Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Tanvir Sajeel
  4. Stress Ki Karastaniya

Stress Ki Karastaniya

سٹریس کی کارستانیاں

یہ ضروری نہیں کہ لائف کے ہر سٹریس کو مینیج کیا جائے مگر یہ بہت ضروری ہے کہ ایسے سٹریسز کو ایکٹولی اور پریکٹیکلی ڈیل کیا جائے جو ہر وقت ذہن پر سوار ہوں۔

سٹریس اور فوڈ ایک ایسی ناگزیر ضرورت بن گئی ہیں کہ اگر آپ نا بھی چاہتے ہوں تو پھر بھی کھانا ہی پڑتا ہے جیسا کہ کسی سے باندھی ہوئی امید کا پورا نہ ہونا، ٹریفک جام میں پھنس جانا، سیل فون کا غلط پیٹرن لگنے سے آن نہ ہونا، کسی کو ٹیکسٹ ٹائپ کرتے اچانک کال کا آجانا روز مرہ کے ایسے بن بلائے سٹریسز ہیں جن کو ذہن میں داخل ہونے سے روکنا نا ممکن ہو جاتا ہے اور اکثر یہ سٹریسز ایک ایسی صورتحال پیدا کرتے ہیں جس سے وقتی طور پر ہم غلط انداز میں نپٹنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس غلط کوشش سے غلط نتائج برآمد ہونے کی وجہ سے اپنا جذباتی کنٹرول کھو دیتے ہیں۔

اب ذرا اک لمحے کے لیے سوچئے کہ اگر کوئی ایسے سٹریسز خواہ وہ کتنے ہی چھوٹے ہوں مگر وہ مسلسل ذہن پر سوار ہوں اور ان کی وجہ سے آپ ایک ایسی جذباتی گاڑی میں سوار ہوں جس کا کنٹرول آپ کے پاس نہ ہو تو وہ گاڑی بے قابو ہو کر ہر کسی سے ٹکراتی ہوئی آپ کا کس قدر ڈیمیج کر سکتی ہے اور ایسے خوفناک ایکسیڈنٹ بھی کروا سکتی ہے جس سے جان کا جانا یا رشتوں ناتوں کا اپاہج ہو جانا بھی ممکن ہو سکتا ہے۔

ریسرچز کے مطابق مسلسل سٹریس کی حالت میں رہنے سے ہمارے مائنڈ کے پیٹرن ایک نارمل طرز سے ہٹ کر ایسےابنارمل طرز کے ہو جاتے ہیں جو ہمارے حواس کا کنٹرول ختم کر دیتے ہیں اور حواس کی معطلی کا سبب بنتی ہیں جس سے یہ اندیشہ بڑھ جاتا ہے کہ یہ حواس باختگی کی صورتحال ایسی کسی سائیکالوجیکل بیماری میں مبتلا کر دیں جو ہم کو واقعی ابنارمل بنا دیں۔

اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان سٹریسز کے دباؤ میں آ کر ہم ایسے نیگیٹو ایکشن پیٹرن کرنے لگ جاتے ہیں جو ہم کو کسی خطرناک رویے یا عمل کی طرف نہ صرف راغب کر تے بلکہ ان کو کرنے سے ہم تسکین محسوس بھی کرتے ہیں جبکہ ایسے خطرناک رویے جرائم کی راہ ہموار کرتے ہیں۔

کسی بھی سیریل کلر سے لیکر عام سائیکالوجیکل بیماری میں مبتلا افراد کے ڈیٹا پر ایک تحقیقانہ نظر کریں تو یہ بات پورے وثوق سے حقیقت کے طور پر سامنے آ کھڑی ہو گی کہ ایسے افراد صرف اس وجہ سے جرائم کا ارتکاب کر پائے کہ ان کے برین میں اس سائیکالوجیکل بیماری کی وجہ سے ایسی کیمیکل تبدیلی ہوئی جس کی وجہ سے وہ ایک نارمل اور ابنارمل صورتحال میں تمیز کرنے سے لابلد ہو گئے تھے جبکہ اس پیٹرن کو ہوا دینے اور تقویت بخشنے میں صرف وقتی سٹریس ہی مددگار ثابت ہوا تھا۔

