Khushgawar Azdawaji Zindagi Ke Asool
خوش گوار ازدواجی زندگی کے اصول
دو دن پہلے دوست کی شادی ہوئی تو اگلے دن ازدواجی زندگی کو لے کر گفتگو ہوئی۔ میں چاہتا تھا کہ جو دوست شادی شدہ ہیں وہ اس موضوع پر گفتگو کریں مگر ان کا اصرار تھا کہ تمہارا مشاہدہ اور مطالعہ زیادہ ہے۔ تم بات کرو۔۔ گفتگو کو قلم بند کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔۔
حوصلہ افزائی۔
اس رشتے میں ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی بہت ضروری ہے۔ سارا دن طنزیہ جملوں کی برسات، ہر عادت اور کام میں کیڑے نکالتے رہنا، خود کو زیادہ قابل، ذہین اور سمجھدار ثابت کرنے میں اپنے پارٹنر کو نیچا دکھانے کی کوشش۔۔ یہ سب کچھ ازدواجی زندگی کو بری طرح متاثر کرتے ہیں اور یہ تعلق اذیت بن کر رہ جاتا ہے۔ مرد اور عورت دونوں کو سراہے جانا پسند ہے۔ یہ دونوں کی غذا ہیں۔ خاص طور پر عورت اپنی اور اپنے کام کی تعریف چاہتی ہے۔ یہ تعریف اس کیلئے انرجی کا کردار ادا کرتی ہے۔ کسی بھی کام پر عورت کی تعریف یا حوصلہ افزائی کر دیں تو وہ یہ کام سارا دن کر سکتی ہے۔ تقریباً ہر گھر میں خواتین کا زیادہ وقت باورچی خانے میں گزرتا ہے لیکن جہاں کھانا بنانے پر تعریف کی جاتی ہے وہاں خواتین شوق سے باورچی خانے کا رخ کرتی ہیں اور جہاں تنقید کی جاتی ہے وہاں خواتین مجبوری کے تحت باورچی خانے میں نظر آتی ہیں۔۔
اعتدال اور میانہ روی۔
یہ بہت اہم پہلو ہے۔ میرے پھوپھا جی کہتے ہیں " مرد کو کبھی بھی پیروں یا سر گردن تک نہیں جانا چاہیے۔ اسے درمیاں میں رہنے کی ضرورت ہے۔ وہ مرد جو بات بات پر گالیاں دیتے ہیں۔ جو بات بات پر مارنے یا گلا دبانے تک پہنچ جاتے ہیں وہ مرد نہیں ہوتے۔ جو بات بات پر عورت کے پاؤں پکڑ لے وہ بھی مرد نہیں ہوتے۔ عورت کو میانہ روی کے ساتھ ڈیل کرو۔۔ زندگی میں کبھی ایسا موقع آ جائے کہ درمیان میں رہنے والا مرد اگر عورت کے پیر پکڑے تو عورت ہل جاتی ہے۔ یا اگر وہ غصے کی انتہا پر جائے تب بھی عورت جنجھلا جاتی ہے۔ کہ یہ تو ایسا نہیں ہے تو آج؟ اسے احساس ہو جاتا ہے کہ یقیناً اس سے کوئی بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے۔۔
حد سے زیادہ آزادی کبھی مت دو، بے جا کی سختیاں اور پابندیاں عائد مت کرو۔ توازن برقرار رکھا جائے تو بہتر ہے۔ جو آزادی اس کا حق ہے اس سے مت چھینو۔ اسے اعتماد دو۔ سپورٹ کرو۔ باندھ کر رکھنے کی کوشش نہ کرو بلکہ ایک ایسا تعلق قائم کرنے کی کوشش کرو کہ عورت خود تمہارے ساتھ بندھے رہنا پسند کرے۔ یک دم جذباتی ہو جانا اور یک دم پگھل جانے والا مرد اپنا مقام کھو دیتا ہے۔ دن میں کئی مرتبہ غصہ کرنے اور گالیاں دینے والے مرد عورت کی نظر میں اپنا مقام کھو دیتے ہیں۔ وہ خود ہی عورت کو بیزار کر دیتے ہیں۔
