Taraqi o Khushhali Ka Raz
ترقی وخوشحالی کا راز
کہتے ہیں کسی باغ میں ایک کبوتر نے اپنا آشیانہ بنایا ہوا تھا، جس میں وہ دن بھر اپنے بچوں کو دانہ چگاتا، بچوں کے بال و پر نکل رہے تھے۔ ایک دن کبوتر دانہ چونچ میں دبائے باہر سے آیا تو سارے بچوں نے انہیں تشویش سے بتایا کہ اب ہمارے آشیانے کی بربادی کا وقت آ گیا ہے، آج باغ کا مالک اپنے بیٹے سے کہہ رہا تھا، "پھل توڑنے کا زمانہ آ گیا ہے، کل میں اپنے دوستوں کو ساتھ لاؤں گا اور ان سے پھل توڑنے کا کام لوں گا۔
خود میں اپنے بازو کی خرابی کی وجہ سے یہ کام نہ کر سکوں گا۔ "کبوتر نے اپنے بچوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔ " باغ کا مالک کل اپنے دوستوں کے ساتھ نہیں آئے گا، فکر کرنے کی کوئی بات نہیں۔ "اور حقیقتاً ایسا ہی ہوا، باغ کا مالک دوسرے روز اپنے دوستوں کے ہمراہ پھل توڑنے نہ آیا۔ کئی روز بعد باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ باغ میں آیا اور کہنے لگا۔ "میں اس دن پھل توڑنے نہ آ سکا کیونکہ میرے دوست وعدے کے باوجود نہ آئے لیکن میرے دوبارہ کہنے پر انہوں نے پکا وعدہ کیا ہے کہ کل وہ ضرور آئیں گے اور پھل توڑنے باغ میں جائیں گے۔ "
کبوتر نے یہ بات بچوں کی زبانی سن کر کہا۔ "گھبراؤ نہیں، باغ کا مالک اب بھی پھل توڑنے نہیں آئے گا۔ یہ کل بھی گزر جائے گی۔ " اسی طرح دوسرا روز بھی گزر گیا اور باغ کا مالک اور اس کے دوست باغ نہ آئے۔ آخر ایک روز باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ پھر باغ میں آیا اور بولا۔ "میرے دوست تو بس نام کے ہمدرد ہیں، ہر بار وعدہ کر کے بھی ٹال مٹول کرتے ہیں اور نہیں آتے۔ اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ان پر بھروسہ کرنے کی بجائے اپنا کام میں خود کروں گا اور کل باغ سے پھل توڑوں گا۔ "
کبوتر نے یہ بات سن کر پریشانی سے کہا۔ "بچوں، اب ہمیں اپنا ٹھکانہ کہیں اور تلاش کرنا چاہیے۔ باغ کا مالک کل یہاں ضرور آئے گا کیونکہ اس نے دوسروں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ 75 سال سے خود کچھ کرنے کی بجائے ہم دوسروں سے یہ امیدیں باندھ کر اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ وہ اس ملک میں کوئی ترقی اور خوشحالی لائیں گے لیکن باغ کے اس مالک کی طرح ہماری ترقی و خوشحالی والا وہ کل بھی نظر نہیں آ رہا۔
جب تک ہم دوسروں پر بھروسہ چھوڑ کر اپنے ہاتھوں سے کچھ نہیں کرتے تب تک اس ملک میں نہ تو کوئی ترقی آئے گی اور نہ ہی کوئی خوشحالی۔ ہم انتخابات میں روایتی اور عادتی چوروں، ڈاکوؤں اور لٹیروں کو ووٹ دے کر پھر اس انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں کہ اب ہم پر آسمان سے ضروریات و سہولیات کی بارشیں ہونگی لیکن یہ ہم بھول جاتے ہیں کہ دوسروں کے بھروسے پر رہنے والے اکثر لوگ پھر بھوکے ہی رہتے ہیں۔
زندگی میں آگے بڑھنے کے لئے کچھ نہیں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جو لوگ ہماری طرح دوسروں سے امیدیں باندھ کر بیٹھ اور لیٹ جاتے ہیں تاریخ گواہ ہے کہ ایسے لوگ پھر مچھروں کی طرح ہاتھ ملنے کے لئے بیٹھے ہی رہتے ہیں۔ بحیثیت قوم جب ہم خود اس ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے آگے آ کر کچھ نہیں کریں گے تب تک اس ملک اور ہمارا کچھ نہیں ہوگا۔
وعدوں، وعیدوں، دعوؤں اور نعروں سے اگر کچھ ہوتا تو اب تک ہمارا کچھ نہیں بہت کچھ ہو جاتا کیونکہ ایک، دو اور پانچ، دس نہیں 75 سال سے انہی وعدوں، وعیدوں، دعوؤں اور نعروں سے ہمارا واسطہ اور ناتا تو ہے۔ وہ کونسا لیڈر ہے جس نے ہمارے ساتھ وعدے نہیں کئے؟ وہ کونسا سیاستدان ہے جس نے دعوؤں اور نعروں سے ہمیں مالامال نہیں کیا؟
