Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Tanvir Sajeel
  4. Necrophilia

Necrophilia

نیکرو فیلیا

آپ لکھاری ہیں اور آپ کسی بھی واقعہ پر طبع آزمائی کو اپنا پیدائشی حق مانتے ہیں اور جیسے ہی کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جو مذہبی شدت پسندی، سیاسی شرانگیزی یا کسی انوکھے جنسی رجحان سے لبریز ہو تو آپ کا زور قلم ایک ہیجانی جست بھرنے کو بےچین ہو جاۓ تو سمجھ لیجئے کہ آپ لکھاری سے زیادہ مداری کا روپ لے چکے ہیں۔

جس کو ایسا کوئی بھی موضوع مل جاۓ جو سوشل میڈیا کا منظور نظر ہو چکا ہو اور اس کی تابکاری سے ہر کم علم اور لاعلم اپنی ذہنی تباہی کا ثبوت دیتے ہوۓ اس موضوع کے تانے بانے اپنی ذاتی سوچ سے بن رہا ہو اور موضوع یا واقعے کے بارے ذرا علم نہ رکھتا ہو تو حضور سمجھ لیجئے کہ آپ کی خود نمائی کی ہوس نے آپ کے لیے میڈل جیت لیا ہے۔

لکھاری ہونے کے لئے صرف اتنا ہی کافی نہیں کہ آپ لکھ سکتے ہیں اور کسی بھی موضوع کو اپنی قلم کی زور آفرینی بخشتے ہوۓ اس موضوع کے حوالے سے غلط اور گمراہ کن مواد جذباتی مرچ مصالے لگا کر سماجی بداخلاقی کی ہنڈیا میں پکا کر کسی بھی بے ذائقہ فرد کو ٹھونس دیں اور اس فرد کو اور اس کے ہاضمے کو بے یقینی، بدحواسی اور رب کے حوالے کر کے رہ فرار اختیار کرلیں۔

لکھاری ہونا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جس میں سنسنی پھیلانے کے لیے موضوع سے انصاف نہ کرنا بھی بددیانتی ہے اور بددیانت فرد کا آپ کے ذہن میں کیا رتبہ اور مقام ہے اس کا تعین خود کر لیجئے جب کسی واقعہ یا حادثے کو رپورٹ کر رہے ہوں تو اس کے حوالے سے واضح، مثبت اور یقینی علم ہونا ضروری ہے نہ کہ آپ کا لکھا یہ ظاہر کرتا ہو کہ آپ حقائق سے نابلد، علم سے نا آشنا اور ہیجان انگیزی کے پرستار ہیں۔

کچھ روز قبل ضلع گجرات میں رونما ہونے والے ایک درد ناک واقعہ نے حقیقت میں درد پہنچایا ہے کہ ایک بالغ، معذور لڑکی کی قبر کھود کر اس سے زیادتی کی اور اس کو برہنہ حالت میں چھوڑ کر مجرم فرار ہو گیا اور اہل خانہ سمیت ہر کس نا کس سننے والے نے اس کی پر زور مذمت کی اور گہرے دکھ کا اظہار کیا۔

ایسے واقعات ہرگز قبول نہیں کئے جا سکتے اور ایسے مجرموں کے ساتھ کسی قسم کی ہمدردی بھی ہرگز گوارا نہیں اور ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے بھی اقدامات انتہائی ضروری ہیں تا کہ آئندہ ایسے دلخراش واقعات ہماری سماعت سے محروم رہیں۔

مگر ایسے واقعات پر لکھاری حضرات کی طرف سے زور قلم چلانے پر بھی روک تھام کی ضرورت ہے ایسے لکھاری حضرات جو ایسے ہی کسی پیچیدہ معاملے کو اپنے علم کی کمی کی وجہ سے بیان کرتے ہیں تو دراصل وہ ایسے واقعات کی مزید پرورش کا سبب بھی بنتے ہیں کیونکہ کہیں نہ کہیں مجرم کو خبر ہو جاتی ہے کہ اس کے جرم کو مذہبی دوری، اخلاقی گراوٹ اور سماجی و قانونی بد انتظامی کا لبادہ اڑھا دیا گیا ہے اور اب اس کی راہ صاف اور وہ اپنے نئے شکار کو آسانی سے شکار کر سکتا ہے۔

