Khel Aur Khilari
کھیل اور کھلاڑی
صاحبو مملکت خداد کو جہاں اللہ نے بہت سی نعمتوں سے نوزا ہے بلکہ ہر نعمت سے نوازا ہے جیسے کھیت کھلیان، پہاڑ معدنیات سمندر دریا وغیرہ وغیرہ۔ چاروں موسم بلکہ نئے پاکستان میں نئی تحقیق کے مطابق بارہ موسم وہیں افرادی قوت سے بھی مملکت خدا مالا مال ہے۔ بہترین ڈاکٹرز انجینئرز معیشت دان قانون دان فنکار سیاست دان وغیرہ غرض ہر شعبہ میں مملکت خداد نے ایک سے بڑھ کر ایک نام پیدا کیا جنکی صلاحیتوں کا لوہا دنیا نے مانا۔
کھیل اور کھلاڑیوں کی پیداوار میں بھی ہم کسی سے سے کم نہیں کرکٹ ہاکی اسکواش کبڈی اتھلیٹکس غرض ہر جگہ ہمارے کھلاڑیوں کا طوطی بولتا تھا۔ 1947 میں آزادی کے بعد سب پہلے مملکت خداد نے 1948 کے لندن اولمپکس میں شرکت کی اور سیمی فائنل میں برطانیہ سے شکست کھائی تیسری پوزیشن کے لیے ہالینڈ سے مقابلہ کیا پہلا میچ برابر اور دوبارہ کھیلے گئے میچ میں ہالینڈ سے شکست کھائی اور چوتھی پوزیشن حاصل کی۔ ایک نومولود مملکت کے لیے یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا۔ وقت گزرتا رہا پاکستانی کھلاڑی کھیلوں پر چھاتے رہے۔ کرکٹ میں ابتدائی ایام میں بھارت اور انگلستان کو شکست دیکر نام کمایا۔ آنے والے وقتوں میں ہر ٹیم کو ہرایا یہاں تک کہ 92 میں عالمی کپ بھی جیتا۔ ہاکی میں 1960، 1968 اور 1984 میں اولمپکس گولڈ میڈل جیتے۔ تین مرتبہ عالمی کپ بھی جیتا۔
عبدل خالق جو مملکت خداد کے لیے دوڑے اور بہت تیز دوڑے اور بڑا نام کمایا اور بہت سے میڈل جیتے۔ اسکواش میں ایک عرصہ تک پاکستان کا راج رہا مگر اب اسکواش کو لوگ ایک ٹھنڈے مشروب کی حیثیت سے زیادہ جانتے ہیں۔ باکسنگ میں حسین شاہ کو کون بھول سکتا ہے۔ 1947 سے 2021 تک کامیابیوں اور کھلاڑیوں کے بے مثال کارنامے بھلائے نہیں جاسکتے۔
آجکل ٹوکیو اولمپکس جاری ہیں کوڈ کی وبا کی وجہ سے میدان تماشیوں سے خالی مگر مقابلے جاری ہیں۔ پاکستان کا دستہ دس کھلاڑیوں اور تقریبا اتنے ہی آفیشلز پر مشتمل ہے۔ طلحہ طالب جس نے ویٹ لفٹنگ میں اگرچہ پانچویں پوزیشن حاصل کی مگر اولمپکس کے اس عظیم اجتماع میں پاکستان کی موجودگی کا ایک باعزت و با وقار احساس دلایا۔ گجرانوالہ کے اس اکیس سالہ نوجوان نے نامساعد حالات میں اپنی مدد آپ کے تحت نہ صرف تربیت حاصل کی بلکہ اسکی وجہ سے جاپان کے شہر ٹوکیو میں پاکستان کا نام بڑی شان سے لیا گیا۔ آفرین ہے اس نوجوان ہر۔
