Nao Umri Aur Chirchira Pan
نوعمری اور چڑچڑا پن
تیرہ سال کی عمر ہے اور بیٹا یعنی لڑکا ہے، اس عمر کے بچے سب سے زیادہ بلوغت طاری ہونے کی وجہ سے چڑ چڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ ہارمونل چینجز اس عمر کے بچوں کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ ہوتی ہیں۔ اس وجہ سے میری نظر میں ایسے بچوں کو ایک فری زون ضرور دینا چاہیے۔ بچے کا والد سب سے پہلے بچے سے اس موضوع پر گفتگو کرے اور جاننے کی کوشش کرے کہ اسے اریکشن یا ویٹ ڈریمز کا مسئلہ تو پیش نہیں آ رہا؟
آیا وہ رات کو اس وجہ سے تنگی یا نیند کی کمی کا شکار تو نہیں؟ بعض اوقات جب لڑکوں میں اریکشن کا مرحلہ شروع ہوتا ہے تو وہ گھبرا جاتے ہیں کہ یہ کوئی بیماری یا مسئلہ تو نہیں ہے؟ جسمانی عضو میں یک دم سے ایسی تبدیلی بچوں کو مختلف وہم اور وسوسوں کا شکار کر دیتی ہے۔ تو سب سے پہلے والد اپنے بیٹے سے گفتگو کرے اور اگر ایسا کوئی مسئلہ ہے تو اس کی رہنمائی کرے۔ طریقہ کار میرے آرٹیکلز اور ویڈیوز میں موجود ہے۔
اگر یہ مسئلہ نہیں ہے تو پھر جس طرح آپ اکیلی رہتی ہیں اور آنا جانا بھی نہیں ہے۔ بچے کا والد بھی ہفتے میں ایک بار آتا ہے تو عین ممکن ہے کہ وہ دوستوں کی کمی محسوس کرتا ہے۔ غیر ملک میں دوسروں کے ساتھ یا تو کم بنتی ہے یا پھر خود والدین بچوں پر پابندی عائد کر دیتے ہیں۔ جب کہ بچہ وہاں کے ماحول اور دوسرے بچوں کو دیکھتا ہے کہ وہ سب اتنے آزاد اور میں تنگ ماحول میں کیوں؟ یہ موازنہ بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔
بچے کو سوشل کریں کیوں کہ وہ لڑکا ہے، تو اسے اب اپنی عمر کے لڑکوں کے ساتھ بات چیت اور کھیل کود کی ضرورت ہے۔ لڑکے اگر گھر میں قید رہیں تو وہ نہ تو خود خوش رہتے ہیں نہ دوسروں کو رہنے دیتے ہیں۔ تیرہ سال کے بچے کو ہم گھر کی چار دیواری تک محدود نہیں کر سکتے ہیں۔ سکول فرینڈز، کالونی فرینڈز کے ساتھ اس کا کوئی شیڈول طے کریں۔ روزانہ کی فزیکل ایکٹویٹی مگر اپنی عمر کے لڑکوں کے ساتھ۔
یہ ذہنی طور پر بھی تازگی بخشے گی اور ہارمونل چینجز کو بھی قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔ جہاں تک بات نہ ماننے کا تعلق ہے تو آپ نے کہا پہلے مانتا تھا اب نہیں، تو جب وہ پانچ سال اور اب تیرہ سال کا ہے۔ تیرہ سال کے بچے سے تیرہ سال والی ہی امید وابستہ کریں، پہلے اور اب میں فرق تو آئے گا اور لڑکے جیسے جیسے بڑے ہوتے ہیں۔ وہ باپ کی بات تو خوشی سے مان سکتے ہیں۔
مگر ماں کی بات پر نوک جھونک چلتی رہتی ہے یہ نارمل بات ہے، اسے نارمل ہی سمجھیں۔ اس کے علاوہ تھوڑی بہت شرارتیں اور یہ سلسلہ بچوں کیلئے ضروری بھی ہے۔ وہ اپنے رشتوں دادا دادی چاچا چاچی وغیرہ اور اپنے کزن سب سے دور ہے تو ان سب کے حصے کی برداشت ماں باپ کو ہی کرنی پڑتی ہے۔ ان باتوں کو مدنظر رکھیں اور ٹیک اٹ ایزی، ٹھنڈے دماغ سے کام لیں، سب بہتر ہوگا۔