Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaara Mazhar/
  4. Beena (2)

Beena (2)

بینا (2)

دلبرداشتہ ہوکے میں نے جاب چھوڑ دی۔ لیکن اب میرا پارلر دن میں بھی بھرا ہی رہتا۔ کیونکہ میں ساتھ ساتھ ریفریشر کورس بھی کرتی رہتی تھی میرا کام اپ ڈیٹ ہوتا تھا ہر نئی تکنیک اور مارکیٹ میں نئی متعارف کی گئی پراڈکٹ کی مجھے جانکاری ہوتی تھی۔ انہی دنوں عتیقہ اوڈھو نے اپنی میک اپ پراڈکٹ لانچ کی تھیں۔ میں تمام پراڈکٹ وہیں سے منگواتی۔

عتیقہ اوڈھو کا کریز اور برانڈ میرے پارلر پہ خوب ہٹ ہوا میں پرافٹ کے ساتھ سیل بھی کر دیتی، اب تو شائد میری کسٹمرز بھی مجھے نہ چھوڑنے دیتیں۔ پی ٹی وی کے اکلوتے چینل کا فسوں ٹوٹ گیا تھا، اور کئی چینل مصروف عمل تھے۔ ایک پرائیویٹ چینل جس کی میزبانی امبر خان کرتی تھیں، دلہن کمپٹیشن کرواتا تھا۔ میں نے کئی کمپٹیشن جیتے اس طرح میرے کام کی شہرت کو چار چاند لگ گئے۔

بینا کو اور مجھے لکھنے لکھانے کا بھی یکساں شوق تھا۔ اسکی ڈائریاں گھڑے ہوئے حروف سے بھرتی رہتیں اور میری ڈائریوں میں خوبصورتی نکھارنے کے ٹوٹکے اسف نسخے بند ہوتے، جنہیں ہوا لگوانا اپنی روزی پہ لات مارنے کا موجب ہوتا۔ انہی دنوں اچانک اردو اور انگریزی کے حروف اور جملے ملا کے اور کبھی پنجابی زبان کا تڑکا لگا کے ایک رنگین سی زبان بولنے کا فیشن رواج پا رہا تھا۔

میں بھی قصداً کوشش کر کے ایک بے سر پیر کی ملی جلی لقویٰ زدہ انگریزی نما اردو بولتی اور خوب داد وصول کرتی۔ اب ہم جب بھی ملتے وہ اپنی کوئی شہکار سی لکھت مجھے بھی پڑھواتی اور میں اپنے میک اپ کی نئی ٹیکنیک اسے سکھاتی میں بہت اچھا میک اپ کرتی تھی۔ تو وہ بہت اچھا لکھنے لگی تھی۔ لیکن اسے کچھ بھی کہیں چھپوانے کی اجازت نہیں تھی۔

کہیں اس کا نام چھپے اور غیر مرد پڑھیں یا اس کے نام کے نامے گھر میں دستک دیں میرا اور اس کا خاندان تو ایک ہی تھا۔ جہاں لڑکیوں کو صرف پڑھائی لکھائی اورگھرداری کی تربیت دے کر رخصت کر دیا جاتا تھا۔ لیکن ہماری غربت اور ابو کے رینگتے کاروبار نے امی ابو کو میرے کام کرنے کی کراہیت قبول کرنی پڑی تھی۔ باپ بڑا نہ بھیا سب سے بڑا روپیہ۔

پیسہ آنے لگے تو پھر انسان عادی ہو ہی جاتا ہے، اور حلال کرنے کے لئے کئی طرح کے جواز گھڑ لیتا ہے۔ اب امی میری شادی کی تیاری کر رہی تھیں، مجھے کہتیں چھوٹی بہن کو ساتھ لگایا کرو تاکہ اس کے ہاتھ میں بھی ہنر آجائے لیکن اسے شوق ہی نہیں تھا ہنر کیسے آتا۔ ہم دونوں ایک ہفتے کے فرق سے رخصت ہوئیں شادی کے بعد بینا کو گھٹن زدہ ماحول سے آزادی مل گئی، ایک پڑھا لکھا گھرانہ اور آزاد، ماڈرن ماحول اسے ملا۔

اسکی نگارشات مزید نکھر گئیں اور مختلف رسائل میں چھپنے لگیں، رفتہ رفتہ اس کے ساتھ ادبی شامیں بھی منائی جانے لگیں میرے اندر ایک شدید سی ادیبہ فیشن، میک اپ اور کھچڑی سی زبان میں لتھڑ کے اور گھٹ کے چپ چاپ مر گئی۔ اور میں بے بسی سے اسے مرتا دیکھتی رہی۔ میں شادی کے بعد بھی کام کر رہی تھی میرے کلرک شوہر اور پھپھی کی نظر میری لا محدود آمدن پہ رہتی۔

