Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Tanvir Sajeel
  4. Hamaqat Par Kuch Zor Nahi

Hamaqat Par Kuch Zor Nahi

حماقت پر کچھ زور نہیں

کچھ نظر ان عقلمندوں کی باتوں پر۔۔ نہیں نہیں توقعات پر۔۔

مجھے غصہ بہت آتا ہے کوئی حل بتا دیں؟ میں ہر وقت اداس رہتی ہوں کوئی طریقہ بتائیں کہ کیسے یہ اداسی ختم ہو؟ میری سسرال والوں سے نہیں بنتی ان کو قابو کرنے والے جن کا رابطہ نمبر دے دیں؟ میرے پیا جی بہت غصے والے ہیں ان کو کیسے ہینڈل کروں کوئی ٹوٹکہ بتا دیں؟

مجھے نیند کا مسئلہ ہے ہر وقت سوچوں میں گم رہتی ہوں کیا کروں کہ یہ سب اک لمحے میں غائب ہو جائیں؟ ڈاکٹر صاحب آپ مہربانی کر کے مجھے میسج پر ہی بتا دیں میں اپنے مسئلوں کا حل کیسے کروں؟

یہ چند نمونے پیش خدمت ہیں جن سے ہر روز سوشل میڈیا پر واسطہ پڑتا ہے سوشل میڈیا کے مختلف گروپس میں موجود ہزاروں کی تعداد میں لوگ موجود ہیں اور ہر کوئی اپنے مسئلے کو چند سطروں میں بتا کر چمتکاری حل کا شدید خواہشمند رہتا ہے۔

اور سمجھتا ہے کہ میں نے اپنی بات لکھ دی ہے اب کوئی ماہر نفسیات اس کو پڑھ کر فوری مجھے میرے مسئلے کا حل بتا کر اپنی ذمہ داری کو دیانت داری سے ادا کرنے کا سنہری موقع ہاتھ سے جانے نہ دے ورنہ بروز محشر وہ اپنی کوتاہی فرض کا خود ذمہ دار ہو گا۔

کسی طور پر دیکھیں تو بھائی ان کی یہ بات سیدھی دل کی بجائے دماغ پر لگتی ہے اور چوٹ اتنی گہری پڑتی ہے کہ یہ سمجھ نہیں آتا کہ ماہر نفسیات جادو گر نہ بن کر کتنا غلط کر رہے ہیں کہ مریض محترم و محترمہ کی بات سے مکمل حقیقت کو کیوں نہیں سمجھ رہے کیا وہ اتنے ہی بدھو ہیں کہ اپنے کشف و کرامات کا استعمال ہی نہیں کر سکتے اور ان کا سارا علم جس کی بدولت وہ خود کو ماہر نفسیات کہتے ہیں بے کار ہی ہے۔

یقیناً اس میں سرا سر غلطی صرف ماہر نفسیات کی ہی تو ہے جو وہ اتنی بڑی ڈگری لے کے گھوم رہے ہیں اور اس قابل بھی نہیں کہ ان کی چند سطروں کو ٹھیک سے سمجھ کر حل پیش نہ کر سکیں یا وہ ان کی کھوپڑی میں موجود تمام معلومات کو سکین کر سکنے کے اہل بھی نہیں ہیں تو کیا فائدہ ان سے بات کرنے کا ان سے سیشن لینے کا یہ تو وقت اور پیسے کا زیاں ہی ہے۔

اس سے بہتر تو یہ ہے کہ میں اپنی بات کسی ایسے کو بتا دوں جو میری بات سن کر فوری مجھے یہ بتائے کہ یہ سب دین سے دوری کا نتیجہ ہے اور میں خوشی خوشی اس کی بات کو اہمیت دوں اور زوروشور سے اس کے مشورے پر عمل کرتے ہو ئے دین و دنیا میں کامیاب ٹھہروں۔

وہ کیا کہتے ہیں کہ پاکستان جیسے ملک میں ایک نائی کا بتایا ہوا حل سب سے زیادہ معتبر سمجھا جاتا ہے اور کسی پڑوسن کی سرگوشی میں دی گئی ہدایت ان تمام اہل علم، سند یافتہ اور تربیت یافتہ ماہرین سے کہیں زیادہ اہم اور ضروری ہے اور ان کا کمال یہ ہے کہ ان کو پتہ ہے کہ ان عقلمندوں کو کیسے یہ سمجھا دینا ہے کہ بھائی چھوڑو آج کل کے ڈاکٹر تو خود بیمار ہیں اور ماہرین نفسیات تو نرے پاگل ہیں ان کے پاس جا کر اپنا وقت ضائع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