صاف ستھرے رہنا۔۔
جس طرح ایک شوہر چاہتا ہے کہ بیوی تیار شیار ہو، خوشبو لگائے، ہلکا سا میک اپ کرے، جیولری وغیرہ کا استعمال کرے۔ نہا دھو کر اچھا لباس زیبِ تن کرے، مسکرا کر پیش آئے۔ ٹھیک اسی طرح ایک عورت بھی یہی چاہتی ہے کہ شوہر بھی نہا دھو کر اچھا لباس زیبِ تن کرے، خوشبو لگائے، اپنی جسمانی ساخت کو بہتر بنائے، مسکرا کر پیش آئے۔۔
مگر ہوتا یوں ہے کہ مرد کام سے واپس آ کر تھکے ہارے لیٹ جاتے ہیں۔ چینج نہیں کرتے۔ جس طرح روکھی پھیکی بیوی شوہر کو نہیں متوجہ کرتی اسی طرح گندی بنیان میں لپٹا شوہر بیوی کی توجہ حاصل نہیں کر پاتا۔ ایسے حالات میں بس مجبوری اور ضرورت کی جنگ چلتی ہے۔ جذبات واحساسات اور محبت کا تعلق درمیان میں رہ جاتا ہے۔۔
ایک دوست کی کچھ ماہ پہلے شادی ہوئی ہے۔ اس بار اس سے ملاقات ہوئی تو اچھی باڈی شاڈی بنا رکھی تھی ماشاءاللہ حیران کن بات تھی کیوں کہ شادی کے بعد اکثر مرد اس بات کا خیال نہیں کرتے اور پیٹ چھت کو سلامی کرتا ہے۔ کئی عورتیں بھی اس بات پر توجہ نہ دے کر خود پر ظلم کرتی ہیں۔۔
میں نے دوست کی حوصلہ افزائی کی تو کہنے لگا" مجھے تیری بات یاد تھی۔ یہ مشورہ تم نے ہی تو دیا تھا۔ کہ شادی کے بعد بھی جم ورزش واک جاری رکھنا۔ باہمی تعلق زیادہ مضبوط اور خوش گوار رہے گا"۔
کچے کان۔۔
مرد کانوں کا جتنا پختہ ہوگا وہ اتنا ہی اچھا شوہر، بیٹا اور بھائی ثابت ہوگا۔ کچے کانوں والا مرد ساری زندگی عورتوں کے باہمی معاملات میں الجھ کر رہ جاتا ہے اور آہستہ آہستہ ماں، بہن بھائی اور بیوی سب کیلئے نکما اور فضول بن جاتا ہے۔۔
بیوی نے کمرے میں گھر والوں کی کوئی بات کر دی تو اس بات کو اسی کمرے تک محدود رکھیں۔ باہر جا کر ماں باپ کو یہ بات بتائیں گے تو مسائل پیدا ہوں گے۔ آپ کی بیوی ہے دکھ سکھ کا اظہار آپ سے نہیں کرے گی تو کسی اور کے سامنے پھٹ پڑے گی۔ تب مسائل پیدا ہوں گے۔ آرام سے اس کی سن لیجیے اور ہاتھ پکڑ کر تسلی دیں کہ" کوئی بات نہیں یار۔۔ میں سمجھ سکتا ہوں۔ بس وہ بڑے ہیں تو اللہ کی رضا کیلئے ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیا کرو۔ برداشت نہ ہو تو مجھے سنا دیا کرو"۔۔
