Tum Jhoote Ho
تم جھوٹے ہو
برسوں پرانی بات ہے کہ ایک سوداگر کو تجارت کے سلسلے میں دیارِغیر جانے کہ ضرورت پڑ گئی۔ اس نے گھر والوں کی دیکھ بھال اور مال و جائیداد سب اپنے پڑوسی شریف دوست کو سونپ دی۔ کچھ مہینوں بعد سوداگر واپس آیا تو پڑوسی دوست بیوی سمیت سب ہتھیا چکا تھا۔ اب بات قاضی کے پاس پہنچی، سوداگر نے اپنا قصہِ واردات سنایا، دوسری طرف شریف دوست نے بھی دلائل پیش کیئے۔ فیصلے کا دن مقرر ہو گیا، سب سامعین موجود تھے اور قاضی کے فیصلے کے منتظر تھے۔ قاضی نے سوداگر سے پوچھا کہ تم نے کس بنیاد پر اپنا مال و متاع سب دوست کے حوالے کیا؟ سوداگر نے جواب دیا کہ جناب " شرافت"۔ قاضی نے فوراً فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سوداگر "تم جھوٹے ہو"۔
اوپر لکھا گیا قصہِ تمہید میری عوام، میری قوم اور میرے لوگوں اپنی حکومت پر ناجائز اعتبار ہے جو کہ ہم برسوں سے کرتے آ رہے ہیں اور نجانے کب تک کرتے رہیں گے؟ ہماری نادان عوام حکومتی وعدوں، جھوٹی تسلیوں، نوکریوں کے لالچ اور جھوٹی محبتوں کے پہاڑ تلے دب جاتی ہے۔ وقت آنے پر حکومتِ وقت اپنے سب عہد توڑ کر کہتی ہے کہ تم رعایا ہو، میں ملکہ(حاکم) ہوں۔ میں نے فیصلہ کرنا ہے کہ میری عوام کو کیا سہولتیں دینی ہیں؟ کتنا ٹیکس لگا کر کتنے امراء کو عیش کروانی ہے؟ کتنے غریب گھروں کے چراغ گُل کر کے مشیروں کے محلات کو روشن کرنا ہے؟ کتنے یتیموں کے نوالے چھین کر یارانِ محفل کا پیٹ بھرنا ہے؟ میری عوام پر ظلم و ستم کی داستانیں نہ ختم ہونے والی زندگی کی طرح ہیں، جو ہر پل بڑھتی جارہی ہیں۔ یہاں ظالم کو اپنی جابریت کا، چور کو اپنی چوری کا احساس تک نہیں۔
قاضی کو اپنے فیصلوں سے اجڑنے والے گھروں کی کوئی پروا نہیں ہے۔ حکومت کو اپنے فیصلوں سے پِھرنے پر عوام کا احساسِ کمتری کا شکار ہونے کی کوئی فکر نہیں ہے۔ کہتے ہیں نا کہ " کوئی مَرے یا جیئے، میرے پَنج کَھرے"۔ یہاں کسی کو کسی کی فکر نہیں ہے، کسی کو سر کھجانے کی فرصت نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کا عوام سے معاملہ کچھ یوں ہے کہ ایک گھر میں میں فوتگی ہو، ساتھ والے گھر میں شادی و ڈھول پیٹا جارہا ہو۔ ڈھول پیٹنے والوں کا موقف یہ ہو کہ غم تو ان کا ہے ہمارا نہیں۔ عوام حکومت کو جھوٹا اور حکوت کا کہنا ہے تم جھوٹے ہو کیونکہ تم شریف ہو۔