Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Umar Khan Jozvi/
  4. Gumrahi Ke Bare Raste, Ulma Aage Ayen

Gumrahi Ke Bare Raste, Ulma Aage Ayen

گمراہی کے بڑےراستے، علماء آگے آئیں

اپنوں سے تو ہم دور ہو چکے ہیں اب آہستہ آہستہ ہم دین سے بھی دور ہوتے جا رہے ہیں۔ آج ہمارے ایک، دو نہیں اکثر طور طریقے اسلامی تعلیمات اور خدائی احکامات سے بھی بالکل متصادم ہیں لیکن پھر بھی ہم انہیں ایسے سر انجام دے رہے ہیں کہ جیسے یہ کوئی فرض یا واجب ہوں۔ پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا۔ معلوم نہیں اب ہمیں کیا ہوگیا ہے؟ کہ ہم اس قدر سر پھرے ہو گئے ہیں۔

پہلے تو ماتم والے گھر مٹن، چکن اور بریانی پر اس طرح دانت گرم نہیں کئے جاتے تھے پتہ نہیں ہماری بھوک بڑھ گئی ہے یا پھر ہم انسانیت سے عاری و خالی ہو گئے ہیں۔ ان ہی گاؤں اور دیہات میں یہ ماتم تو پہلے بھی ہوتے تھے لیکن ماتم والے گھر، گاؤں اور دیہات میں شادی والے یہ مناظر تو پہلے کبھی نہ تھے۔ پہلے جس گھر میں ماتم ہوتا تھا اس گھر میں پھر رونے، دھونے، چیخنے اور چلانے کے سوا کوئی دوسرا کام ہی نہیں ہوتا تھا لیکن اب؟

آج دعوت کس کی ہے؟ کھانے میں انہوں نے کیا پکایا ہے؟ بریانی کہاں ہے؟ ساتھ روسٹ اور کباب ہے کہ نہیں؟ فروٹ اور کوک کی بوتلیں کدھر ہیں؟ واللہ ماتم والے گھروں میں یہ حرکتیں دیکھ کر دل پھٹنے لگتا ہے۔ پیٹ کو سر پر رکھ کر پھرنے والوں کو کیا اس چیز کا بھی کوئی احساس نہیں کہ ماتم والے گھر کسی ماں، کسی بہن، کسی بیٹی، کسی باپ، کسی بھائی اور کسی شوہر کا انتقال ہوگیا ہے۔

کیا؟ جس کی ماں، بہن، بیٹی، شوہر، باپ یا کوئی بھائی فوت ہوا ہو ان کے خلق سے روٹی کا ایک نوالہ بھی پھر نیچے اترتا ہے؟ جن کے منہ میں خون ہی خون اور آنکھوں میں آنسو ہی آنسو ہوں ان کو کیا روٹی کی کوئی پرواہ ہوتی ہے؟ جن کے غم، دکھ اور درد کی خاطر ماتم والے گھر آگ و چولہا جلانے سے منع کیا گیا ان کے غم، دکھ اور درد کی تو کسی کو کوئی فکر اور پرواہ نہیں ہوتی لیکن اپنے پیٹ کے جہنم کو بھرنے کے لئے ہر کوئی سرگرداں رہتا ہے۔

جنازے، کفن دفن کا اتنا خیال نہیں ہوتا جتنی دیگ اور ہانڈیوں پر نظریں ہوتی ہیں۔ کسی نے ٹھیک ہی تو کہا کہ آج کے دور میں ماتم والے گھر سے میت کندھوں پہ بعد میں اٹھتی ہے دیگ میں چمچے پہلے کھڑک جاتے ہیں۔ لواحقین کی دھاڑیں کم نہیں ہوتیں کہ "مصالحہ پھڑا اوئے" کی صدائیں بلند ہو جاتی ہیں۔ غم و الم میں ڈوبنے والوں کی آنکھوں میں آنسو خشک نہیں ہو پاتے کہ عزیز و اقارب کے لہجے یہ کہتے ہوئے کہ چاولوں میں بوٹیاں بہت کم ہیں پہلے ہی خشک ہو جاتے ہیں۔

