Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Shariq Waqar
  4. Muashi Jang Jeetna Hogi

Muashi Jang Jeetna Hogi

معاشی جنگ جیتناہوگی

صاحبو 1947 میں ہمیں انگریزوں اور ہندو سامراج سے آزادی ملی۔ قائداعظم اور انکے رفقائے کار کی زیرک قیادت اور برصغیر کے مسلمانوں کی لازوال قربانیوں اور لاکھوں جانوں کے نذرانوں کے بعد پاکستان جیسا عظیم وطن حاصل ہوا جس میں آللہ کی دی ہوئی ہر نعمت موجود ہے۔

ایک نومولود ملک کی حیثیت ابتدا میں ایک شیر خوار بچے کی سی ہوتی ہے جسکو ابتدا میں نشونما کے ساتھ ساتھ حفاظت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ تقسیم کے فوری بعد ظاہر ہے مملکت خداد کو فوج کی ضرورت تھی جسکو فوری طور پر محسوس کیا گیا اور آج ہمارے پاس الحمداللہ دنیا کی بہترین فوج موجود ہے۔ 1948 سے لیکر 1965 پھر 1971 اور کارگل تک مملکت خداد کو بہت سے جارحانہ جنگی معرکوں کا سامنا کرنے پڑا، جنکا بڑی بہادری سے مقابلہ کیا گیا۔ چاہے بری ہو، ہوائی ہو یا بحری ہر جگہ بہادری کئ ایک نئی تاریخ رقم کی گئی۔

انسانی تاریخ جنگی جنون سے بھری پڑی ہے۔ ہر قوم پر دور میں جنگی جارحیت کا شکار رہی ہے۔دوسری جنگ عظیم میں جہاں یورپی ممالک، آمریکہ جاپان، اور روس جو آپس میں دست و گریباں ہوگئے تھے، ان سب نے بھی آخر کار اس بات پر غور کیا کہ لڑائی کسی مسئلے کا حل نہیں۔

جاپان کی مثال لے لیں، امریکہ نے دو ایٹم بم جاپان کے دو شہروں ناگاساکی اور ہیرو شیما پر برسائے جسکی تابکاری کے اثرات آج بھی کسی نہ کسی حوالے سے موجود ہیں۔ باوجود اسکے جاپانی فوج ہتھیار ڈالنے کو تیار نہ تھی، وہ مقابلہ کرنا چاہتے تھے، مگر جاپانی بادشاہ نے جنگ بندی کا فیصلہ کیا، اگرچہ جاپانی سپہ سالار نے اس فیصلے کے نتیجے میں سگی ہارا یعنی خودکشی کو ترجیح دی۔ پر آنے والے وقت نے ثابت کیا کہ یہ ایک صحیح فیصلہ تھا۔ آج جاپان نے جدید ٹیکنالوجی میں جو مہارت حاصل کی ہے وہ دنیا کے سامنے ہے۔ آمریکہ ہو یا یورپ یا ایشیائی ممالک ہر جگہ جاپانی گاڑیاں اور الیکٹرانک آلات چھائے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جاپانیوں نے پہلے اپنی تعلیمی نظام کو بہتر کیا پھر سخت محنت کی عادت ڈالی اور دیانت داری کے شعار کو اپنایا۔ آج جاپان ایک مضبوط معیشت ہے۔ حال ہی میں ہونے والے اولمپک مقابلوں کو دیکھ لیں، کرونا کا وبائی ماحول، جدید ٹیکنالوجی اور بہترین انتظامات، سب سے بڑھکر جاپان تمغوں کی دوڑ میں سرفہرست ممالک میں شامل۔

پاکستان میں ان مقابلوں کے انعقاد کے لیے شاید سو سال مزید انتظار کرنا ہوگا۔مشرقی پاکستان جو اب بنگلہ دیش کہلاتا ہے آج اسکے معاشی اشارے اور ہمارے معاشی اعداد ایک الگ ہی نظارہ دیکھاتے ہیں۔

