Naye Intekhabat Masail Ka Hal Nahi
نئے انتخابات مسائل کا حل نہیں
کچھ لوگ نئے اور فوری انتخابات کو مسائل کا حل قرار دے رہے ہیں مگر معذرت کے ساتھ ایسا نہیں۔ کیونکہ ملک اس وقت جس کڑے امتحان اور عوام جس خوفناک قسم کے عذاب سے گزر رہے ہیں ایسے میں ملک کے اندر نئے اور فوری انتخابات یہ اس امتحان کو آزمائش اور عذاب کو دہرے عذاب میں تبدیل کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہوں گے۔ باشعور اور عقلمند لوگوں کے ہاں غالباً اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مارنا اسی کو کہا جاتا ہے۔
ملک میں اس وقت فوری انتخابات کا انعقاد ایسا ہے جیسے بندہ سی سی یو یا آئی سی یو میں داخل ہو اور اس کی شادی کے شادیانے بجائے جائیں۔ ویسے سی سی یو اور آئی سی یو میں داخل مریض کا پہلے علاج کرایا جاتا ہے اور پھر شادی۔ تبدیلی سرکار کے ہاتھوں ملک آئی سی یو اور سی سی یو میں پہنچ کر ہچکیوں پر ہچکیاں لے رہا ہے لیکن نادان کہتے ہیں کہ ملک میں نئے انتخابات کرائے جائیں۔ ملک اور قوم تو ابھی تک 2018 والے انتخابی غم سے باہر نہیں آ سکی ہے۔
کیا 2018 کو ہونے والے انتخابات سے اس ملک اور قوم کا کوئی بھلا ہوا؟ 2018 کو دیکھیں اور پھر ایک نظر اس نئے پاکستان اور اس میں رہنے والے ان پرانے عوام پر ڈالیں کہ چار سال پہلے ان کی کیا حالت تھی اور آج ان کے کیا حالات ہیں؟ 2018 میں ان نادانوں کی طرح جو لوگ انتخابات انتخابات کہہ کر نہیں تھکتے تھے اب وہی لوگ مچھروں کی طرح ہاتھ ملتے ہوئے کہتے ہیں کہ کاش چار سال پہلے ملک میں کوئی انتخابات نہ ہوتے۔ 2018 کے انتخابات ہی کی وجہ سے تو ملک اور قوم کا یہ حشر ہوا۔
نااہل حکمرانوں اور ناتجربہ کار سیاستدانوں کی وجہ سے ملک مسائل کی دلدل میں پھنس چکا ہے۔ معیشت تباہ اور خزانہ خالی ہے۔ مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے سوا ملک میں کوئی شئے ہے نہیں۔ ایسے میں سوچنے کی بات ہے کہ نئے انتخابات سے پھر مسائل کیسے حل ہونگے؟ کیا انتخابات انتخابات کہنے یا الیکشن کے نعرے لگانے سے انتخابات ہو جاتے ہیں۔ نہیں ہرگز نہیں۔ انتخابات پر ملک کا ستیاناس ہو جاتا ہے۔ انتخابی عمل پر اتنے اخراجات آتے ہیں کہ جس کا کوئی حساب نہیں ہوتا۔
اس وقت ملک میں لوگوں کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں۔ ہر چیز کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ ہر نیا آنے والا دن عوام کے لئے بھاری سے بھاری ثابت ہو رہا ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کا ایک مسلسل سلسلہ جاری ہے۔ ایسے میں پہلے ہی جو ملک معاشی تباہی اور بربادی کی وجہ سے ہچکیاں لے رہا ہو وہاں نئے انتخابات کسی خودکش حملے سے کم نہیں۔ موجودہ حالات میں انتخابات اگر ہوتے بھی ہیں تو کل کو اس کا زور اور شور پھر اسی ملک اور عوام سے ہی نکلے گا۔
انتخابات انتخابات کے نعرے لگانے اور سیاست سیاست کھیلنے والوں کا کیا؟ ان کے باپ دادا نے تو انہی نعروں اور اسی کھیل سے اتنا کچھ جمع کیا ہوا ہے کہ یہ کیا؟ ان کی آنے والی نسلیں بھی سو سال تک آرام سے بیٹھ کر اس پر عیش و عشرت سے زندگی گزار سکتی ہیں۔ ایسے حرام خوروں کے لئے تو انتخابات ایک دن کا کھیل ہے لیکن ان کے اس ایک دن کے کھیل کی وجہ سے عوام پر پھر کیا گزرتی ہے اس کا ان کو نہ اندازہ ہے اور نہ کوئی احساس۔
