Abba Ka Tarka
ابا کا ترکہ
ابا کی تدفین کے بعد سوئم ہو چکا تو مہمان بھی رخصت ہوئے اور گھر میں رہ گئے، اماں اور ہم بہن بھائی۔ کرنے کو کچھ تھا نہیں سوائے اس کے کہ روزانہ لاؤنج میں بچھی سفید چادروں پہ بیٹھ کے گٹھلیوں پہ ایصال ثواب کے لئے کچھ نہ کچھ پڑھا جائے۔ دوست احباب میں سے بھی کوئی نہ کوئی روزانہ آ جاتا، غمزدہ خاندان کی دلجوئی کے قرینوں میں سے ایک۔ تیسرے چوتھے دن سوچا کہ ابا کی چھوڑی ہوئی چیزوں کا بٹوارہ ہی کر لیا جائے۔ سب ہی مرنے والوں کے ورثا شاید کچھ دنوں بعد یوں ہی سوچتے ہیں۔
خیر جناب، الماریاں کھولی گئیں، صندوق بھی دیکھ لیا گیا۔ جو کچھ نکلا، وہ سب نے دیکھ لیا۔ ایسے مواقع پہ چپقلش تو ہوا ہی کرتی ہے سو ہم بہن بھائیوں میں بھی ہوئی۔ کیا کیجیے بندہ بشر ہو اور لالچ کا آسیب نہ آن گھیرے، بھلا کیسے ممکن؟ کیا جھگڑا زمین اور گھر کی تقسیم پہ ہوا؟ یا بینک اکاؤنٹ پہ؟ ارے صاحب، گھر اور زمین کی بات ہوتی تو کیا برا تھا؟ وجہ تنازعہ تو کچھ اور چیز بنی۔ یہ ایک سرخ رنگ کی ڈائری تھی، جسے ہر کسی نے بہت اشتیاق سے لینے کی خواہش کی۔ انیس سو ستر کے زمانے کی ضخیم ڈائری! کیا کسی پوشیدہ خزانے کی کلید تھی یہ ڈائری؟
یہ سب اس زمانے کی حکایتیں ہیں جب ابھی شعور کی آنکھ میں زیادہ دم نہیں تھا۔ ایک موہوم سی یاد کا سرا ملتا ہے کہ گھر مہمانوں سے بھرا پڑا تھا اور باہر صحن میں ہولڈال، ٹین کا بکسا اور کچھ اور سامان بندھا رکھا تھا۔ ملاقاتیوں کا تانتا بندھا ہوا تھا، پھول اور مٹھائیوں کا ڈھیر تھا۔ ابا لوگوں میں گھرے بیٹھے تھے جو ان کی خوش بختی کے قصیدے پڑھ رہے تھے۔ ابا کے ہاتھ میں ایک ڈائری تھی، جس میں فرمائشوں اور دعاؤں کی تفصیلات بمعہ نام لکھی جا رہی تھیں۔
افضل حسین۔ نوکری کی دعا۔
شاہد علی۔ اولاد نرینہ۔
شفیق اختر۔ بچی کی شادی۔
سکینہ بی بی۔ کبوتروں کو دانہ۔
تسلیم اختر، مس کی ہوئی تسبیح۔
اماں بھاگ بھاگ کے مہمانوں کی تواضع میں مصروف تھیں مگر کبھی کبھی سب کی نظر سے اوجھل ہو کے اپنی نم آنکھوں کے گوشوں کو دوپٹے سے پونچھ لیتیں۔ ہمیں کچھ علم نہیں تھا کہ یہ سب شور و غوغا کس سلسلے میں ہے۔ ہم تو آتے جاتے مٹھائی کے ڈبوں سے برفی اور گلاب جامن اڑاتے اور سوچتے کہ کاش آج کا دن اتنا طویل ہو جائے کہ ہم یہ سب کھا سکیں۔ کیا کہیے ان دنوں ہمیں مٹھائی اس قدر پسند تھی کہ بس۔
کچھ ہی دیر میں کسی نے باآواز بلند کہا، نکلنا چاہیے اب، کہیں گاڑی نہ چھوٹ جائے۔ یہ سنتے ہی کچھ لوگ سامان لے کر گلی کی طرف چلے جہاں بہت سی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ ابا نے باری باری سب کو ملنا شروع کیا، کسی کو گلے لگایا، کسی سے مصافحہ۔ ہماری باری آئی تو گود میں اٹھا کر بولے، دیکھو، اماں کو تنگ مت کرنا، میں بہت دور جا رہا ہوں۔ بتاؤ تمہارے لئے کیا لاؤں؟
