Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Shariq Waqar
  4. Kanpati Tangen Ya Jhuki Gardane

Kanpati Tangen Ya Jhuki Gardane

کانپتی ٹانگیں یا جھکی گردنیں

صاحبوں تین اپریل سنہ 2022 بروز اتوار اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ کا ایک نہ بھولنے والا دن، وزیراعظم جناب عمران خان کے خلاف 196 اراکین پارلیمنٹ کی اجتماعی تحریک عدم اعتماد مستر د کردی گئی اور وزیراعظم کی سفارش پر جناب صدر نے اسمبلیاں تحلیل کردیں۔ ایک طرف یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ یہ سب آئینی ہے یا غیر آئینی، اس سارے عمل میں کس کا فائدہ ہوا کس کا نقصان؟ بحث جاری و ساری ہے۔

اگر حزب اختلاف کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو حزب اختلاف کا اصل ٹارگٹ خان حکومت کو ہٹانا تھا، اس میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی، دوسری طرف اگر وزیراعظم جناب عمران خان عدم اعتماد کا سامنا کرتے اور ممکنہ ناکامی صورت میں متحدہ حزب اختلاف کی نگران حکومت آجاتی تو ممکنہ وزیراعظم جناب شہباز شریف صاحب ہوتے اور مولانا فضل الرحمان صاحب جن کا نام ممکنہ صدر کے طور پر لیا جارہا تھا ان کی ازلی خواہش بھی پوری ہوجاتی، بہرحال کیا خوب کہا ہے شاعر نے۔

ہزاروں خواہشیں ایسی کے ہر خواہش پر دم نکلے

بہت نکلے میرے ارمان پھر بھی کم نکلے۔

اگر متحدہ حزب اختلاف کی نگراں حکومت آجاتی جس کی مدت قریباََ ڈیڑھ برس بنتی ہے تو اس میں عوام کی بہتری کے لیے تو کچھ نہ ہوتا بلکہ خان حکومت کا احتساب شروع ہوجاتا اگلے ڈیڑھ برس عوام کے سامنے خان حکومت کے خلاف شواہد ہی پیش کیے جارہے ہوتے، پھر نئے انتخابات کا وقت آجاتا، اس طرح شاید متحدہ حزب اختلاف اپنا ووٹ بینک مزید مستحکم کرلیتی اور شاید اگلے انتخابات میں کچھ بہتر نتائج حاصل کرلیتی۔ بہرحال پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔

اب آتے ہیں خان حکومت کی طرف، جس کے پاس موجودہ صورتحال میں تین راستے تھے اول یہ کے خان مستعفی ہو اور دوئم تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرے یا پھر تیسرا راستہ یعنی اسمبلیاں تحلیل کردے۔ مستعفی ہونا شاید خان صاحب کی عزت نفس کو گوارا نہ تھا کیونکہ خان آخری گیند تک لڑنا جانتا ہے۔ دوسرے راستے میں خان کو تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑتا جس میں ان کی شکست یقینی نظر آرہی تھی اور متحدہ حزب اختلاف وہی کرتی جو ان کا منصوبہ تھا یعنی خان کا احتساب۔ بہرحال لگتا ہے خان صاحب نے صورتحال کو بھانپ لیا تھا۔

تیسرا راستہ جو خان نے اختیار کیا اس کے لیے سارے حالات تیار ہوئے، سیاں جی کی چھٹی بھی آگئی، اور اسمبلیاں تحلیل ہوگئیں۔ اس تیسرے راستے میں خان حکومت کا بظاہر بڑا فائدہ نظر آتا ہے، معاشی اشارے مثبت ہونے کے دعوؤں کے باوجود عوامی سطح پر ہوشربا مہنگائی پر عوام میں خاصی پریشان دکھائی دے رہی تھی اور حکمرانی بقراط اپنی افلاطونی باتوں سے مہنگائی کے فوائد بیان کرکے عوام کو مطمئن کرنے کی لاحاصل کوشش کرتے نظر آتے تھے۔ مگر عوام ٹھہری سادہ لوح نہ سمجھی نہ سمجھ پائی۔

اب آیے اس تحلیل اسمبلی کی صورتحال اور نئے انتخابات کی صورت میں خان حکومت اپنے ان تمام انتخابی بیانیوں میں جہاں وہ ناکام نظر آتی تھی یعنی چور ڈاکوؤں کا احتساب مہنگائی سے نجات، ایک کروڑ نوکریاں وغیرہ وغیرہ ساری باتیں اب ملبے کے ڈھیر تلے دب گئیں اور خان کو اب ایک نیا بیانہ ملا یعنی ملکی سالمیت اور ہم ایک خوددار قوم ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ خان اس کے بعد اگلے انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کرے گا۔

مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کے معیشت پر کیا اثر ات پڑتے ہیں ؟ کیونکہ خان نے اپنے خلاف ہونے والی تحریک عدم اعتماد کا ذمہ دار امریکہ بہادر کو گردانا ہے، ڈالر امریکی اور ہماری معیشت کا بڑا حصہ امریکہ بہادر سے وابستہ ہے۔ رہا غیرجانبداروں کا معاملہ تو ان کے لیے شاید سانپ بھی مرگیا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹی۔ دوسری طرف اب متحدہ حزب اختلاف موجودہ صورتحال کو کیسے اپنے حق میں کرتی ہے اور اس کے لیے کیا حکمت عملی اپناتی ہے یہ دیکھنا ہوگا؟ کیونکہ متحدہ حزب اختلاف کا آدھا کام ہوگیا آدھا باقی ہےپر ابھی معیشت پر بڑا کام باقی ہے۔

Check Also

Insaf Kaise Milega?

By Rao Manzar Hayat