Raqs Karte Leader
رقص کرتے لیڈر
صاحبو کچھ روز پیشتر مسلم لیگ (ن) کے رہنما نواز شریف کے نواسے مریم صفدر کے نکاح کی تقریب لندن میں منعقد ہوئی، قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے اس بابرکت تقریب میں دولہے راجہ کے والدین ہی شریک نہ ہوسکے، کتنا ظلم ہے، سابقہ وزیر اعظم جناب نوازشریف صاحب کی صاحب زادی مریم صفدر صاحبہ اب پارٹی کی قیادت سنبھال رہی ہیں، کبھی لوگ بینظیر بھٹو تو کبھی محترمہ فاطمہ جناح سے تشبیہ دیتے ہیں، تو محترمہ خود بھی عوام کو یاد دلادیتی ہیں کے وہ حسن اور حسین کی ہمشیرہ ہیں حالانکہ برادران اور خود انکی قربانیوں میں کربلا جیسی کوئی بات نظر نہیں آتی۔
حکومت وقت نے محترمہ کو بیٹے کے نکاح اور پھر بمعہ انکی بہو کہ اجتماعی رقص کی سعادت سے محروم رکھا۔ حالانکہ محترمہ پہلے بھی بتاچکی تھیں کہ انکی ایک سرجری ہونی ہے جو پاکستان میں ممکن نہیں بتائے اب وہ کیا منہ دکھائی گی بیٹے کے سسرالیوں کو۔ بہرحال صاحب بھلا ہو ان موبائل فون اور واٹس اپ گروپوں کا لمحوں میں نکاح کی تقریب اور پھر دلہا دلہن کے بابرکت رقص کا روح پرور منظر ہم غریبوں تک بھی پہنچادیا۔
جنید صفدر نواسہ شریف جنکو لوگ شاید مستقبل میں جناب بلاول بھٹو زرداری صاحب کا ہم پلہ سمجھتے ہیں، مملکت خداد کے لیے اپنی فرنگی جامعہ کی پولو ٹیم کا کپتان بن کر ایک عظیم اعزاز حاصل کرچکے ہیں جسکی بازگشت ابھی تک سماجی میڈیا پر سنائی دے رہی ہے نے رقص اور پھر گلوکاری کی صلاحیتوں پر جس نے سماجی میڈیا پر جھنڈے گاڑ دیے ہیں۔ کچھ ناعاقبت اندیش لوگوں کا خیال ہے کہ انکو بھارتی گانا اور بھارتی انداز کا رقص نہیں کرنا چاہیے تھا، اس عمل سے انکے جذبہ حب الوطنی پر حرف آتا ہے اگر اسکی جگہ وہ بی بی شیرینی پر اپنے جوہر دکھاتے تو انکے درویش صفت ہونے کی ضمانت مل جاتی، بعد میں انکے والد محترم جناب کپتان صفدر صاحب کو وضاحت دینی پڑی کہ دلہا میاں صرف گانے ہی نہیں گاتے بلکہ نعتیں بھی پڑھتے ہیں، سبحان اللہ قربان جایے اس سادگی کے۔
بیٹا پولو ٹیم کا کپتان باپ فوج کا کپتان، اور مقابلہ بھی کرکٹ ٹیم کے ایک سابقہ کپتان سے ہی ہے جو آجکل سیاست دانوں کا کپتان بنا بوا ہے۔ پر اس لفظ کپتان سے اب کچھ ڈر سا لگنے لگا ہے حالانکہ کپتان صاحب دلاسہ دیتے رہتے ہیں آپنے گھبرانا نہیں ہے۔ صاحبو جنید صاحب کپتان بھی بن چکے ہیں ایک بڑے لیڈر کے نواسے اور ایک ممکنہ وزیراعظم کی امیدوار خاتون لیڈر کے صاحبزادے بھی ہیں یعنی ہر لحاظ سے لیڈری کے تمام بنیادی نکات پر پورے اتر رہے ہیں۔ اور پھر نعتیں بھی پڑھتے ہیں یعنی مذہبی رجحان بھی ہے۔
اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ ہم عوام کے لیے یہ جدی پشتی لیڈران ہی رہ گئے ہیں، جو باریاں لگاتے رہتے ہیں، ہم انکے لیے ڈالر کما کر لاتے ہیں اور یہ لندن اور آمریکہ میں جائداد بنالیتے ہیں، کبھی کبھی جی میں آتا ہے کاش سلطنت کا سربراہ چننے کے لیے انڈین آہیڈل کی طرز کا کوئی پروگرام ہو جس میں سخت مراحل سے گذر کر آپکو مطلوبہ شخصیت حاصل ہو۔ خالی پشت در پشت چلنے والی اس لیڈر شپ سے چھٹکارا ملے۔ مگر صاحب جمہوریت بڑی چیز ہے، بتایا تو یہ ہی جاتا ہے۔
اب پیپلزپارٹی کو ہی دیکھ لیں، نعرہ بھٹو، بی بی شھید وغیرہ وغیرہ، عوام کی ایک کثیر تعداد انکے سحر میں مبتلا ہے، محترمہ بینظر بھٹو بین الاقوامی سطح پر ایک نہایت ہی قابل احترام نام۔ انکے شوہر جناب زرداری صاحب ملک کے صدر رہ چکے ہیں۔ اب ان دونوں کے سپوت جناب بلاول زرداری صاحب میدان سیاست میں کود پڑے ہیں اور خود کو وزرات عالیہ کا اہل سمجھتے ہیں، لندن میں تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے انگریزی غضب کی بولتے ہیں جو ہمارے جیسے سادہ لوح عوام کو مرعوب کرنے کا ایک اہم ہتھیار ہے، اردو موصوف کی بھی گلابی ہے جسے سنکر عوام محظوظ ہوئے بنا نہیں رہ پاتی۔ بلاول صاحب کی ایک بہن آصفہ بھٹو بھی سیاست میں قدم رکھ رہی ہیں اور اپنی عظیم والدہ کی طرح انہی کے طرز لباس کو اپنا کر جلسوں میں شرکت کررہی ہیں، بلاول بھٹو صاحب کی دوسری ہمشیرہ جنابہ بختاور صاحبہ ٹویٹر پر ماوراے عقل بیانات دیکر جمہوریت کا حق ادا کردیتی ہیں۔
موجودہ وزیراعظم عمران خان صاحب کے نہ والدین سیاست میں تھے اور تادم تحریر بچے بھی فلحال یہودی ماں کے سائے میں پل رہے ہیں، کبھی کبھی شاید نئی امی کی وجہ سے اسلام پر کوئی ٹویٹ کردیتے ہیں۔ بہرحال شکر ہے عملی سیاست میں نہیں آئے ہیں۔ ورنہ مہنگائی سے پریشان عوام پر مزید بوجھ پڑجاتا۔ الیکشن جیتنے کے لیے پیسے کے ساتھ ساتھ بھاری بھرکم شخصیات کا ساتھ ہونا بڑا ضروری ہے خالی انقلابی خیالات سے کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ عمران خان صاحب کی جدوجہد سب کے سامنے ہے، کئی پیچیدہ یو ٹرن لیے تب وزرات عظمی تک پہنچے۔
صرف وزارت اعلی کے خواہشمندوں کا یہ حال نہیں ہے وزارتیں خاندان در خاندان بٹ رہی ہیں اور جمہوریت رواں دواں ہورہی ہے۔ عوام کو خود فیصلہ کرنا ہوگا، کہ اپنے لیڈروں کا انتخاب کیسے کریں، بھیڑ تو مداری بھی لگا لیتا ہے، ہمیں جلسوں کی بنیاد پر اپنی قیادت کا انتخاب کرنا چاہیے یا نہیں۔ بہرحال یہ سوچنا ہوگا اور ذرا نہیں پورا سوچنا ہوگا۔