Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Tanveer Ahmed Chandio
  4. Qabza Mafia

Qabza Mafia

قبضہ مافیا

دنیا کا شاید کوئی ہی ایسا ملک یا خطہ ہو جو جرائم سے مکمل پاک ہو۔ کہیں زیادہ کہیں کم، جرائم کسی نہ کسی صورت ہر جگہ ہو رہے ہیں۔ ایسے ممالک، جہاں جی ڈی پی پاکستان سے دس گنا زیادہ ہے وہ بھی جرائم سے محفوظ نہیں۔ جرائم کا عالمی انڈیکس دیکھیں تو وینزویلا چوراسی فیصد کے ساتھ پہلے نمبر پر، افغانستان چوتھے، برازیل دسویں، برطانیہ پینسٹھ ویں اور پاکستان بہترویں نمبر پر ہے۔ قطر بارہ فیصد کی کم ترین شرح کے ساتھ ایک سو پینتیس ویں نمبر پر ہے۔

جرم کو ہونے سے روکنا انتہائی مشکل لیکن جرم سرزد ہونے کے بعد مجرم کو پکڑنا انتہائی ضروری اور مشکل ٹاسک ہوتا ہے۔ یہ کام پولیس کرتی ہے اور ٹاپ ٹین عالمی پولیس کی فہرست میں جاپان پہلے نمبر پر ہے۔ پھر امریکا، اٹلی، برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا، جرمنی، چین، نیدرلینڈ اور کینیڈا کی پولیس کا نمبر آتا ہے۔ بہترین پولیس ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اس ملک میں جرائم ختم ہو جائیں گے کیونکہ جرم کا تعلق معیشت، محرومیوں، دماغی امراض وغیرہ سے ہوتا ہے۔ ٹاپ ٹین کی فہرست میں جن ملکوں کی پولیس ہے اس کا تعلق ان کی کارکردگی سے ہے اور کارکردگی کا انحصار پولیس کو دی جانے والی سہولتوں اور بجٹ وغیرہ پر ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں پولیس، صحت اور تعلیم کے شعبوں کیلئے کتنا بجٹ رکھا جاتا ہے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس کے باوجود ہم اپنی پولیس، ڈاکٹرز اور اساتذہ سے یہ توقعات رکھتے ہیں کہ وہ دبئی، جاپان اور سوئٹرزلینڈ سے بہتر نتائج دیں جو بظاہر ممکن نہیں۔

پاکستان میں جرائم کی وجہ غربت تو ہے ہی لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو کچھ نہ کرنے کی ٹھانے ہوئے ہے۔ ایسے لوگ بڑا ہاتھ مارنے کے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ کچھ نہیں بن پڑتی تو سوشل میڈیا پر وڈیوز ڈال کر اپنی تشنگی دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت کچھ نئے قسم کے جرائم بھی سامنے آ رہے ہیں جن کی وجہ موبائل فون اور اس کی ایپس کا غلط استعمال ہے۔ بہت سے لوگ تشہیر کے شوق میں ایسی وڈیوز بنا لیتے ہیں جن کے انہیں لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ ٹک ٹاک پر آئے روز کوئی نہ کوئی ایسی وڈیو اور پھر اس وڈیو کا انجام بھی سامنے آتا رہتا ہے لیکن یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لیتا۔ ہوائی فائرنگ اور اسلحے کی نمائش کی وڈیوز بڑے فلمی انداز میں بنائی جاتی ہیں، مشہور فلمی ڈائیلاگ بولے جاتے ہیں اور انہیں سوشل میڈیا پر ڈال دیا جاتا ہے۔ ایسی وڈیوز بہت جلد وائرل ہو جاتی ہیں۔ سنسنی خیز واقعات جلد پھیلتے ہیں، بہت سے لوگوں کو چیزیں آگے شیئر کرنے کی عادت ہوتی ہے، کچھ سوشل میڈیا گروپس ایسے ہیں جن میں لاکھوں کے تعداد میں فالوورز ہیں ؛ چنانچہ ایسے گروپس میں وڈیوز کے بس جانے کی دیر ہوتی ہے اور اس کے بعد یہ چند گھنٹوں میں پوری دنیا میں پھیل جاتی ہیں۔

ایسی وڈیوز کا مقصد اپنی تشہیر اور پیسہ بنانا ہوتا ہے لیکن یہ کام اب جرائم شمار کئے جاتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو چونکہ اس کا علم نہیں ہوتا یا پھر وہ سمجھتے ہیں کہ ہم پکڑے نہیں جائیں گے کہ کون سا پولیس ہمیں ہی واچ کر رہی ہے؛ تاہم ان کی غلط فہمی اس وقت دُور ہو جاتی ہے جب پولیس ان کے دروازے پر کھڑی ہوتی ہے۔ پنجاب میں پولیس کا سائبر ونگ ایک عرصے سے فعال ہے اور نہ صرف سنگین جرائم میں مجرم تک پہنچنے کے لئے جدید فرانزک سائنس کا سہارا لیا جاتا ہے بلکہ معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والی ایسی وڈیوز بنانے والے افراد کے "سافٹ ویئرز بروقت اَپ ڈیٹ" کر دیے جاتے ہیں۔ لاہور میں اس طرح کے واقعات میں چند گھنٹے یا ایک دو دن کے اندر اندر مجرم پکڑ لیے جاتے ہیں اور وڈیو بیان میں اپنے کیے پر معافی مانگتے دکھائی دیتے۔

Check Also

Baat Kahan Se Kahan Pohanch Gayi, Toba

By Farnood Alam