لیکن اب میں شادی شدہ اور اپنے گھر بار والی تھی بچے بھی پیدا ہو رہے تھے۔ میری ضروریات نے مجھے بہت کچھ سکھا دیا تھا۔ میں اپنی محنت کی رقم اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی تھی۔ ہمارا میکہ قریب قریب تھا۔ تو اب بھی اکثر ملاقات رہتی تھی، لوگوں کے چہرے سجاتے سجاتے میں اپنا منہ دھونا بھی بھول جاتی تھی۔ جبکہ وہ کرداروں کو لکھتے لکھتے بڑی گریس فل سی ہوگئی تھی۔

نک سک سے رہتی اور کسی شیشے کے گھر کی طرح نازک سی لگتی۔ میں نوٹس کرتی اسکی خوبصورت سوچیں اور کرداروں کا پہننا اتارنا اسے نزاکت اور وقار عطا کر رہے ہیں۔ جی چاہتا یہ فراغت نوچ کے اپنے چہرے پہ سجا لوں۔ پہروں سوچتی اس کی جگہ میں کیوں نہیں لے سکی، میری اچھی یا بری قسمت کہ سسرال میں بھی میرا پارلر ایکدم اٹھ گیا، امبر خان کے چینل نے بطور میک اپ آرٹسٹ مجھے ہائیر کر لیا۔

میری آمدنی دیکھ کر میرے شوہر نے کبھی میرے ہاتھ پہ ایک روپیہ بھی نہیں رکھا الٹا مجھ سے توقع رکھتا کہ پیسے اسے دیا کروں احسان الگ جتاتا کہ کمانے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ پھپھی نے بھی بیٹے کو چھوڑ کے بہو سے امیدیں لگا لیں بولیں مجھے تمہاری ماں کی طرح تمہاری کمائی سے اپنی مٹھیاں بھرنے میں کوئی دلچسپی نہیں بس پیسے جمع رکھو ہم دونوں حج کرنے جائیں گے۔

گلاس میرے ہاتھ سے چھوٹا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ یہی پھپھی تھیں جو کّلے پیٹ کے کہتی تھیں کہ رنگسازی اور بہروپئے پن کی یہ کمائی حرام کی ہے، شکلیں بدلنے والے پہ لعنت کی وعید ہے اللہ کا عذاب نہ آئے تو اور کیا ہو اب اتنی حلال ہو گئی کہ حج بھی کیا جاسکتا تھا۔ سچ پوچھیں تو میں اس دو رخی دنیا اور شوہر کی کھلی چھوٹ سے بھر پائی تھی۔

اب کمانا ہی نہیں چاہتی تھی بیس تیس یا چالیس پچاس روپے لیکر آئی بروز اور اپر لپس بنانا اور بنوانے والی کی شان برداشت کرنا اب مجھے بہت کھلتا تھا۔ لیکن ایسی ان دیکھی بندشیں تھیں کہ روز ٹھیے پہ کھڑا ہونا پڑتا تھا۔ ادھر بچہ پیدا ہوتا اگلے دن سے کوئی نہ کوئی کسٹمر دروازے پہ ہوتی پھپھی اماں بنا عذر کئے اندر گھسا لیتیں کہ پانچ منٹ کا تو کام ہے۔

دھاگہ چلا دو یا قینچی پھیر دو پھوپھی اماں کو کیا پتہ دھاگا چلانے میں مجھے کچھ نظر بھی لگانی پڑتی ہے اور قینچی چلانے میں ہاتھوں کی کچی ہڈیاں بھی گھسنی پڑتیں ہیں۔ جب تک جوانی تھی سہارا تھا لیکن رفتہ رفتہ میری نظر کمزور ہورہی تھی کئی طرح کی دردوں نے جسم کو مسکن بنا لیا تھا۔ دلہن سجانے کے دوران دلہن کو تو صرف سٹیچو بنانا پڑتا ہے بیوٹیشن نے اس کے گرد پروانہ وار گھومنا ہوتا ہے۔

کبھی جھکنا ہوتا ہے کمر ٹوٹے یا پاؤں سوجیں بھولنا پڑتا ہے کیمیکل زدہ فیشل سے ہاتھ اور انگلیاں حساسیت کی زد پہ رہتیں اس وقت کو کوستی جب بیوٹیشن بننے کی تمنا مجھ میں جاگی تھی۔ چلو میں تو بچی تھی میرے والدین پڑھائی کی طرح یہاں بھی روک لگا دیتے میں پھر رودھو کے بہل جاتی یہ تو آگ کا طوق تھا جو میں نے خود ہی گلے میں ڈال لیا تھا۔