ماں اگر آپ کی بیوی کے بارے کچھ کہے تو سن لیں۔۔ جا کر بیوی کو بتائیں گے تو گھر کی خواتین میں جنگ عظیم چل پڑے گی۔ گھریلو سیاست کا آغاز ہو جائے گا۔ ماں کی سن کر خود تک محدود رکھیں۔ بیوی کے سامنے ماں کی اور ماں کے سامنے بیوی کی تذلیل کبھی مت کریں۔ ہر رشتے کو اس کا مقام دینے والے مرد بہترین ہوتے ہیں۔ اعتدال اور میانہ روی سے کام لیں۔۔
عورت کو عورت سے تضاد۔۔
عورت کو عورت سے ہمیشہ مسئلہ رہتا ہے۔ وہ ماں بیٹی یا دو بہنیں ہی کیوں نہ ہوں۔ آپ کی بیوی کی کوئی عادت یا کام آپ کی ماں کو پسند نہیں تو جا کر کبھی مت کہیں " اماں یہ کہہ رہی تھی، وہ کہہ رہی تھی۔ تمہاری یہ عادت ٹھیک نہیں وغیرہ وغیرہ"۔ ایسا کریں گے تو کام مزید خراب اور الٹ ہو جائے گا۔ سننے کے بعد کچھ دن انتظار کریں اور پھر اچھا سا موڈ دیکھ کر اپنی بیوی کو اپنی طرف سے کہیں " یار فلاں کام اگر ایسے نہیں، ایسے کرو تو؟"۔ وہ آرام سے مان جائے گی۔ اگر کہا کہ اماں نے کہا ہے۔۔ تو بھول جائیں کہ آپ کی بیوی قبول کر لے۔۔
میکے کی برائی۔۔
عورت اپنے بھائیوں اور والدین کی برائی کبھی برداشت نہیں کرتی وہ چاہے کتنے ہی غلط ہوں۔ یہ عورت کی فطرت میں شامل ہے۔ اکثر شوہروں کو یہ کہنے کا موقع چاہیے ہوتا ہے" تم لوگ ایسے ہی ہو، تمہارا خاندان ہی ایسا ہے، تمہارے والدین کی تربیت ہی غلط ہے۔ تمہارے گھر یا خاندان کا ماحول ہی ٹھیک نہیں "۔ وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ یہ انتہائی غلط بات ہے۔ اور ہر دوسری عورت کو یہی کچھ سننے کو ملتا ہے۔۔
آپ کا باہمی مسئلہ ہے تو اسے باہمی رہنے دیں۔ والدین تک جانے کی کیا ضرورت ہے؟ بحیثیت مرد آپ لوگ بیوی کے مرحوم والدین کو بھی نہیں چھوڑتے تو کیا آپ مرد ہیں؟ قبر میں موجود اس کے ماں باپ کو گالیاں دیتے رہنا آپ کی مردانگی ہے؟ اس طرح آپ عورت کیلئے جیتے جی مر جاتے ہیں کیوں کہ دل سے نکل جانے والے مرے ہوئے ہی ہوتے ہیں۔۔ آپ اپنی بیوی کی غلطی کو اسی تک محدود رکھیں وہ برداشت کرے گی، سمجھے گی اور خود کو بدلنے کی کوشش بھی کرے گی۔۔
دوستانہ تعلق۔۔
کٹر اور سخت مت بنیں۔ ڈر اور خوف والا تعلق مت بنائیں۔ دوستانہ مراسم قائم کیجیے۔ میاں بیوی بہترین دوست بن سکتے ہیں اگر آپ ایک دوسرے کی غلطی کو معاف کرنا سیکھ لیں۔ ایک دوسرے کو اپنائیت، محبت، احساس، توجہ اور عزت دیں۔ انڈرسٹینڈنگ محبت سے بھی اوپر والا معاملہ ہے۔ ہم خیال بننے کی کوشش کریں، ایک دوسرے کی پسند نا پسند کا خیال رکھیں۔ کچھ خود کو بدل لیں کچھ سامنے والے کو۔ ساری تبدیلیاں یک طرفہ ممکن نہیں۔ قربانی اور سمجھوتہ بھی دو طرفہ ہوں تو ہی مثبت تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔۔
سپیس۔