اولمپکس ہو اور ہاکی کا کھیل نہ ہو۔ ہاکی کا میدان ہو اور زکر پاکستان نہ ہو، یہ ممکن نہیں مگر 1984 کے لاس اینجلس اولمپکس کے بعد ہاکی کا کھیل شاید ہم سے روٹھ گیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم ہاکی میں بحیثیت ٹیم اولمپکس کے لیے اہل بھی قرار نہیں پاتے۔ کیا اب محنتی اور با صلاحیت کھلاڑی مملکت خداد میں پیدا ہونے بند ہوگئے۔ ہرگز ایسا نہیں ہے۔ نہ صرف ہاکی بلکہ باکسنگ کرکٹ اتھلیٹکس ہر کھیل میں پاکستانی کھلاڑی بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں مگر صحیح وقت پر صحیح کھلاڑی چننا اور موقع دینا یہ ضروری امر ہے نہ کہ پسند نہ پسند کی بنیاد پر کھلاڑیوں کا انتخاب۔ ہم نے نہ صرف بہت سے کھلاڑیوں کو ضائع کیا بلکہ بہت سے کھیلوں سے پاکستان کا نام تک مٹا دیا۔ کرکٹ میں فواد عالم اور تابش جیسے کھلاڑیوں کی مثال موجود ہے۔ ڈومیسٹک کرکٹ میں بے مثال کارکردگی مگر قومی ٹیم کے لیے کسی کو فواد عالم کی تیکنیک ہی سمجھ نہں آئی۔ اولمپکس کمیٹی کے سربراہ بھی ایک ایسے صاحب ہیں جنکہ نام پر کھیل کے میدان میں کوئی قابل ذکر کارنامہ نہیں۔ خود ایک دہائی سے زائد عرصہ گزرنے بعد بھی موصوف کوئی میڈل نہ لاسکے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا فٹبال دنیا کا سب سے مقبول کھیل اور مملکت خداد ماشاللہ ہمیشہ نیچے سے پہلے تین نمبروں پر آتی ہے۔ یہاں بھی ایک صالح جمہوریت پسند کھیل اور کھلاڑی دونوں کو فٹبال کھلاتا رہا۔ اب حال یہ ہے کہ کھیل اور کھلاڑی دونوں عالم پریشانی میں جبکہ کھیلوں کی وزارتیں روز بروز ترقی پر اور کیوں نہ ہو آخر سیاست بھی تو ایک کھیل ہی ہے۔
کھیلوں کا شعبہ آجکل کےدور میں خاصہ پیشہ ورانہ ہوگیا ہے۔ اب کھلاڑیوں کی خوراک انکی ذہنی مضبوطی اور مسلسل تربیت اور جدید تقاضوں کے مطابق انکو جدید سہولتوں کی فراہمی کے ذریعے ہی اس سخت مقابلے کی فضا میں مطلوبہ نتائج تک پہنچا جاسکتا ہے۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے صحیح جگہ پر صحیح آدمی کا انتخاب جو شاید مملکت خداد میں ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ ایک اور اہم بات جو شدید ضروری وہ یہ کے کھیل کے شعبے میں کھلاڑیوں کا مستقبل بھی مالی لحاظ سے محفوظ بنا جائے خصوصا انفرادی کھیلوں کا کیونکہ ہماری تاریخ گواہ کہ بہت سے قومی ہیروز کا آخری وقت گمنامی اور کسمپرسی میں گزرا۔ اسکا سدباب ہونا چاہیے۔ صرف کرکٹ کا کھیل ہی ایسا ہے جہاں چند کھلاڑی خوشحال بلکہ بہت زیادہ خوشحال نظر آتے ہیں۔ اگر ہم نی اب بھی اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا تو ہم اپنی آنے والی نسل سے کھیل کے میدانوں میں کار ہائے نمایاں انجام کی امید کیسے رکھیں گے۔
یاد رکھیں جس ملک کے میدان غیر آباد ہونگے وہاں کے ہسپتال ہی آباد ہونگے۔ اور انکو چلانے کے لیے بھی چندے کی ضرورت ہوگی۔