Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaara Mazhar/
  4. Beena (1)

Beena (1)

بینا (1)

بینا میری خالہ زاد ہے، ہم عمری کی وجہ سے بچپن سے ہی ہم دونوں کی دانت کاٹے کی دوستی تھی، اتنی گہری کہ ہمیں ایک دوسری کے بنا چین نہیں پڑتا تھا۔ ہماری اتنی گہری محبت دیکھ کر ہمارے والدین کو بھی اچھا لگتا تھا۔ وہ ہماری دوستی کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ جب میڑک کے امتحان کے بعد تین ماہ کی چھٹیاں ہوئیں، تو ہم دونوں کی امیوں نے صلاح مشورہ کر کے ہمیں اپنے اپنے گھر کے قریبی سلائی سکول میں داخل کروا دیا۔

دو تین مہینوں میں ہی ہمارے ہاتھ اچھے خاصے صاف ہوگئے۔ ہم ایک جیسے کپڑے اور ایک جیسی ڈیزائیننگ کے کپڑے سینے اور پہننے لگیں خاندان بھر میں ہماری دوستی کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ کوئی چھٹی آتی تو ہم دونوں میں سے کسی ایک کا بھائی ہمیں ایک دوسری کے پاس چھوڑ دیتا تو دن عید اور رات شبرات بن جاتی ہم اتنی باتیں کرتے اتنی ہنسی ہنستے کہ دن سے رات اور رات سے دن ہو جاتا۔

لیکن باتیں ختم ہوتیں نہ ہنسی کی جھنکار مدھم پڑتی۔ ہم دونوں ایک دوسری کی دیکھا دیکھی اپنے جذبات ڈائری میں بھی لکھتی تھیں۔ اور ایک دوسری سے شئیر بھی کرتی تھیں، ہم نے مستقبل کے لئے یہ پلان کر رکھا تھا کہ نوکری تو کرنے کی کبھی اجازت نہیں ملے گی ہم دونوں یا تو ڈریس ڈیزائنر بنیں گے یا رائٹر بنیں گے یا پھر مل کے ڈپلیکس جیسا بیوٹی سیلون کھولیں گے ممکن کچھ بھی نہ تھا۔

لیکن ہم صرف اتنا سوچ کے بھی سرشار ہی رہتی تھیں۔ جیسے ہم دنیا فتح کرنے کی قوت رکھتی ہوں۔ ہم دونوں نے انٹر کر لیا، تو میرے ابو نے پڑھائی سے ہاتھ اٹھا لئے کہ میری محدود تنخواہ تمہاری پڑھائی کا خرچہ نہیں اٹھا سکتی۔ وہ تو میٹرک کے بعد ہی منع کر رہے تھے۔ لیکن امی نے جوں توں کر کے منا لیا تھا۔ ابو ایک سرکاری محکمے میں کیشئیر تھے، آمدنی بہت کم تھی بچت تو کہیں تھی ہی نہیں۔

لیکن بینا نے گریجویشن میں ایڈمیشن لے لیا اسکے ابا چھوٹے موٹے ہی سہی لیکن بزنس مین تھے۔ گھر میں مقابلتاً تھوڑی فراوانی تھی۔ میں بہت روئی تڑپی اور کافی شور شرابا بھی کیا روٹھ کے ہفتہ بھر احتجاج بھی ریکارڈ کروایا لیکن ابوجان نے آنکھیں بند کرلیں۔ اور کان بھی لپیٹ لئے کہ پیچھے اور اولادیں ہیں پرائے دھن پہ لگاتے رہے تو انہیں میٹرک بھی نہیں کروا سکیں گے بہت دن رودھو کے میں چپ ہوگئی اور سنبھلنے لگی ذرا ہوش ملی تو معلوم ہوا۔

اب میرے پاس فراغت ہی فراغت تھی اس سے پہلےآدھا دن کالج میں گذر جاتا تھا۔ لیکن اب دن پہاڑ سا بن گیا میں اوپر نیچے کے چکر کاٹتی رہتی لیکن دن کاٹے نہ کٹتا۔ میرا ریڈیو بھی امی نے میرے احتجاج کے دوران ڈنڈا مار کے توڑ دیا تھا، کہ یہی بگاڑ کا سبب ہے یہی بغاوت کا رستہ دکھاتا ہے ورنہ کچھ تو وقت اچھا گزرتا، اب بینا سے ملنا بھی کم ہوگیا تھا ہر ویک اینڈ پہ اس کے پاس پریکٹیکل اور اسائنمنٹس کی مصروفیت ہوتی۔

