Milawat
ملاوٹ
ہم میں سے اکثریت ملاوٹ زدہ زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ کئی قسم کی ہو سکتی ہے۔ کھانے پینے کے سامان سے لیکر پہناوے تک اور پہناوے سے انسانی رویئے، سلوک، رشتے، سماج، سوچ تمام ملاوٹ زدہ ہیں۔ آپ پوچھیں گے کہ ملاوٹ کھانے پینے کی چیزوں میں تو ٹھیک ہے مگر باقی سب متزکرہ بالا میں ملاوٹ کیسے ممکن ہے۔ حضور ذرا سوچیئے ہم نے اپنے اوپر کتنے نہ دکھنے والے نقاب اوڑھ رکھے ہیں۔ ہم غریبوں کے لیئے کچھ اور، امراء کے لیئے کچھ اور سلوک روا رکھتے ہیں۔ ہم طاقتور سے ڈرتے اور کمزور کو ڈراتے ہیں۔ قطع نظر ان سب مواقع کے ہمارا اصل چہرہ کچھ اور ہوتا ہے جس سے فقط ہم ہی واقف ہوتے ہیں۔
یقینا ہم میں ایسے لوگ بھی ہیں جو نادانوں اور ناتوانوں کو دھوکا دینے کے بعد تنہائی میں اپنی مکروہ ہنسی کے گواہ ہونگے۔ وہ کیا تھا اور یہ کیا ہے؟ یہ ایک وبائی بیماری کا روپ دھار چکی ہے۔ ہم سارا سال لوٹ مار کرتے ہیں اور سال بعد اسی سرمائے سے اللہ سے ملنے اسکے گھر چل پڑتے ہیں۔ زرا سوچئے ہم یہ دھوکا کسے دے رہے ہیں خود کو یا خالقِ کون و مکاں کو؟
یہ ہم ہی ہیں جو چائے کی بجاے چنے کے چھلکوں کو رنگ چڑھا کر بیچتے ہیں، ہم ہی ہیں جو دودھ میں زہریلا کیمیکل ملا کر بیچتے ہیں۔ اور یہ سب کرتے ہوئے ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارے گھر میں بھی بچے ہیں جو اس کیمیکل کا شکار ہو سکتے ہیں۔ یہ ہم ہی ہیں جو مرغی کی آنتوں اور دیگر آلائشوں سے کوکنگ آئل اور گھی بناتے ہیں۔ یہ ہم ہی ہیں جو ہسپتالوں سے اکٹھی کی گئی استعمال شدہ سرنج اور دیگر فضلے سے بچوں کے فیڈر بناتے ہیں۔
آخر کب تک؟ ہم یہ سب کیوں بھول جاتے ہیں کہ آخر ہمیں ایک دن مرنا بھی ہے، ہم اپنے سب اعمال کے جوابدہ بھی ہیں اور ہمیں سزاوجزا کے عمل سے گزرنا بھی ہے۔ حضرت علیؑ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ نے جہنم کا ذکر کیا، وہ ذکر اتنا کربناک تھا کہ میں نے خواہش کی کہ اے کاش میری ماں مجھے جنم نہ دیتی۔ ذرا سوچئے کہ حضرت علیؑ جیسی ہستی ذکر جہنم نہیں سن سکتی تو ہمارے تو اعمال ہی کیا ہیں؟