Muashi Ishare
معاشی اشارے
صاحبو مہنگائی نے پاکستانی عوام کے کس بل نکال کر رکھ دیے ہیں۔ کرونا کی وبا پھلتا پھولتا ڈالر، کبھی پیٹرول کا تڑکا تو کبھی بجلی کا جھٹکا۔ عام آدمی کبھی آٹے کی لائن میں تو کبھی چینی کے پیچھے، غریب سے لیکر سفید پوش تک ہر کوئی سڑک پر۔ پر سرکار کہتی ہے معاشی اشارے محبوبہ کے اشاروں کی طرح مثبت ہیں۔ اعداد و شمار کے ماہرین اپنے اپنے راگ الاپ رہے ہیں۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ کہ اگر سارے معاشی اشارے مثبت ہیں تو پھر یہ کون لوگ ہیں جو سڑکوں پر بھیک مانگتے پھررہے ہیں ۔ہر مسجد ہر چوراہے پر ایک سوالی کھڑا ہے۔ ایک سوال عام ہے گھر میں راشن نہیں ہے۔ اتنی ساری فلاحی تنظیمیں کس کو راشن تقسیم کرتی ہیں معلوم نہیں۔ پر راشن کی طلب تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے، اب یہ باتیں کسطرف اشارہ کرتی ہیں، اشعارے بازی کے ماہرین ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔
بائیس کروڑ عوام کو کسں طرح کن کاموں میں مصروف کیا جاسکتا ہے یہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی۔ کنٹینر پر چڑھ کر وزارت کی کرسی حاصل کرنے کے لیے بڑے بڑے دعوے کیے گئے فلاں چور تو فلاں ڈاکو، نوے دن میں کرپشن ختم، دو سو ارب ڈالر جو باہر پڑا تھا وہ پاکستان واپس لائیں گے سو ارب ڈالر واپس آئی ایف کے منہ پر ماریں گے اور باقی سو ارب ڈالر عوام کے۔ بجلی کے بل پھاڑیں گے وغیرہ وغیرہ، ان ہوش ربا نعروں نے عوام کو مدہوش کیا اور اب بدحواسی کی سی کیفیت طاری ہے۔
کسی بھی نئی نوکری میں ابتدائی تین مہینے یا چھ ماہ آزمائشی وقت سمجھا، جاتا ہے حکومت وقت ڈھائی سال سے زائد وقت لے چکی ہے مگر سواے اشاروں کے کچھ بھی قابو میں نہیں۔ پچھلی حکومتوں نے لندن میں جائدادیں بنائیں، سرے محل بناے۔ موجودہ حکومت لنگر خانے اور پناہ گاہیں بنارہی ہے۔ مگر سمجھ نہیں آتا، کراچی کے پلوں کے نیچے آبادیاں کیوں بڑھ رہی ہیں ۔ الغرض صاحب بات یہ ہے کہ گلی محلہ کتنا ہی ترقی یافتہ ہو جائے گھر میں کھانے کو روٹی نہ ہو تو پہلے اپنی اور اہل خانہ کی فکر کرنی چاہیے۔
دیکھا جائے تو شاید پوری قوم کسی نہ کسی بہانے سے مانگنے کے دھندے پر لگ گئی ہے کیا عوام کیا خواص سب اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ حکومت عالمی امداد کی متقاضی ہے، عوام حکومتی احساس پروگرام کی طرف دیکھ رہی ہے، ہر گلی ہر مسجد ہر سڑک پر اللہ کے نام پر امداد لی اور دی جارہی ہے۔ فلاحی تنظیموں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اب تو بچے بھی فلاحی دسترخوان کھول رہے ہیں اور جگہ جگہ چندہ مانگ رہے ہیں۔ اسپر حکومت ٹیکس بھی مانگ رہی ہے۔ کسی نہ کیا خوب کہا ہے مانگتا ہے سارا جہان مانگتا ہے ہر کوئی اپنا نصیب مانگتا ہے نقد مانگتا ہے ادھار مانگتا ہے۔
پر صاحب چھوڑئیے سب کچھ اشاروں کو دیکھیے اور سمجھیے،یہ اشارے ہی تو ہیں جو بتاتے ہیں کے ملک کہاں جا رہا ہے، ملک کی پیداوار میں کس شرح سے اضافہ ہورہا، ملکی برآمدات کتنی فیصد بڑھ گئی، شرح مہنگائی کتنے فیصد ہے وغیرہ وغیرہ۔ عوام پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں یہ نہیں دیکھتے ہم پورے خطے میں سب سے سستا پیٹرول استعمال کرتے ہیں۔ مہنگائی کا رونا روتے ہیں پوری دنیا کی شرح سے موازنہ کریں تو اندازہ ہو۔ غریب غربت کا رونا روتے ہیں، شرح غربت بھی تو دیکھیں کتنی کم ہیں۔
بہرحال صاحب غم نہ کریں ہر حکومت ہر دور میں میں اپنے معاشی اشاروں کو سمجھانے کی پوری کوشش کرتی ہے مگر ہم سادہ لوح عوام سمجھ ہی نہیں پاتے۔رہ گیا مہنگائی کا طوفان وہ تو ہر دور کی حزب اختلاف حکومت کو نیچا دیکھانے کے لیے عوام کو گمراہ کرتی ہے، ہر حکومت یہی سمجھاتی ہے، پر کم عقلی کا کیا کریں۔ بہرحال صاحبان معاشی اشارے ہر دور میں آفریں آفریں کررہے ہوتے ہیں بس ذرا غور کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ تو تھے حکومتی معاشی اشارے اب آتے ہیں عوامی اشاروں کی طرف جو آٹا، دال چینی، بجلی پانی وغیرہ وغیرہ ہیں۔ عوام بس انہیں اشاروں میں الجھے رہتے جو روزانہ کی بنیاد پر آگے پیچھے ہوتے رہتے ہیں۔ حالانکہ وہ کہتے ہیں نہ سادہ زندگی گذاریے اور کچھ بڑا سوچیے۔ بس حکومتی اشاروں پر نظر رکھیں اور ہاں بس گھبرانا نہیں ہے۔