Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaara Mazhar/
  4. Aye Waqt Gawah Rehna

Aye Waqt Gawah Rehna

اے وقت گواہ رہنا

ان دونوں نے محبت کی شادی کی تھی۔ پچیس سال پہلے زمانہ ایک جنریشن پیچھے تھا، یہ ٹیکنالوجی وار، وسائل اور آزادیاں نہیں تھیں، یہ سستی محبت تب بھی زندہ تھی ذرائع ایسے جدید نہیں تھے۔ لیکن ہوس تسکین کا ذریعہ ڈھونڈ ہی لیتی ہے۔ زرینہ محمود کے محلے میں مین روڈ پہ رہتی تھی۔ وہ دو گلیاں چھوڑ کے پیھچے رہتا تھا۔

پرانی محلے داری تھی مائیں ایک دوسرے کے گھر خوشی غمی میں آتی جاتی تھیں۔ دونوں چار چار بہن بھائی تھے بچوں کا آپس میں ایسا کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ محمود میٹرک پاس کر کے مقامی کالج کا سٹوڈنٹ تھا، زرینہ سکول جاتی تھی۔ زرینہ کا چار سال بڑا بھائی تھا، ماں بڑے ارمانوں سے بہو لانے کے خواب دیکھتی تھی زرینہ کی شادی کا تو کوئی تذکرہ ہی نہیں تھا بچی تھی اور پـڑھ رہی تھی۔

پتہ نہیں کیوپڈ کا تیر کدھر سے چلا اور کیسے تعلق بندھا یہ کہانی تو کبھی منظر عام پہ نہیں آئی، لیکن دونوں ایک دوسرے کے عشق میں گرفتار ہو گئے۔ گرمی ایسی تھی کہ لمبی چوڑی کہانی بنانے اور انتظار کرنے کی بجائے دونوں گھر سے ہی بھاگ گئے نہ سر پہ ماں کی دعاؤں کی ردا نہ باپ کا سایہ زرینہ نے چپکے سے دہلیز پار کر لی۔

زرینہ کے کھاتے پیتے ابا نے ایف آئی آر کٹوا دی بڑا شور ہنگامہ ہوا پولیس کے چھاپے پڑے دونوں کے گھر والے کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہے۔ لیکن بچے یوں غائب تھے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ چھ ماہ کی جد و جہد کے بعد بھی پولیس ناکام رہی اور کیس داخل دفتر کر دیا گیا۔

صف ماتم تو محمود کے گھر میں بھی بچھی تھی۔ لیکن زرینہ کے ماں باپ تو جیسے زندہ درگور ہوگئے تھے۔ زرینہ سے بڑا رستم جوشیلا خون تھا، ابھی کھوجیوں کا فن سلامت تھا، وہ جگہ جگہ کھرے اٹھواتا پھرتا تھا اسکے بی ایس سی فائنل ہونے والے تھے۔ کالج چھوٹ چکا تھا لیکن اس کے سینے میں جلتی آگ کے سامنے کوئی چیز اہمیت نہیں رکھتی تھی۔

اس نے کئی پرائویٹ مخبروں کو بھی کیس کے پیچھے لگا رکھا تھا۔ جس شہر اور جس جگہ دَس پڑتی وہ بھاگا جاتا کبھی تو کوئی اور بھاگا ہوا جوڑا ٹکر جاتا اور کبھی محمود اور زرینہ ہوشیار ہوکے جگہ بدل چکے ہوتے سال بھر میں زرینہ کے والدین کے گھر کی جمع پونجی لٹ چکی تھی باپ کے کاروبار کریانہ سٹور پہ دن بھر مکھیاں بھنبھناتی رہتی تھیں۔

گاہک کوئی سودا لینے آتا تو وہ سودا موجود ہی نہ ہوتا گاہک بڑبڑاتا کوستا تھـڑے اتر جاتا سامنے شفقت کریانہ سٹور جو ہمیشہ سے ماٹھا سا تھا گاہکوں سے شفقت فرماتا۔ طرح طرح کے مسائل کا شکار ہوکے بہن بھائی سکول کالج چھوڑ چکے تھے۔

بھاگتے بھاگتے شائد وہ بچ نکلے تھے۔ محبت مکمل ہو گئی تھی، لیکن پڑھائی ادھوری رہ گئی تھی۔ زندگی میں سکون کا نام و نشان نہیں تھا۔ محمود کسی لنگر خانے سے روٹی لے آتا دونوں کھا لیتے محمود کی پونجی تیزی سے خرچ ہو رہی تھی آگے کیا ہوگا دونوں نہیں جانتے تھے شام کا وقت تھا لنگر کھانے کے بعد دونوں زمین پہ چادر بچھائے سو رہے تھے۔

جب دروازہ بجا محمود کے خواب خیال میں بھی نہ ہوگا باہر رستم کڑے تیوروں کے ساتھ کھڑا تھا دروازہ کھلتے ہی درانہ وار اندر گھس آیا محمود کو دیوار سے پٹخا اور زرینہ کو چوٹی سے پکڑ کے کھڑا کیا ساتھ لائے ڈالے میں ڈالا اور یہ جا وہ۔ زرینہ احتجاج تک نہ کر سکی نہ محمود کو پتہ چلا اچانک کیا ہوا ہے۔

