔

نوجوان و ناپختہ نسل ہر زمانے میں ہی باغی رہی ہے جوانی کی شہ زوری میں کسی پابندی کو برداشت نہیں کرتی اسے وہی بات اچھی لگتی ہے جو اسکے جذباتی مفاد میں کی جائے۔ گھر یقیناً حکمت، محبت، سمجھ بوجھ، صبر اور قربانی سے بسائے جاتے ہیں۔ روایات سے بغاوت ہمیشہ انتشار اور بربادی کا باعث بنتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف معاشرے مین خفیہ رشتوں کی وجہ سے بے سکونی اور انتشار کی فضا پیدا ہو رہی ہے۔ میاں بیوی اپنے فرائض سے کوتاہ، چشم پوش اور غافل ہوتے رہے تو معاشرے میں بگاڑ کے اثرات دور تک جائیں گے۔ بلکہ جا چکے ہیں۔

Check Also

Aaj Ki Raniyan Aur Ranaiyan

By Mirza Yasin Baig