یہ تو ایک دن انتخابات کو انجوائے کر کے چلے جاتے ہیں لیکن پیچھے پھر ان کی اسی انجوائمنٹ کی قیمت غریبوں کو ساری زندگی مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کی صورت میں چکانی پڑتی ہے۔ 2018 کے انتخابات کو بھی کسی نے انجوائے کیا تھا لیکن غریب عوام آج بھی اس کی قیمت چکا رہی ہے۔ دوسری بات یہ تو بیگانوں کے ساتھ اب اپنے بھی چپکے چپکے کہہ رہے ہیں کہ عوام کو قبر کے اس کنارے تک پہنچانے میں بڑا ہاتھ اور کردار 2018 کو نمودار ہونے والوں کا ہے۔
اللہ نہ کرے اگر نئے انتخابات میں بھی پھر کہیں سے اسی طرح کے کوئی نااہل اور بےحس نمودار ہو کر عوام کے ان ناتواں کندھوں پر پھر سے سوار ہو گئے تو پھر کیا ہوگا؟ مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے ہاتھوں بھوک سے بلکنے، رلنے اور تڑپنے والی عوام اس بوجھ کو کیا پھر ایک دن کے لئے بھی برداشت کر لیں گے؟ کوئی مانے یا نہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ملک اور مٹی پر رہنے والی اللہ کی مخلوق اس وقت مشکل بہت مشکل سے زندگی گزار رہی ہے۔
2018 کے بعد اس ملک میں مہنگائی کا جو طوفان آیا ہے وہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ آٹا جس پر غریب جی رہے ہیں کسی دور میں وہ چار ساڑھے چار سو کا توڑا ملتا تھا آج اس بیس کلو آٹے کی قیمت پچیس چھبیس سو روپے تک پہنچ چکی ہے۔ گھی، چینی، دال، چاول، پیاز اور ٹماٹر وہ بھی اب غریبوں کی پہنچ سے دور ہیں۔ بجلی اور گیس کے بھاری بلوں کے خودکش حملے وہ تو الگ ہیں۔ ان حالات میں اس ملک کے اندر کوئی انتخابات جیسے کھیل اور تماشے کی حمایت کیسے کر سکتا ہے؟
یہ صرف انتخابات انتخابات کے نعرے لگانے والے ان نمونوں اور عجوبوں کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو پتہ ہے کہ انتخابات پر آنے والے اخراجات پھر غریبوں سے ہی نکلنے ہیں۔ موجودہ حالات میں غریب جو بوجھ اٹھا رہے ہیں وہ بھی ان پر زیادہ حد سے زیادہ ہے۔ ایسے میں انسانیت کا دکھ اور درد رکھنے والا کوئی بھی انسان اس بوجھ میں ذرہ بھی اضافے کی کوئی حمایت نہیں کر سکتا۔ جو لوگ پہلے ہی مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے بوجھ تلے دبے ہوں آخر سوچنے کی بات ہے ان پر مزید بوجھ کیسے ڈالا جا سکتا ہے؟
جو لوگ اس وقت ملک میں نئے اور فوری انتخابات کے نعرے لگا رہے ہیں، مطالبے کر رہے ہیں اور پراپیگنڈہ مہم چلا رہے ہیں ان لوگوں اور ان کے آقاؤں کا اس ملک اور یہاں کے عوام سے کوئی تعلق نہیں۔ موجودہ حالات میں انتخابات کے نعرے وہی لوگ لگائیں گے جو ملک اور قوم پر اقتدار، کرسی اور سیاست کو ترجیح دیتے ہیں ورنہ محب وطن، باشعور اور درد دل رکھنے والے لوگ ان حالات میں انتخابی دنگل کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ گھوڑوں اور بیلوں کی لڑائی و دوڑ کا شوق وہی لوگ رکھتے ہیں جنہیں کوئی غم اور فکر نہ ہو۔ جن کے دل میں لاکھوں نہیں کروڑوں غریبوں کی بھوک، افلاس اور فاقوں کی فکر اور خیال ہو وہ پھر اپنے دلوں میں گھوڑوں اور بیلوں کی لڑائی و دوڑ کا شوق نہیں پال سکتے۔
ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں اور اب بھی کہتے ہیں کہ اس ملک اور قوم کا مسئلہ نئے اور فوری انتخابات نہیں بلکہ اس ملک کا مسئلہ کامیاب معیشت اور قوم کا غم دو وقت کی روٹی ہے۔ اقتدار اور کرسی پر شہباز شریف بیٹھیں، زرداری، مولانا یا پھر عمران خان اس سے عوام کا کوئی سروکار نہیں۔ عوام کو تو بس زندہ رہنے کے لئے روٹی چاہئیے اور وہی روٹی اس وقت عوام سے دور بہت دور ہے اور مزید کسی ڈرامے، ہنگامے یا انتخابی معرکے سے یہ اور بھی دور ہوگی۔ اس لئے نئے انتخابات کسی بھی طور پر اس مسئلے یا مسائل کا حل نہیں۔