آپ ایک ہی گھر میں موجود ہیں۔ لیکن عورت اپنا سب کچھ چھوڑ کر نئی جگہ اور نئے لوگوں میں آ گئی ہے۔ جہاں مختلف قسم کے لوگ موجود ہیں۔ سب کی فطرت کو سمجھنے میں وقت لگتا ہے اسے سپیس دیں کہ وہ خود کو ایڈجسٹ کر پائے۔ آپ کے گھر والے سپیس نہیں دے رہے تو آپ اپنے طور پر کوشش کر سکتے ہیں کیوں کہ عورت کو شوہر کی سپورٹ سسرال والوں کو برداشت کرنے کا ہنر سکھا دیتی ہے۔ بس اسے تسلی دیتے رہیں، اس کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں وہ آہستہ آہستہ ایڈجسٹ کرنا سیکھ جائے گی۔۔
ذہنی و جسمانی سکون۔۔
شادی کا مقصد یہی ہے۔ ایک دوسرے کو ذہنی و جسمانی سکون دینا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ ذہنی سکون کیلئے الفاظ کا چناؤ اچھا ہونا، لہجہ نرم اور شائستہ، تعریف، حوصلہ افزائی، اظہار محبت، توجہ، عزت ٹولز کا کردار ادا کرتے ہیں۔۔
پندہ دن میں یا مہینے میں ایک بار آوٹنگ ضرور کریں، بیوی کو باہر لے جائیں۔ مہنگا اور سستا ہوٹل اہمیت نہیں رکھتا۔ چاہے آپ کسی ڈھابے پر لے جائیں یا موٹر سائیکل پر بٹھا کر اسے گھما لائیں اور ایک کپ آئس کریم یا گول گپے کی پلیٹ۔۔ اس کیلئے بہت ہے اگر آپ نے یہ اہتمام اپنی خوشی سے کیا ہے ورنہ غصے اور مجبوری میں مہنگا ہوٹل بھی اسے خوش نہیں کرے گا۔۔
آتے جاتے تعریفی جملوں کا استعمال، ہنسی مذاق، ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ۔۔ یہ سب اسے ذہنی سکون دیں گے اور اس کے بعد ہی جسمانی ضروریات خوشی سے پوری ہوتی ہیں۔ پھر یہ تعلق، جذبات واحساسات دو طرفہ ہوگا۔ اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ عورت کو مکمل کرنا آپ پر لازم ہے۔ بیوی کو ادھورا یا نا مکمل مت چھوڑیں۔ اس کے مکمل ہونے تک اس کا ساتھ دیں۔ کوئی مسئلہ در پیش ہے تو کوئی بات نہیں۔ علاج سنت ہے۔ انا کا مسئلہ مت بنائیں اور اپنی خوراک پر توجہ دیں۔ ورزش کریں، خود کو سٹریس فری رکھیں۔ اچھے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ رومانس میں زیادہ وقت صرف کریں اور عورت کے فنکشن اور نفسیات کو ضرور سمجھیں۔۔
ماضی۔۔
اپنے یا اپنی بیوی کے ماضی کو حال اور مستقبل میں ڈسکس مت کریں۔ جو ماضی تھا وہ گزر گیا ہے۔ حال اور مستقبل پر توجہ دیں۔ اگر آپ اپنی بیوی کے ماضی کے بارے کچھ جان گئے ہیں تو پردہ ڈال دیں۔ کیا بحیثیت مرد آپ نے اپنے ماضی میں کسی سے محبت نہیں کی؟ آپ سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوئی؟ تو عورت بھی انسان ہے۔ اتنا ظرف بلند رکھیں کہ ماضی کو ماضی رہنے دیں۔