قبر پر پھول سجتے نہیں کہ کھانے کے برتن سج جاتے ہیں۔ فلاں نے روٹی دی تھی تو کیا غریب تھے جو دو کلو گوشت اور ڈال دیتے۔ "مرنے والا تو چلا جاتا ہے لیکن یہ کیسا رواج ہے کہ جنازہ پڑھنے کے لئے آنے والے اس کی یاد میں بوٹیوں کو چَک مارتے دیگی کھانے کی لذت کے منتظر ہوتے ہیں؟ یہ کیا طریقہ ہے کہ جنازے پر بھی جاؤ تو "روٹی کھا کے آنا؟" قرب و جوار کی تو بات ہی نہ کریں۔ دور سے آئے ہوؤں کو بھی چاہیے کہ زیادہ بھوک لگی ہے تو کسی ہوٹل سے کھا لیا کریں۔

ماتم والے گھر جانے والے جنازے پر جاتے ہیں کسی شادی یا ختم و خیرات پر نہیں کہ انہیں وہاں مٹن، چکن اور بریانی سے لازمی اپنے دانتوں کو گرم کرنا پڑے گا۔ پہلے زمانے میں مرنے والے لواحقین کو چپکے سے کسی قریبی گھر میں لے جا کر زور زبردستی انہیں کھانا کھلا دیا جاتا تھا لیکن اب؟ میت اٹھتے ہی اسی ماتم والے گھر میں دسترخوان بچھا کر یہ اعلان کر دیا جاتا ہے کہ جس جس نے کھانا نہیں کھایا وہ دسترخوان پر آ جائیں۔

یہ کونسا طریقہ اور کہاں کی انسانیت ہے کہ سامنے مرنے والے کے لواحقین غم و الم کی چادر اوڑھے آنسو پونجھ رہے ہوتے ہیں اور پاس ان کے دکھ، درد اور غم کو بانٹنے کے لئے آنے والے مٹن، چکن، بریانی، روسٹ، کباب، گرم و ٹھنڈا سے کھیل رہے ہوتے ہیں۔ ماتم والے گھروں میں دعوتی کھانوں کے ذریعے اپنے جہنم بھرنے والوں نے کیا یہ کبھی سوچا ہے کہ دکھ، درد اور غم کے دریا میں سر سے پاؤں تک ڈوبے مرنے والے کے جن لواحقین کے سامنے یہ روسٹ، کباب اور فروٹ سے کھیل رہے ہیں ان کے اس کھیل کو دیکھ کر ان لواحقین پر اس وقت کیا گزر رہی ہوگی؟

مانا کہ کھانا پینا ایک انسانی ضرورت ہے۔ یہ بھی مانا کہ اس کے بغیر کوئی چارہ اور سہارا نہیں لیکن یہ کونسی انسانیت ہے کہ سامنے ایک شخص اپنی ماں، باپ، بہن، بیوی، شوہر، بیٹی اور بھائی کے غم میں خون کے آنسو بہا رہا ہو اور آپ اس کے سامنے مٹن، چکن اور بوٹیوں سے کھیلیں۔ یہ کھانا تو اپنے گھر میں بھی کھایا جا سکتا ہے، کسی رشتہ دار کے گھر بھی تو اپنے اس جہنم کو بھرا جا سکتا ہے۔

کیا ماتم والے گھر یا مرنے والے کے لواحقین کے سامنے پیٹ بھر کر کھانا یہ کوئی فرض یا قرض ہے؟ اگر فرض ہے تو پھر آپ ایک نہیں ہزار بار کھائیں لیکن اگر کوئی قرض ہے تو خدارا آج سے اس قرض کو معاف کر دیں۔ یہ نہ کوئی اسلام ہے اور نہ ہی کوئی انسانیت۔ آپ اگر کسی کے غم کو ہلکا نہیں کر سکتے تو خدا کے لئے اس غم کو بھاری بنانے کا باعث بھی نہ بنیں۔