ہم نے ووٹ کے بدلے ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لئے جس لیڈر اور جس سیاستدان کے آگے بھی جھولی پھیلائی اس نے ہماری جھولیوں میں وعدوں، وعیدوں، دعوؤں اور نعروں کے انبار لگا دیئے۔ آج بھی ہمارے دامن میں حکمرانوں و سیاستدانوں کے نعروں، وعدوں اور دعوؤں کی کوئی کمی نہیں۔ باغ کا وہ مالک تو دو دن میں دوسروں پر بھروسے کا انجام اور کہانی سمجھ گیا مگر افسوس ہم 75 سال میں بھی اس حقیقت کو سمجھ نہیں سکے۔
دوسروں کے بھروسے پر اگر سارے کام ہوتے یا مسائل حل ہوتے تو آج ہماری یہ حالت کبھی نہ ہوتی۔ لوگ آج ملک کی اس بربادی اور مسائل کے ذمہ دار حکمرانوں اور سیاستدانوں کو قرار دے رہے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ حکمرانوں اور سیاستدانوں سے زیادہ ملک کی اس تباہی اور مسائل کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ ہم اگر ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسنے کے بعد بھی حکمرانوں اور سیاستدانوں سے ترقی، خوشحالی، انقلاب و فلاح کی امیدیں نہ باندھتے تو ایک کے بعد ایک کو اس طرح ہمارے جذبات اور خیالات سے کھیلنے کی جرات و ہمت نہ ہوتی۔
گھر کو آگ لگی گھر کے چراغ سے۔ اس ملک میں معیشت کی تباہی، کمر توڑ مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کی یہ جو آگ لگی ہے وہ گھرکے اپنے ہی چراغ سے لگی ہے۔ ہم لوگ اگر خود ٹھیک ہوتے تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا کہ ہمارا سامنا کبھی اس طرح نااہل اور ظالم حکمرانوں و سیاستدانوں سے ہوتا۔ ہم لوگوں نے جھوٹ، فریب، دھوکہ، کام چوری اور بے ایمانی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے۔
اپنے حصے کا کام ہم کرتے نہیں اور امیدیں یہ لگائے بیٹھے ہیں کہ پاکستان جنت بنے گا۔ معذرت کے ساتھ جھوٹ، فریب، دھوکہ، کام چوری اور بے ایمانی سے جنتیں نہیں بنا کرتیں۔ جنت بنانے یا پانے کے لئے سب سے پہلے اپنے ہاتھ پیر ہلانے پڑتے ہیں۔ جو ہماری طرح اس انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ عمران خان، مولانا فضل الرحمٰن، شہباز شریف یا بلاول ان کے لئے کوئی جنت اٹھا کر لائیں گے تو ان کی عمریں ہی پھر جنت کے انتظار میں گزر جاتی ہیں۔
75 سال تو گزر گئے، نادانوں نے اب بھی اگر آنکھیں نہ کھولیں تو باقی کے یہ ماہ و سال بھی اسی طرح انتظار میں ہی گزر جائیں گے لیکن ہاتھ پھر بھی کچھ نہیں آئے گا کیونکہ ہاتھ میں کچھ آنے کے لئے اس ہاتھ کو ہر حال میں ہلانا ہوگا۔ اس لئے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے انتظار میں بیٹھنے کی بجائے معاشرے کے ہر فرد اور شخص کو ملک کی ترقی اور قوم کی خوشحالی کے لئے آگے بڑھ کر خود ہی کوئی کردار ادا کرنا ہوگا۔
جب تک ہم سب مل کر اس ملک کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے لئے کچھ نہیں کرتے اس وقت تک ہمارے یہ شب و روز اور حالات کبھی تبدیل نہیں ہوں گے۔ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ضروری ہے کہ ہم بھی باغ کے اس مالک کی طرح دوسروں پر بھروسہ اور تکیہ کرنے کی بجائے یہ کہہ کر آگے بڑھیں کہ اس ملک کو ان مسائل اور حالات سے ہم خود ہی نکالیں گے۔
آپ یقین کریں جس دن ہم نے اس ملک کو اپنے زور پر آگے لیکر جانے کا تہیہ کر لیا اس دن اس کبوتر کی طرح کمزور معیشت، بے لگام مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کو اپنے ٹھکانے کہیں اور تلاش کرنے پڑیں گے کیونکہ اس کے بعد پھر اس ملک میں صرف ترقی و خوشحالی کا ہی راج ہوگا۔