بہرحال پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ کے مصداق ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا ہے۔ ہمارے پاس دیانت دار، ہنر مند اور قابل لوگوں کی کمی نہیں ہے، جب ہمارے معیشت دان کوریا کی معیشت بناسکتے ہیں تو اپنی کیوں نہیں۔ ضرورت صرف بہتر منصوبہ بندی، جوہر شناس نگاہیں، صحیح جگہ پر صحیح افرادی قوت کا استعمال اور سب سے بڑھ کر سب سے پہلے پاکستان والی سوچ، ان باتوں کو اپنانا ہوگا۔ وقت بہت آگے نکل چکا ہے اب دنیا کے سب سے بڑے ہتھیار ڈالر اور یورو ہیں، ہمیں اپنے ہتھیار یعنی روپیہ کی جس پر ہمارے عظیم قائد کی تصویر ہے۔ جس پر لکھا ہے کہ رزق حلال عین عبادت ہے اسکو مضبوط تر سے مضبوط ترین کرنا ہوگا۔ ورنہ ہم اس جنگ میں پیچھے رہ جائیں گے۔ اپنی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے ہمارے پاس سب کچھ ہے بہترین دماغوں سے لیکر بہترین وسائل تک۔ہم سوئی سے لیکر جہاز تک سب کچھ بنا سکتے ہیں۔ ہم نے ایٹم بم بھی بنا رکھا۔ جس سے ایک دنیا کو ڈرا رکھا ہے۔دنیا کے بہترین پھل ہمارے پاس، بہترین چاول ہمارے پاس، کپاس ہمارے پاس، اعلی نسل کے مویشی، زرخیز مٹی جس نے عرب کے صحراوں کو نخلستان بنادیا، خوبصورت جنگلات، خوبصورت لوگ، سمندر پہاڑ، دریا کیا کچھ نہیں میرے وطن میں۔ جذبہ بھی ہے جنون بھی ہے اور جوش بھی، اور پاکستانی ہمت کبھی نہیں ہارتے۔

معاشی ترقی کے لیے وسائل کے بعد سب سے اہم اور ضروری ہتھیار تعلیم اور ہنر مندی کا ہے۔ آج ہم آکسفورڈ، کیمبرج اور دیگر مغربی درسگاہوں کے تعلیم یافتہ افراد کو ہی عقل و دانش کا پیمانہ سمجتے ہیں اگر کوئی مغربی لب ولہجہ میں انگریزی بولے تو سونے پر سہاگہ۔ اپنے بنیادی تعلیمی نظام سے تو ہمارا اپنا اعتبار شاید اٹھتا ہی جارہا ہے اے لیول اور او لیول والے ہونہار طلبہ ہر جگہ چھائے ہوئے ہیں۔ دینی درسگاہوں کے طلبہ کو ہم شاید شدت پسند سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ دین ہی ہے جو انسان کے منفی خیالات کو لگام ڈالتا ہے۔ بہرحال دین اور دنیا سب کو ساتھ لیکر چلنا ہوگا، کیونکہ اسلام نے معیشت کا سب بہترین ماڈل دنیا کو دیا ہے۔ جس کو مغرب بھی مانتا ہے۔ ہم بھی تھوڑی سی جدیدیت کے ساتھ اسلامی طرز معیشت کو اختیار کریں اور دین و دنیا دونوں جگہ کامیابی حاصل کریں۔

نبی کریم ﷺ پر پہلی وحی اقرا یعنی پڑھ تھی۔ کیا پڑھنا ہے کب کب پڑھنا ہے یہ ایک بہت ضروری سوال ہے۔ اس پر پوری توجہ دینی ہوگی۔ رہ گئی ہنر مندی تو دین نے سکھا دیا ہے کہ محنت میں عظمت ہے، اور ابھی عظمتوں کے بہت سے امتحان باقی ہیں۔

Check Also

Yahoodi Moajdon Ki Ijadat

By Mansoor Nadeem