اگر میں کبھی زبردستی چلی بھی جاتی تو وہ مجھے بھی اپنے کام میں شامل کر لیتی مجھے اکتاہٹ ہوتی بلکہ اس سے زیادہ جلن ہوتی میں ابھی اور پڑھنا چاہتی تھی۔ لیکن میرے پر کاٹ کے مجھے قید کر دیا گیا تھا۔ میں بدمزہ سی ہوکے لوٹ آتی۔ ابو نے اپنے کزن کے مشورے پہ وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ لے لی اور ملنے والی رقم سے شہر کے بیچوں بیچ دکان کرائے پہ لے کر ایک چھوٹا موٹا سا چھاپہ خانہ لگا لیا۔

ابتدا میں کافی مشکل ہوئی نوکری کی تنخواہ سے جو ہماری لگی بندھی روٹین تھی۔ اب وہ بھی خراب ہوگئی۔ انہیں دنوں ہماری سوسائٹی کی مارکیٹ میں مسرت مصباح کے پارلر کی برانچ کھل گئی گرمی کی چھٹیوں میں جنرل بیوٹیشن اور کئی طرح کے سپیشل کورسز متعارف کروائے جا رہے تھے، ہاکر ہمارے گھر بھی اخبار میں لپیٹ کے بروشر ڈال جاتا تھا۔ پاس پڑوس سے میری طرح کی فارغ کتنی ہی جوان لڑکیاں جوائین کرنے جا رہی تھیں۔

فیس اتنی تو نہیں تھی لیکن ابو پہ پھر بھی بھاری تھی۔ لیکن میری ضد سے مجبور ہوگئے، اور اجازت دے دی شائد مستقبل میں کمانے کا مستقل ذریعہ بھی ذہن میں تھا۔ میں کافی دلجمعی سے سیکھ رہی تھی۔ میری فطرت میں ایک میک اپ آرٹسٹ قید تھی۔ جو موقعہ ملنے پہ اچھل کے باہر نکل آئی کورس کروانے والے سر کو میرا کام بہت زیادہ پسند آتا وہ کہتے جتنا بتاؤ تم اس سے ڈبل سیکھ جاتی ہو باقی لڑکیاں رشک کرتیں۔

اور پھر بعد میں مجھ سے پوچھ پوچھ کے زچ کر دیتیں میں اپنے اچھے کام کی بدولت سوسائٹی میں مشہور ہو گئی۔ کورس مکمل ہوگیا تو مجھے پارلر والوں نے جاب آفر کردی معقول پیسے تھے گھر میں امی نے مخالفت کی کہ ہم بیٹی کی کمائی نہیں کھا سکتے لیکن ابو نے اجازت دے دی میں جاب کرنے لگی ساتھ ہی گھر کے ایک چھوٹے کمرے میں بیوٹی پارلر بھی کھول لیا جو سیکھا تھا۔

اور پارلر میں کام کر کر کے جتنا پالش ہو رہی تھی، وہ سب اچھی خاصی آمدن دینے لگا اس طرح میں پریکٹس میں رہنے لگی تھی ہاتھ کے ہنر کا یہی کمال ہے کہ جتنا پریکٹس میں رہیں ہنر اتنا ہی پالش ہوتا ہے۔ کالونی کی لڑکیاں اور خواتین میرے پاس آنے لگیں میں سب کی راز دار بھی بنتی جا رہی تھی۔ اچھی خاصی انکم ہونے لگی تھی۔

ایک بات تو بتانا ہی بھول گئی میرے ساتھ بینا نے بھی بہت کوشش کی کہ وہ بھی میرے ساتھ کورس جائین کر لے۔ لیکن اس کے ابا نے آنکھیں دکھا دیں کہ چپ چاپ پڑھائی کرو ورنہ گھر بیٹھ جاؤ ہمارے خاندان میں لڑکیاں ڈاکٹر، ٹیچر تک کی جاب نہیں کرتیں یہ تو نائیوں والا کام ہے۔ ہمیں تمہاری کمائی نہیں کھانی وہ دل مسوس کر بیٹھ گئی اس سے پہلے ہم ہر جگہ ساتھ ساتھ ہوتے تھے۔