میں مشاطہ کی طرح خواتین کو تو سجاتی رہتی لیکن اپنا خیال رکھنے کا وقت نہیں بچتا تھا۔ رات جب سونے لیٹتی تو جسم کا ریشہ ریشہ دہائیاں دیتا تھا اب مجھ پہ کھلنے لگا بیوٹیشن ہونا لیبر ورک ہے۔ کاش اس مزدوری سے مجھے چھٹکارا مل سکے۔ بینا نے ماں باپ کا کہنا مان کر اپنی زندگی سپھل کر لی تھی۔ جب بھی ملتی ہلکی سی پنک لپ اسٹک کاجل اور سادہ سے کپڑوں میں بھی جاذب نظر لگ رہی ہوتی لگتا تھا وقت اسے چھوئے بغیر ہی گذر رہا ہے۔

اسکی دو کتابیں مارکیٹ میں آکے ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کر چکی تھیں۔ میرا حسد اس سے بہت بڑھ گیا تھا یہ مقام تو میں نے اپنے لئے سوچ رکھا تھا۔ اسے بن مانگے نواز دیا گیا تھا۔ میرا کام اتنا بڑھ گیا کہ اب میرے پاس تین ورکرز بھی تھیں چھوٹے موٹے فیشل، کلینزنگ اور کئی طرح کی مرمت کے کام وہ دیکھ لیتیں لیکن مستقل کسٹمرز کا یہی اصرار ہوتا کہ اونر سے سروس لینی ہے۔

چاہے ایک اکیلی آئی بروز ہی کیوں نہ بنوانی ہوں میں کئی مقابلوں میں حصہ لے کے کئی میڈل جیت چکی تھی۔ لیکن یہ میڈل خوبصورتی یا طمانیت کے لئے ماتھے پہ چپکائے نہیں جاسکتے تھے۔ انہوں نے میرا رگ رگ اور ریشہ ریشہ نچوڑ لیا تھا گردن جھکا جھکا کے مستقل درد رہنے لگا تھا کبھی تو اتنا شدید ہو جاتا کہ کالر لگانا پڑتا فزیو تھراپی کروانی پڑتی۔

میری ہر کامیابی پہ اس کا فون ضرور آتا تھا میرا اور اس کا کوئی موازنہ تو نہیں تھا۔ لیکن بچپن کی ساتھی تھی، اور ہمارے کئی شوق مشترکہ تھے ہماری بچپن کی بے لوث دوستی مسابقت میں کب بدلی مجھے پتہ ہی نہیں چلا میرے دماغ نے دل ہی دل میں مستقل اس کے ساتھ مقابلے بازی کی فضا باندھے رکھی، مجھے کسی طرح اپنا سٹینڈرڈ اس سے زیادہ ہائی کرنا تھا، بلکہ اس کی جگہ لینی تھی۔

اس بار بینا آئی تو ایک بے ریا سی گلابی مسکراہٹ اسکے چہرے کے احاطے میں اور چوتھی کتاب کی کاپی اسکے ہاتھ میں تھی۔ میرا جی چاہا کتاب پرزے پرزے کر دوں اور چہرے کی مسکراہٹ نوچ لوں اسکے جاتے ہی میں نے کتاب بھنبھوڑ دی۔ خواتین کے مارننگ شوز کا جادو سر چڑھ کے بول رہا تھا بینا نوجوان لڑکیوں کے جذبات کی ترجمان کے طور پہ بے پناہ مقبول ہو چکی تھی۔

اکثر شوز میں بلائی جاتی اور دھیمے سروں میں سہج سہج شفاف و مصّفا لہجے میں اردو بولتی اور ہوسٹ اسکے لہجے پہ لٹو ہوئی جاتیں کہ اس زمانے میں ایسی اردو کب سننے کو ملتی ہے میں اپنی مغرب زدہ ٹیڑھی اردو پہ شرمسار سی ہو جاتی لیکن اب چھوڑنا اور لہجے پہ قابو رکھنا ناممکن تھا۔ اس دفعہ وہ میرے ہی چینل پہ مدعو تھی۔

مجھے اس کا میک اپ کرنا تھا موقعہ اچھا تھا میں اسکے فیچرز کو بد صورتی میں بدل کے اپنا حسد تھوڑا سا ٹھنڈا کر سکتی تھی تین دن تک میرے دماغ میں ہلچل مچی رہی، میں اپنے ضمیر کے ساتھ لڑتی رہی۔ تین دن بعد وہ میک اپ روم میں ہائیڈرالک چئیر پہ آئینے کے آگے سادگی سے بیٹھی تھی میں اپنی کمینی مسکراہٹ چھپاتی اس کے چہرے پہ جھک گئی۔

Check Also

Be Mausami Ke Mausam

By Zafar Iqbal Wattoo