ہم کچھ دن پہلے ہی ایک شادی میں بنی سنوری دلہن کے زیورات سے کافی متاثر ہو کے گھر واپس آئے تھے سو بنا توقف بولے، شادی میں پہننے والا ٹیکہ اور نتھ۔ یہ سنتے ہی قریب کھڑے ہوئے لوگ قہقہہ لگا کر ہنس دیے۔ نہ جانے کس نے کہا، بٹیا تمہارے ابا بہت دور اللہ کا گھر دیکھنے جا رہے ہیں، اللہ انہیں خیریت سے واپس لائے۔ اس جواں عمری میں مشکل سفر کرنے کا ارادہ کر لیا اور خدا کے گھر سے بلاوا بھی آ گیا۔ دیکھو پورے علاقے میں صرف انہی کا نام قرعہ اندازی میں نکلا ہے۔
ہم حیرت سے سوچتے رہے کہ ابا تو کہتے ہیں کہ اللہ ہر جگہ رہتا ہے۔ اگر ابا کی مان لیں تو اللہ نے گھر اس جگہ کیوں بنایا جو ہم سے اتنی دور ہے اور راستہ اتنا پرخطر۔ ابا ریل گاڑی میں بیٹھ کر کراچی روانہ ہوئے اور وہاں سے بحری جہاز پہ بیٹھ کر سعودی عرب۔ انیس سو ستر میں یہ ایسے ہی تھا جیسے کوئی کالے پانی روانہ ہو جائے۔ دو مہینوں میں ابا کا خط جب بھی اماں کو ملتا، وہ اشتیاق سے کھول کے پڑھتیں، کبھی مسکراتیں اور کبھی آنسو پونچھتیں۔ ہم گھر کے جس کونے میں بھی ہوتے، بھاگتے آتے اور اس رم جھم سے کوئی سروکار نہ رکھتے ہوئے ایک ہی سوال پوچھتے، ابا نے میرا ٹیکہ خریدا کہ نہیں؟ (کسی بھی ہدف کا پیچھا کرنے پہ ہم اس عمر میں بھی یقین رکھتے تھے)
اماں روتے روتے ایسے ہنس دیتیں جیسے برستی بارش میں دھوپ۔ پھر کہتیں، عمر دیکھو اور شوق۔ نہ جانے یہ الٹ پلٹ کہاں سے سیکھ لیتی ہے؟ اس قیام کے دوران نہ جانے ابا نے کیسے سوچا کہ اس سفر کو قلمبند کیا جائے۔ دو مہینوں میں رونما ہونے والا ہر واقعہ، ایک ایک لمحہ، درد و احساس کے جذبوں میں گندھا، بندگی و سرشاری سے لبریز ایک داستان۔ اس داستان کی ہمراز بننے والی وہ سرخ ڈائری تھی جو ہم نے الماری میں ابا کو سینت سینت کر رکھتے دیکھا۔ اور ابا کے بعد ہم سب اس کے دعویدار۔
ابا ڈائری میں لکھی داستان چھوڑ کر ابدی سفر کو روانہ ہو چکے تھے یہ وصیت کیے بنا کہ ڈائری کا حقدار کون ہوگا؟ شاید محبت کرنے والوں کے درمیان محبت کی داستان کا بٹوارہ کرنا ان کے لئے مشکل رہا ہوگا۔ شاید آپ کو یہ جاننے میں دلچسپی ہو کہ واپسی پہ ابا کے سامان میں سے نگوں بھرا چھوٹا سا ٹیکہ نکلا تھا جو ابا نے کراچی اتر کر پنڈی کی ریل گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے خریدا تھا۔ آخر وہ عجیب و غریب فرمائش پوری کیے بنا ابا گھر کیسے لوٹ سکتے تھے، چہیتی بیٹی سے تو ان کے دل کی ڈور بندھی تھی۔