1.  Home
  2. Blog
  3. Usama Shabir
  4. Mulla O Mister Mein Tazad Kyun?

Mulla O Mister Mein Tazad Kyun?

ملا و مسڑ میں تضاد کیوں؟

ہمارا معاشرہ ہمیشہ سے منافقت جیسے ناپاک کردار سے جڑا رہا ہے، نجانے کیوں ہم میں ذومعنی چیزوں کا نظام رائج ہے، ہم اسلام میں تضاد پیدا کرتے جا رہے ہیں، یہ سب کیوں ہورہا ہے، اس کا ذمہ دار کس کو ٹھرایا جائے یا جا رہا ہے؟ کیا ایک مولوی ایک مسڑ سے مختلف ہوسکتا ہے؟ اگر نہیں تو کیوں؟ کیا مولوی انگریزی نہیں بول سکتا ہے، سائنسی تحقیقوں و ایجادوں سے ناواقف ہوتا ہے یا پھر زمانے کے نشیب و فراز سے ناآشنا ہوتا ہے؟ اگر ہاں، تو مولوی و مسڑ اپنے اپنے شعبے میں ماہر مانے جاتے ہیں، تو ہم نے کیوں مولوی و مسڑ میں تضاد پیدا کیا ہوا ہے؟

اسلام میں موجود تعلیمات ساری انسانیت کے لئیے ہیں، ایک دین کا علم سیکھ کر مولوی بن گیا، دوسرا انسانیت کے لئیے نت نئی تحقیقوں سے آسانیاں ایجاد کرتا ہے اسے مسڑ کہاجاتا ہے؟ اور حالانکہ اسلام و قرآن غور و تحقیق کرنے پر سب سے زیادہ زور دیتا ہے اور اصل بات بھی یہی ہے کہ مولوی و مسڑ دونوں انسانیت کی اصلاح و خدمت کر رہے ہیں، مولوی دین کے علمی دریا سے موتی نکال کر عالم انسانیت کو مالا مال کر رہے ہیں، مسڑ بھی کچھ اس طرح کا کام کر ہے ہیں، دونوں کا مقصد ایک ہی ہے مگر رخ بدلے ہوئے ہیں؟

کیا ہم مولوی کو وہ عزت دے سکتے ہیں جو سائنسی علم رکھنے والے پروفیسر کو دی جاتی ہے یا پھر ایک مسڑ بابو جو عزت پاتا ہے وہی مولوی کو دے سکتے ہیں؟ ہم اس الجھن سے باہر نکلیں کہ مولوی صرف مسجد مصلے کا نام ہے، اور اس دوسری طرف مسڑ کو دنیاوی آدمی مانا جاتا ہے، ہمارے پاس ہزاروں مثالیں موجود ہیں جن میں ایک صحابی حضرت عبدالرحمن بن عوف (رضی اللہ تعالی عنہ)، جو کہ عشرہ مبشرہ یعنی کی ٹاپ دس صحابی ہونے کے باوجود دنیا کے لحاظ سے سب سے زیادہ مال دار، اور اچھے کاروباری تھے، امام ابو حنیفہ جو اسلامی علم کے لحاظ سے مولویوں کے امام مگر دنیاوی لحاظ سے بہت بڑے تاجر تھے۔

ہر دور میں ایسی شخصیات گزری ہیں جنہوں نے ملا و مسڑ کے نظام کو ختم کیا، بلکہ دین و دنیا دونوں کما کے دکھائے، اب وقت ہے کہ ہم اپنی سوچوں کی اصلاح کر لیں اور اپنی سمت کا تعین درست کر لیں، ان تفریقوں سے باہر آئیں، ایک مسلمان بنے اور اسلامی تعلیمات کو پورا کریں تاکہ ہماری آنے والی نسل اس بے راہ روی سے بچ سکے اور ہم انہیں ایک عظیم قوم بننے میں انکی مدد کر سکیں۔ کیونکر ہم ابھی تک ایک معاشرہ ہی نہیں بن پائے قوم کب تلک بنیں گے، ہماری حیثیت ابھی تلک ایک ہجوم کی ہے، حالانکہ ہم ایک کامیاب تاریخ رکھتے ہیں، ہمیں اک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا، ملا ومسڑ نہیں بلکہ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے کامیاب زندگی گزارنی ہوگی۔ چند اشعار قارئین کی نذر۔۔

ملا اونٹ پہ جائے ہمیں منظور مگر

ملا کار چلاے ہمیں منظور نہیں

وہ نمازیں پڑھائے ہمیں منظور مگر

ملا پارلیمنٹ میں آئے ہمیں منظور نہیں

اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو!

Check Also

21 Topon Ki Salami To Banti Hai

By Muhammad Waris Dinari