Gham o Alam, Dukh Aur Dard Ki Aik Kahani
غم والم، دکھ اوردردکی ایک کہانی
بیٹے کے سر پر شادی کا سہرا اور باپ کے سر پر غم و الم کے بے رحم پہاڑ، واللہ جب سے باپ بیٹے کی وہ تصویر دیکھی ہے تب سے دل اداس، وجود بھاری بھاری اور آنکھیں نم سے نم تر ہیں۔ یہ کہانی اتنی درد ناک اور غمناک ہے کہ پڑھ اور سن کر انسان آنسوؤں پر قابو نہیں پا سکتا۔ عین جوانی میں شادی کے پہلے سال جب خوشیوں کو سمیٹنے اور زندگی سے لطف اٹھانے کا وقت اور نیا سفر شروع ہوا، اچانک ایک حادثے میں اس کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی جس کے بعد جوان زندگی پھر ایک ہی آنکھ پر آگے بڑھنے لگی۔
ایک آنکھ ضائع ہونے کی معذوری کو انہوں نے مجبوری کا جامہ تو نہیں پہنایا لیکن سچ میں وہ قدم قدم پر مجبور بھی رہے اور معذور بھی۔ اس حال میں بھی وہ بیوی بچوں کی خاطر ایک ہی آنکھ سے کئی سال تک گاؤں سے کوسوں دور کراچی میں محنت مزدوری کرتے رہے۔ آنکھ ضائع ہونے کا غم اور زخم دامن میں ہی تھا کہ اوپر سے بڑی بیٹی کی اچانک جدائی کا بھاری غم بھی دامن میں غم کا پہاڑ بن کر آن گرا۔
اولاد کی جدائی کا غم یہ تو مضبوط سے مضبوط انسان کو بھی جیتے جی مار دیتا ہے پھر جو انسان پہلے ہی اپنی ایک آنکھ کی جدائی کا غم دامن میں لئے پھرتا ہو اس پر وہ شب و روز اور وہ وقت کیسے گزرا ہو گا؟ یہ سوچتے ہوئے بھی کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔ ایک آنکھ سے محرومی اور پیاری بیٹی کی جدائی کا بھاری غم سہنے کے بعد بھی وہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کی خاطر جینے کی کوششوں میں مصروف رہے۔
کراچی کے بعد ہری پور اور دیگر شہروں میں محنت مزدوری کر کے وہ کسی نہ کسی طریقے سے گھر کا نظام چلاتے رہے۔ بیٹی والے صدمے سے وہ ابھی باہر نہیں نکلے تھے کہ اچانک اسے ایک اور قیامت سے گزرنا پڑا۔ بڑا بیٹا ابھی محنت مزدوری کے قابل نہیں تھا، گھر کا نظام اس کی ہی دیہاڑی اور مزدوری سے ہی چل رہا تھا کہ ایک دن اس کو اچانک پیٹ میں درد اور سخت تکلیف شروع ہوئی، قریبی شہر میں ڈاکٹر سے چیک اپ کروایا تو ڈاکٹر نے ایبٹ آباد میں ایک بڑے ڈاکٹر کے پاس ریفر کر دیا۔
وہاں پہنچ کر اس پر غم کا ایک اور پہاڑ اس وقت گرا جب ڈاکٹر نے کہا کہ آپ کے ایک گردے پر کوئی دانہ ہے اس گردے کو نکالنا پڑے گا۔ ایک آنکھ کی طرح اس کا دوسرا گردہ بھی پھر نہ رہا۔ ڈاکٹروں نے طویل آپریشن کر کے اس کا ایک گردہ نکال دیا۔ یوں ایک آنکھ کے بعد وہ ایک گردے سے بھی محروم ہو گئے، پھر زندگی ایک آنکھ کے ساتھ ایک ہی گردے پر چلنے لگی۔
جو جمع پونجی تھی وہ علاج پر خرچ ہو گئی، زندگی کی گاڑی آگے بڑھانے کے لئے جب قرضوں کا بوجھ بھاری اور گھر میں فاقوں نے ڈیرے ڈال لئے تو نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے مجبوری کے ہاتھوں بڑے بیٹے کو سکول سے اٹھا کر کام پر لگا دیا۔ کل کے اس بچے کے کام کرنے سے لوگوں کا قرض تو نہیں اترا البتہ گھر کا نظام اور زندگی کی گاڑی آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی، گردے کے آپریشن کو دو سال ابھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ ایک دن اچانک اس کی طبیعت پھر خراب ہو گئی۔
گاؤں میں دستیاب طبی علاج اور ادویات سے جب کوئی خاص فرق نہیں پڑا تو وہ دو تین دن بعد بڑے ڈاکٹر سے چیک اپ کے لئے شہر تشریف لے گئے، جہاں کچھ ضروری ٹیسٹ کرنے کے بعد ڈاکٹر نے اسے ایک اور ڈاکٹر کی طرف ریفر کر دیا جس نے فائل اور ٹیسٹ دیکھنے کے بعد مزید کچھ ٹیسٹ کئے اور پھر اسے ایک ایسے پیچیدہ اور موذی مرض کے بارے میں آگاہ کیا جس مرض اور بیماری سے ہر انسان پناہ مانگتا ہے۔