اس لیے ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ کسی بھی معمولی سے معمولی سٹریس کو کبھی معمولی سمجھ کر اس کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے بلکہ جب بھی ایسے کسی سٹریس کا سامنا کرنا معمول بن جائے جیسا کہ اکثر ہوتا ہے گھروں میں، ورک پلیس پر، سماجی رابطوں میں ہوتا ہے تو اس سٹریس کو پروفیشنل کے سامنے رکھ کر اس کا تجزیہ کرنا اور اس سے نپٹنے کے مضبوط لائحہ عمل بنانے پر خاص توجہ دینا ہی ذہنی اور جسمانی صحت مندی کی طرف پیش قدمی ہو سکتی ہے۔

اگر سٹریس سے ہر بار بے اعتنائی برتنے کی کوشش کریں گے تو اس کا پہلا حملہ جسمانی ہو سکتا ہے جو بہت سے سنجیدہ قسم کے میڈیکل ایشوز کی صورت میں سامنے آسکتا ہے جیسا کہ تحقیقات ہماری رہنمائی کرتی ہیں کہ زیادہ تر کارڈیک ایشوز، برین ہیمرج، فالج کے حملے، شوگر، بلڈ پریشر، ذیابطیس اور سانس کی بیماریوں کی بنیادی اور اولین وجہ سٹریس اور پریشر ہوتے ہیں۔

دراصل ہماری باڈی میڈیکل میکانزم ایک خاص لیول تک کا سٹریس قبول کر سکتا ہے مگر ایک مسلسل اور انتہائی سٹریس کے لیول کے سامنے بے بس ہوجاتا ہے اور جب سٹریس کے یہ مجموعی حملے بار بار ایک خاص لیول سے زیادہ شدت کے ساتھ ہوتے ہیں تو پھر انسانی جسم کا اندرونی مدافعتی نظام اس کو روک نہیں پاتا جس کے نتیجے میں اندرونی جسمانی معاملات ایک عجیب رد عمل کے طور پر کسی خاص عضو یا جسم کے نظام کی قربانی دے کر باقی نظام کو بچانے کی کوشش میں ہم کو موت کے منہ تک بھی لے جاتا ہے۔

سٹریس کی یہ حیران کن معرکہ آرائی دراصل آج کے جدید دور کی پیداوار نہیں ہے البتہ جدت زمانہ نے اس کو بہت زیادہ اور عام دستیاب کر دیا ہے سٹریس کی یہ وافر دستیابی کسی نہ کسی طور پر ہمارے جسم و جان پر اپنے زہریلے اثرات مرتب کرتی رہتی ہے جس سے بچنا ذرامحال ہے مگر پھر بھی سٹریس سے محفوظ رہنے کے لیے اس بات کی آگاہی ہونا ضروری ہے کہ سٹریس کیسے کاروائی ڈالتا ہے اور آیا ہم سٹریس کو سٹریس سمجھ بھی پارہے ہیں یا نہیں کیونکہ اکثر لوگ سٹریس کو سٹریس سمجھتے بھی نہیں مگر ان کے سمجھنے یا نہ سمجھنے سے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سٹریس ان پراپنے اثرات نہیں ڈالے گا۔

سٹریس کو ڈیل کرنے کے بہت سے ایسے فزیکل اور مینٹل ٹولز ہیں جن کو روٹین کا پارٹ بناکر ہم ڈیلی ڈی ٹاکسنگ کے عمل سے اپنے مائنڈ اور باڈی کو صحت مند رکھنے کے ساتھ ساتھ زندگی میں توانائی اور خوشی کو بحال رکھ سکتے ہیں ان ٹولز کوسیکھنے کے لئے گوگل، یوٹیوب اور پروفیشنل گائیڈنس آپ کی مدد کرسکتے ہیں اور زندگی کے معاملات کو سیلف کنٹرول کے ساتھ ہینڈل کرنے میں خود کی ہیلپ کرسکتے ہیں۔

Check Also

Platon Ki Siasat Mein Ghira Press Club

By Syed Badar Saeed