اب منزل ایک نہیں رہی تو ہماری راہیں جدا ہونے لگیں۔ ہمارا ملنا ملانا بہت کم ہوگیا پہلے وہ مصروف تھی لیکن اب میں بہت ہی مصروف ہوگئی تھی دن کو جاب اور شام کو اپنا پارلر میرے پیسوں سے گھر میں تھوڑی فراغت نظر آنے لگی تھی امی کی کئی چھوٹی چھوٹی خواہشات تھیں۔ جو میری کمائی چپکے سے پوری کر دیتی چوتھائی صدی پہلے کی بات ہے۔ زمانہ روایتی ڈگر پہ چل رہا تھا، ابھی اپنی انکم اپنے پاس رکھنے کا زمانہ نہیں آیا تھا۔

نہ ہی معاشرے کے نام نہاد استاد علمبرداروں نے یہ سکھایا تھا، کہ بطور فرد آپکے اوپر صرف آپ کا اپنا حق ہے۔ گھروں میں جو بھی بچہ کمائی شروع کرتا آمدن امیوں کو ہی دی جاتی تھی، سو میں تمام تنخواہ اور گھر والی کمائی امی کے ہاتھ پہ رکھ دیتی تھی۔ اب وہ بھی خوش تھیں۔ امی کب سے لاؤنج کے لئے ایک صوفہ کم بیڈ لینا چاہتی تھیں وہ آگیا۔

پورے گھر میں ڈسٹمپر کروایا گیا لنڈے کے رنگ برنگے پردے پھینک کر اچھے سے ایک جیسے پردے لگوائے گئے گھر کوٹھی میں بدل رہا تھا۔ میری آمدن بڑھتی رہی گھر مین فریج بھی آگیا۔ پھر امی نے پیسے جمع کر کے کلرٹی وی بھی لے لیا۔ جس پہ میرے چھوٹے بہن بھائی ڈرامے دیکھتے تو مجھے اپنا مرحوم بے ضرر ریڈیو بہت یاد آتا میں بھی کتنی بے اعتباری تھی کہ صرف صداکاری سن کے بگڑ جاتی۔

اور بہن بھائیوں کے درمیان چند سالوں کے فرق میں جسے کسی طور جنریشن گیپ نہیں کہا جاسکتا اخلاق بگڑنے کا کوئی خدشہ لاحق نہیں تھا۔ کئی طرح کے قیمتی ڈیکوریشن پیسز گھر میں سج گئے۔ بڑا بھائی بھی گریجوئشن کے بعد ابو کا ہاتھ بٹاتا تھا۔ جوان خون ملنے اور چھپائی میں نئے تجربات سے دو تین برسوں میں ابو کا چھاپہ خانہ خوب پھل پھول رہا تھا۔

بھائی کے کام میں بڑی جدت تھی، جو کام باقی کاریگروں کے لئے چیلنج ہوتا بھائی کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ رفتہ رفتہ گھر میں ہر جگہ خوشحالی بھاگتی دوڑتی اور جگہ جگہ دیواروں پہ ٹنگی نظر آتی۔ بینا کی گریجوئشن مکمل ہوئی تو اسکے لئے اسکی کلاس فیلو کے انجینئر بھائی کا رشتہ آگیا۔ ہم دونوں کتنا چاہتی تھیں، کہ ہم ایک دوسری کی بھابھیاں بن کے ہمیشہ کے لئے ساتھ ساتھ رہیں۔ شومئی قسمت کی ہمارے بھائیوں کا رجحان ہی نہیں تھا۔

میرے امی ابو کی بھی شدید خواہش تھی تب تو خالہ خالو بھی چاہتے تھے لیکن میری نائیوں والی جاب کی وجہ سے اپنا دل اٹھا لیا۔ بینا کے امی ابا نے اس کا رشتہ اس خوبرو انجینئر سے طے کر دیا۔ ہمارے گھر مٹھائی آئی تو امی ابو کا دل ٹوٹ سا گیا، انہیں بھی ضد لگ گئی کہ ہم بھی اپنی بیٹی کو بینا کے ساتھ ہی رخصت کریں گے۔

ابو نے اپنی بہن سے بات کی اور عجلت میں کلرک پھپھی زاد کے لئے ہاں کہہ دی گئی یہ وہی پھپھی تھیں جنہیں میرا کام کرنا پسند نہیں آیا تھا اور خاندان بھر میں بدنام کیا تھا۔ اب گھر میں روپے کی ریل پیل دیکھ کر لٹو ہوگئیں، کام کر کر کے اب میں تھکنے لگی تھی۔ میرا شوق بھی اتر چکا تھا، میں کام چھوڑنا چاہتی تھی لیکن میری اچھی خاصی آمدنی تھی، امی نہیں چاہتی تھیں کہ میں پارلر بند کروں۔

Check Also

Mukalmat Zindagi Badal Dene Wali Kitab

By Abid Hashmi