اپنے جسم اور جگر میں اس موذی مرض کا سن کر اس کے پاؤں کے نیچے سے گویا زمین سرک گئی۔ وہ کہتے ہیں جب ڈاکٹر نے اس بیماری کا بتایا اس کے بعد نہیں پتہ کہ میں شہر سے گاؤں تک کس راستے اور کس حال میں واپس پہنچا ہوں۔ کینسر کا نام سن کر اس وقت اس پر کیا گزری ہو گی یا اب کیا گزر رہی ہو گی؟ یہ سوچتے ہوئے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
یہ کہانی بٹگرام میں میرے آبائی علاقے جوز، ڈھیری سے تعلق رکھنے والے بدقسمت خیال محمد کی ہے جو ایک آنکھ اور ایک گردے کے سہارے آج ایک مرتبہ پھر خالی ہاتھ اور خالی جیب زندگی کی بقاء کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔ خیال محمد کے جگر و جسم میں ڈاکٹروں نے جس خوفناک بیماری کی تشخیص کی ہے اس کے علاج پر لاکھوں کے حساب سے اخراجات آئیں گے۔
جس گھر میں بچوں کے کھانے کے لئے کچھ نہ ہو اس گھر کا مکین ایک موذی مرض کے علاج کے لئے لاکھوں کے اخراجات کہاں سے اٹھائے گا یا لائے گا؟ راولپنڈی میں ڈاکٹروں نے جب اس مرض کے طویل علاج اور لاکھوں کے اخراجات کا ذکر کیا تو خیال محمد کی آنکھوں سے جیسے آنسوؤں کا کوئی سمندر جاری ہوا ہو۔ پنڈی سے وہ پھر کس طرح اور کس حال میں واپس گاؤں پہنچے یہ اللہ ہی جانتا ہے۔
کچھ دن پہلے ایک رشتہ دار نے بتایا کہ اس نے بیٹے کی شادی کر دی ہے وہ بھی دو، تین دن کے اندر۔ خیال محمد نے پنڈی سے واپسی پر شائد سوچا ہو گا کہ غربت کے اس سائے میں علاج تو نہیں ہو رہا چلو بیٹے کی شادی کا ارمان ہی پورا کرا دیتا ہوں۔ یوں راتوں رات اس نے بغیر کسی ڈول باجے، بھنگڑے اور پٹاخے کے بیٹے کی شادی والا ارمان پورا کر ہی لیا۔ گاؤں سے میرے اسی رشتہ دار نے مجھے شادی والی ایک تصویر بھیجی ہے۔
تصویر کیا ہے؟ دکھ، درد، رنج، افسوس، غم و الم کی ایک پوری کہانی۔ بیٹے کے سر پر سہرا تو ہے پر آنکھوں میں شادی کی خوشی اور چہرے پر مسکراہٹ نام کی کوئی چیز نہیں جبکہ باپ اپنے بیٹے کی شادی اور اپنا ایک خواب و ارمان پورا ہونے پر بھی آنکھوں میں بے بسی، دکھ، درد اور غم کے آنسو لئے گھر کے ایک کونے میں رضائی اوڑھے بیٹھے دکھائی دے رہے ہیں۔
جوانی میں آنکھ ضائع ہو گئی لیکن خیال محمد نے ہمت نہیں ہاری۔ ڈاکٹروں نے ایک گردہ نکال دیا وہ پھر بھی زندگی سے مایوس نہیں ہوئے لیکن اس تصویر میں دکھ، درد، غم و الم کی چھپی یہ کہانی بتا رہی ہے کہ علاج پر بھاری اخراجات کے خوف، سوچ اور فکر نے اب کہیں خیال محمد کو زندگی سے مایوس کر دیا ہے۔ مانا کہ خیال محمد کے پاس اس وقت علاج کے لئے کچھ نہیں لیکن اس زمین، اس مٹی اور اس دھرتی پر ملک ریاض حسین جیسے خدا ترس اور درد دل رکھنے والے لوگ تو ہیں جو ایک عرصے سے انسانیت کی خدمت و فلاح میں مصروف ہیں۔
بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض حسین اس وقت ملک کے کئی شہروں میں نہ صرف بحریہ دستر خوان کے ذریعے غریبوں، مسکینوں اور فقیروں کی بھوک مٹا رہے ہیں بلکہ وہ ساتھ میں غریب، بے بس، لاچار اور مجبور مریضوں کا اپنے خرچ پر مہنگے مہنگے ہسپتالوں سے علاج بھی کروا رہے ہیں۔ اس کالم کے ذریعے میری ملک ریاض حسین سے استدعا ہے کہ وہ ایک انسان کی جان بچانے کے لئے آگے آئیں۔ ایک انسان کو بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے۔
مجھے امید ہے نیکی کے اس کام میں ملک ریاض حسین پیچھے نہیں رہیں گے۔ اس کے ساتھ بٹگرام کی مٹی سے تعلق رکھنے والے فرزند بٹگرام فیاض محمد جمال خان، فکر انسانیت کے چیئرمین ڈاکٹر فیاض پنچگل اور دیگر صاحب ثروت و مخیر حضرات سے ہمدردانہ گزارش ہے کہ وہ خیال محمد کے غریب خاندان کو مشکل کی اس گھڑی میں سہارا دینے کے لئے آگے آئیں تاکہ دکھ، درد، غم و الم کے سائے تلے زندگی گزارنے والے بدقسمت خیال محمد کی کچھ تو دلجوئی ہو سکے۔ خیال محمد سے 2633571-0300 نمبر پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