شہر ہوں، گاؤں یا دیہات۔ ماتم پر اب ہم نے یہ جو طور طریقے پکڑے ہیں یہ کسی بھی طور پر ہمارے شایان شان نہیں۔ ہم نہ صرف انسان بلکہ مسلمان بھی ہیں اور مسلمان کا کام کسی کے زخموں پر نمک چھڑکنا نہیں بلکہ ان زخموں پر مرہم رکھنا ہوتا ہے۔ ماتم والے گھر دسترخوان بچھا کر اس پر ہزار قسم کے کھانے سجانا یہ غم بانٹنا نہیں، کسی کے دکھ، درد اور غم میں شریک ہونا یہ ہے کہ آپ اس کو نہ صرف گلے بلکہ دل سے لگائیں، اس کے غم کو اپنے دل میں ایسا محسوس کریں کہ جیسے اس کا نہیں آپ کا کوئی بچھڑ گیا ہو۔

آپ گھنٹوں تک بوٹیوں سے کھیلنے کی بجائے پانچ دس منٹ کے لئے اگر اس کے پاس بیٹھ کر اس کے غم میں شریک ہو جائیں تو اس سے نہ صرف ان کا غم کچھ ہلکا ہوگا بلکہ آپ کو اس کا اجر و ثواب بھی ملے گا۔ پہلے یہ ساری باتیں علمائے کرام بتایا کرتے تھے۔ گاؤں و دیہات کا تو نظام ہی مولوی صاحب کے مشوروں اور اشاروں پر چلتا تھا لیکن اب لگتا ہے کہ ہمارے علمائے کرام کے مشورے اور اشارے بھی کہیں صرف نماز اور روزوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں ورنہ گاؤں اور دیہات کا کم از کم یہ حال تو نہ ہوتا۔

رسم و رواج یہ کوئی سنت ہے اور نہ کوئی فرض۔ پھر رسم پر رسموں کو جنم دینا یہ تو گناہ سے بھی بڑا گناہ ہے۔ جو بھی چیز اسلامی تعلیمات اور خدائی احکامات سے متصادم ہوں چاہے وہ کوئی رسم و رواج ہی کیوں نہ ہو اسے چھوڑنا مسلمانوں پر فرض ہے۔ اس سے پہلے کہ ہمارا معاشرتی نظام ہی ان فضول قسم کی رسم و رواجوں کی لپیٹ میں آ جائے ہمیں ابھی سے ان کے خاتمے کے لئے آگے بڑھنا ہوگا۔

اس سلسلے میں سب سے پہلی ذمہ داری ہمارے علمائے کرام، آئمہ مساجد اور خطباء کی بنتی ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات و احکامات کے مطابق عوام میں شعور پیدا کر کے معاشرے کو اس طرح کی فضول رسموں اور رواج سے پاک کرنے کے لئے اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔ جو کام گاؤں اور دیہات کا ایک امام اور خطیب صاحب کر سکتا ہے وہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ معاشرے کے سدھارنے میں ایک مولوی کا جو کردار ہے وہ کسی اور کا نہیں ہو سکتا۔

ہمارے علمائے کرام اگر آنکھیں بند کر کے مساجد کے کونوں میں صرف اللہ اللہ کر کے بیٹھیں گے تو پھر اس ملک اور معاشرے کو اس قسم کی فضول رسموں اور خود ساختہ رواجوں سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ اس لئے عوام کو دنیا و آخرت دونوں کی تباہی اور بربادی سے بچانے کے لئے ہمارے علماء کو آگے آنا ہوگا تاکہ معاشرے کو اس طرح کی حرکتوں، رسم، رواج سے پاک کیا جا سکے۔

Check Also

Gilgit Baltistan Mein Siyasi o Samaji Aloodgiyan

By Amirjan Haqqani