گجرات میں ہونے والا واقعہ پہلا ایسا واقعہ نہیں ہے جس کی دلخراشی تکلیف کا باعث نہ بنی ہو ماضی میں بھی ایسے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں اور ان پر جرح آزمائی کرنے کا انداز بھی وہی پرانے والا ہی ہے کہ جس میں مرد ہی ایک ایسا درندہ ہے جو قبر میں مردہ لیٹی عورت کو بھی اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھانے سے بھی گریزاں نہیں ہے اور بدکاری و حرام زدگی کا یہ طوق تمام مردوں کے گلے میں لٹکا کر سب کو اسی ایک انداز میں ظالم ثابت کیا جاتا رہا ہے اور آج بھی ہو رہا ہے۔

مگر کیا یہ بات سچ نہیں کہ ایسے غیر معمولی واقعات صرف اس ایک شخص کا جرم ہے جو اخلاقی گراوٹ کا نہیں بلکہ ذہنی بیماری کا شکار ہے جس کے جنسی رجحانات ایک نفسیاتی پیچدگی کا مظہر ہیں جس کے پس منظر میں ایسے محرکات ہیں جن کے بارے بات کرنا ہمارے ہاں الگ سے گناہ ہیں۔

اور اگر ہر شخص اپنی ہوس کو مٹانے کے لیے قبرستان کا رخ نہیں کر رہا تو یہ بات کہنا ان مردوں کے ساتھ بے انصافی نہیں جو آپ کی حفاظت میں آپ کے گھر موجود ہیں اور ہر دوسرے مرد پر ہی یہ گمان باندھنے کا حوصلہ دینے والے لکھاری حضرات خود کو کس مقام پر رکھتے ہیں۔

گجرات کے اس واقعہ کے بعد جتنے بھی لکھاری حضرات کی تحریروں کو پڑھا ہے اس سے یہ بات ہی عیاں ہوئی ہے کہ ان کا علم شائد ایسے واقعات کو چرب زبانی، غلط بیانی اور الزام دہی کے ساتھ بتانا مقصود تھا مگر اصل حقیقت کو بیان کرنے کے لیے ان کے علم میں اتنا اضافہ نہیں ہوا کہ وہ کسی بھی واقعہ کو اس کے حقیقی معنوں میں بیان کر سکیں کیونکہ آج کے دور کہ غیر معمولی جرائم کو سمجھنے کے لیے علم نفسیات، نفسیاتی بیماریوں اور ان کے پس منظر میں نفسیاتی عوامل کا کما حقہ علم ضروری ہے ورنہ کوئی بھی لکھاری ایک نفسیاتی بیماری کے زیر اثر ہونے والے جرم کو کسی اور طرح سے بیان کر کے عوامی جہالت کا اضافہ کر سکتا ہے۔

حالیہ واقعہ ایک ایسی ذہنی بیماری کا پیش خیمہ ہے جس کو علم نفسیات میں نیکرو فیلیا (Necrophilia) مطلب لاشوں یا مردوں کے ساتھ جنسی رغبت اور جنسی عمل کرنے والا کہا جاتا ہے اور اس بیماری میں مبتلا شخص ہی ایسے کام انجام دے سکتا ہے جو گجرات میں ہوا نہ کہ ہر دوسرا شخص ایسے جنسی رجحانات رکھتا ہے۔

ایسے اور بھی بہت سے جنسی رجحانات اور میلانات لوگوں میں پاۓ جاتے ہیں جو کسی جرم کی صورت رکھتے ہیں مگر چونکہ وہ کبھی منظر عام ور نہیں آے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ پاکستان میں موجود ہی نہیں اور دوسرا یہ کہ نیکروفیلیا جیسے واقعات بھی اتنے عام نہیں ہیں۔

ذہنی بیماروں کے حوالے سے درست معلومات کا ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ایسے واقعات کے محرکات کو ہی کچلا جاۓ اور اگر کوئی فرد کسی بھی جنس کا ہو اس کے جرم کا الزام ساری جنس پر نہیں دھرنا چاہئے اس کے ساتھ ساتھ درست معلومات کے فروغ سے ایسے واقعات کی وجہ سے پیدا ہونے والی نفرت، لاعلمی اور ان کے صد باب کا صحیح طریقہ واضح کرنے میں مدد لی جانی چاہئے، نہ کہ لکھنے کی ہوس میں کچھ بھی لکھ دیا جاۓ۔

Check Also

Lucy

By Rauf Klasra