گھر لاکے سیدھا ماں کے قدموں میں پھینک دیا لے ماں میں سرخرو ہوا باپ کا تخم ہونے کا حق ادا کر دیا یے اب تو جانے اور ابا جانے۔ ماں منہ پھیر کے کھڑی ہوگئی ایک لفظ تک نہ کہا کہنے کو تھا ہی کیا دو دن گپ چپ رہنے کے بعد زرینہ دھیرے دھیرے خود ہی گھر داری کے کام کاج کرنے لگی لیکن دل سے عشق کا جنون نکلا نہیں تھا۔ بلکہ سر کو چڑھ گیا تھا۔ محمود وہاں اکیلا کیا کرتا تین چار دن ٹہر کے وہ بھی شرمندہ شرمندہ لوٹ آیا۔

محلہ ایک تھا گھر میں باتیں تو ہوتی تھیں۔ زرینہ کو بھی خبر ہوگئی تھی کہ وہ بھی واپس آگیا ہے۔ اب کے اس نے اپنا بھی اور بہنوں کا رکھا زیور سب اڑایا ماں کے عبائے میں تن من لپیٹا اور بڑی جرات سے محمود کے دروازے پہ جا دستک دی۔ اتفاق تھا کہ دروازہ محمود نے کھولا زرینہ نے نقاب الٹ دیا ورنہ زرینہ نے سوچ رکھا تھا کہ راستہ بھٹکنے کا بہانا کر کے واپس چلی جاؤں گی دونوں نے کچھ نہیں کہا سنا اور پھر بھاگ گئے۔

اس بار سیدھا کراچی کا ٹکٹ لیا اور ایک کھولی لے کے رہنے لگے۔ ابتدا میں تو ہوا سرسرانے پہ بھی چونک چونک جاتے پھر دل سے خطرہ اترنے اترنے دھل گیا۔ سال بھر ہوگیا گود میں ایک پریوں جیسی منی آگئی۔ دونوں نثار ہوتے رہتے لیکن کبھی کبھی محمود کو ایک انجانی سی بے چینی لگ جاتی۔ سال اور گزر گیا اب منی پاؤں پاؤں چلنے لگی لڑکھڑاتے لڑکھڑاتے باپ سے لپٹ جاتی منہ چومتی پاؤں دبانے کی ایکٹنگ کرتی وہ پیار کرتا کرتا کیڑے کی طرح جھٹک دیتا۔

زرینہ کو اس کا رویہ بے حد عجیب لگتا شائد اسے بیٹے کی خواہش تھی۔ زندگی میں نہ ماں رہی تھی نہ بہن نہ کوئی سہیلی۔ اس کا جی چاہتا کسی سے ملنے جائے کوئی اس کے ہاں آئے ماں کڑھی بنائے تو اس کا حصہ بھیجے۔ عید شبرات پہ اسے میکے جانا ہو لیکن میکہ تو اجڑ گیاتھا وہ خود آگ لگا آئی تھی۔ محمود بھی اکتایا اکتایا بیزار سا رہنے لگا تھا، اس کے بھی تمام رشتے چھوٹ چکے تھے۔

اجنبی شہر میں کوئی واقف کار نہیں تھا مزدوری سے زیادہ کام نہیں ملتا تھا۔ کھولی کا مالک چوہدری عابد بہانے بہانے سے وہ تمام زیور بھی اینٹھ چکا تھا اور ننگی نظروں سے الگ دیکھتا تھا۔ جیسے زرینہ کوئی طوائف ہو اور محمود اس کا دلال۔ تیسرے سال تو چخ چخ رہنے لگی عشق و عاشقی کا بھوت سر سے اتر چکا تھا منی جوں جون بڑی ہو رہی تھی محمود کا ڈپریشن بڑھنے لگا وہ باپ سے لاڈ لڈاتی اور باپ پیار کرتے کرتے پٹخ دیتا۔

اسے سوچ آتی نہ کوئی بہن نہ بھائی نہ ماں باپ اگر یہ بھی بڑی ہو کے بھاگ جائے۔ بس ہھر اس کا میٹر گھوم جاتا، جنون دماغ کو چڑھ جاتا جیسی ماں ویسی بیٹی۔ زرینہ کے بہن بھائی پڑھ ہی نہیں سکے تھے، رستم شہر بھر میں دادا بن کے گھومتا تھا کئی بار سزا بھگت چکا تھا ایک شریف خاندان تنکے تنکے ہو گیا تھا، بلکہ دونوں خاندانوں نے ساری زندگی ان کا یہ کریہہ عمل بھگتا۔

اور پھر جو ہوا وہ زرینہ کے وہم گمان میں کبھی نہیں تھا۔ زرینہ کسی کام سے نکلی تھی محمود نے منی کو قتل کر کے چھری اپنے جلتے سینے میں اتار لی تھی۔ سب کچھ ختم ہو گیا تھا زرینہ گنگ کھڑی تھی ہمسائیوں نے ایک بار بھر پولیس بلا لی تھی لمبی کاروائیاں چلیں اور زرینہ کا آخری ٹھکانہ دار الامان بنا تھا۔ آج یہ قصہ پھر سے یاد آگیا انسان اپنا کردار ادا کر کے سٹیج چھوڑ جاتے ہیں لیکن وقت گواہ رہتا ہے۔

Check Also

Saudi Arabia Mein Anar Ki Kasht

By Mansoor Nadeem