Karachi Ki Sarken
کراچی کی سڑکیں
صاحبو میں اور آپ روزانہ اپنے روزگار اور دیگر ضروریات کے حصول کے سلسلے میں شہر کراچی کی سڑکوں کی خاک چھانتے ہیں۔ خاک کا لفظ اس لیے بھی لکھا کہ اکثر سڑکوں پر خاک وافر مقدار میں ملتی ہے۔ اب آتے ہیں ٹریفک کے نظام کی طرف، آئے روز اکثر شاہراہوں پر ٹریفک جام کی شکایت ملتی ہیں، کبھی اعلی شخصیات کی نقل و حمل کبھی گیس کی لائن کا مسئلہ تو کبھی پانی کی پائپ لائن پھٹ جاتی ہے۔
کراچی کے جدی پشتی شہری اپنی عمر سے قطعہ نظر ایک دوسرے سے دست وگرییاں نظر آتے ہیں، "تو مجھے جانتا نہیں" اب ایک قومی استعارہ بن گیا ہے۔ سڑکوں پر جہاں گاڑیاں رواں دواں ہیں وہیں موٹر سائیکل سواروں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔ کچھ وجہ پیٹرول کی ترقی یافتہ قیمتوں کا بھی ہے۔ پھر موٹر سائیکل سوار سڑکوں پر اپنے ہنر تو دکھاتے ہی ہیں، فٹپاتھوں پر کمالات بھی انہی کا خاصہ ہیں۔
سڑکوں پر مخالف سمت سے آنا بھی موٹر سائیکل سواروں کی خاص خوبی ہے۔ چنچی رکشہ اور روایتی رکشہ بھی پیچھے نہیں۔ اگر غور کریں تو موٹر سائیکل سواروں سے زیادہ تعداد شاید ان رکشہ ڈرائیور کی ہے، ایک وجہ چنچی کا سستہ کرایہ جسنے اسے مقبول عام سواری بنادیا پھر ہمارے دیگر صوبوں سے روزگار کی تلاش میں آئے مہمان نقل و حمل کے اس ذریعہ پر چھا گئے۔ ان رکشے والوں کی ایک خاص خوبی ہے، قانونی پیچدگیوں سے قطعا نہیں گھبراتے بلکہ نئے راستے نکالتے ہیں، بس ابھی تک فٹپاتھ پر نہیں پہنچے۔
اب تو گاڑی چلاتے ہوئے ملک الموت سے زیادہ چنچی رکشے والوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے جانے کب اور کہاں سے آجائیں۔ صوبائی حکومت کی لال اور گلابی بسوں کا حسن بھی چنچی رکشوں کے سامنے مانند پڑگیا ہے۔ بہرحال سستی سواری نے عوام کے روزگار اور مہنگائی دونوں کا مسئلہ حل کردیا ہے۔ فلاحی تنظیموں نے روٹی اور رکشے فراہم کرکے عوام کی بڑی خدمت کی ہے۔
مگر سڑکوں پر بے تحاشا گاڑیاں، موٹر سائیکل اور رکشے ٹریفک کے نظام میں جمہوریت کو فروغ دے رہے ہیں اور عوام اب اپنے سڑکوں پر چھوٹے بڑے تصادم کے مسائل "تو مجھے جانتا نہیں ہے"کے فارمولے کے تحت حل کررہے ہیں اور رہ گئے حکام بالا جو پہلے ہی مالی مشکلات کا شکار ہیں وہ سب اچھا ہے کی مثبت سوچ پھیلارہے ہیں۔