بات تو ان کی ٹھیک ہے کہ عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ایک ایسے بندے سے ہی مشورہ لاکھ درجے بہتر ہے جو اس پروفیشن کی نہ تو کوئی تعلیم رکھتا ہے اور نہ ہی اس کے پاس کسی قسم کی سند ہے اور تو اور ان کی بات بھی دل کو بھلی معلوم ہو رہی ہے تو ایسے میں کسی پروفیشنل کی کیا ضرورت ہے اور اگر ہے بھی تو وہ ایسے بندے کی بات سنیں جو بہت مشہور ہے اور دین و دنیا کے سنوارنے کی ایسی من موہنی باتیں کرتا ہے کہ بندے کا دل ہی جیت لیتا ہے چاہے خواہ وہ تمام عمر ہسپتالوں میں لوگوں کو کینسر کی دوایاں ہی کیوں نہ لکھتا رہا ہو یا پھر مردانہ و زنانہ امراض مخصوصہ کا علاج ہی کیوں نہ کرتا رہا ہو۔

اب یہ کیا ضروری ہے کہ وہ ڈپریشن، اینگزیٹی، ریلیشن شپ، پرسنیلٹی ڈس آرڈر جیسے سائیکالوجیکل، ایموشنل پرابلمز پر علم رکھتا ہو ڈگری یافتہ ہو (ارے بےوقوف احمق ڈگری محض کاغذ کا ٹکرا ہی تو ہوتی ہے) انسانی نفسیات کی تمام وائرنگ کو سمجھتا ہو اور اس کے لیے یہ بھی تو قطعی ضروری نہیں کہ وہ ٹریٹمنٹ کے تمام رموز و اوقاف سے واقف اور تربیت یافتہ ہو۔

تو بھائی آج اس بات کو پلے باندھ لو کہ "جس کا کام اسی کو سادھے" آج بھی ویسے ہی اپنے معانی رکھتا ہے جیسے یہ اول روز رکھتا تھا تو آج ترقی کی جتنی منزلیں طے کر کے جدت کی دھول میں آنکھیں موندے ہر دوسرے بندے کو قابل اور اہل علم سمجھنے کا احمقانہ چسکا پڑ گیا ہے اس کی لذت سے خود کو دور کر لینا ہی حماقت کو خیر آباد کہنا ہو گا اور اس لا علمی کے ساتھ ساتھ کم علمی کے چنگل سے بھی اپنی جان چھڑا لیں کہ نفسیاتی، جذباتی مسائل کے حل کا اپنا ایک پروٹوکول ہوتا ہے جس میں مریض کی زندگی کے تم گوشوں کو جاننا، سمجھنا اور ان کا موجودہ مسئلے کے ساتھ تعلق کی جانچ پڑتال کرنا انتہائی ضروری ہے۔

جس کے لیے ماہرین نفسیات سیشن کرتے ہیں جس کا ایک خاص دورانیہ ہوتا ہے جو چالیس سے پچاس منٹ کا ہوتا ہے جس میں مریض اور ماہر نفسیات وہ تمام باتیں نہ صرف کرتے ہیں بلکہ ان کا تجزیہ بھی ساتھ ساتھ چلتا ہے تا کہ مریض کے بیرونی اور اندرونی ذہنی و جذباتی رویوں کو سمجھ پرکھ کر مشاورت یا تھراپی سے مسئلے کا حل نکالا جا سکے۔

اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ نفسیاتی و جذباتی مسائل کا حل چند سطروں، میسج پر پوچھا جا سکتا ہے اور یہ اتنا ہی سادہ طریقہ علاج ہے جیسے ہلکے سے درجہ حرارت کے بڑھنے پر پیناڈول لینا ہے تو یقیناً وہ ابھی بھی حماقت کے اندھیروں میں کسی روشنی کی تلاش میں چٹان سے سر ٹکرا کر مزید نقصان کا شدید خواہش مند ہے۔

اللّه بھلا کرے ان لوگوں کا بھی جو سولہ سالہ ڈگری لینے کے بعد بھی اپنے مسائل کا حل سولہ سالہ لونڈے کی طرح چاہتے ہیں اور سمندر کو مٹھی میں قید کرنے کی حماقت سے باز نہیں آتے۔

Check Also

Platon Ki Siasat Mein Ghira Press Club

By Syed Badar Saeed