Hum Zinda Qaum Hain
ہم زندہ قوم ہیں
صاحبو پاکستان کا 75 واں یوم آزادی اور 74ویں سالگرہ 14گست 2021 کو کرونا زدہ وبائی ماحول میں منائی جارہی ہے۔ 74 سال پیشتر ہم نے انگریز سرکار اور ہندو سامراج سے کلمے کے نام پر یہ وطن حاصل کیا۔ ان 74 سالوں میں مملکت خداد نے بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے۔ 1971 میں ملک کا دو ٹکڑے ہوجانا ایک بہت ہی تکلیف دہ سانحہ تھا۔ جو پھانس کی طرح کی ہر محب وطن پاکستانی کے دل میں آج بھی چبھتا ہے۔
ان 74 سالوں میں مملکت خداد نے تین مارشل لاء اور اسکے علاوہ بہت سی جمہوریت کی دعویدار حکومتیں دیکھیں۔ ان 74 سالوں میں ہم نے بہت کچھ پایا پر بہت کچھ کھویا بھی۔ آج کے پاکستان کا اگر ہم دنیا کے دیگر ممالک سے موازنہ کریں تو ہم ترقی یافتہ نہیں بلکہ ترقی پزیر ممالک میں شمار کیے جائیں گے۔ ہم آج بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ عدالتی نظام دنیا میں 192 آزاد ممالک میں 121 نمبر ہے۔ ایمانداری میں اگر دنیا میں ہمارا نمبر لگایا جائے اگرچہ مملکت خداد میں حاجیوں اور تبلیغیوں اور مذہب پر کٹ مرنے والوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے۔ ہم آخری درجہ پر نظر آتے ہیں۔ ملاوٹ ذخیرہ اندوزی جھوٹ، مکر و فریب غرض ہر غیر اخلاقی بیماری ہمارے معاشرے میں نظر آتی ہے۔
کلمہ گوئی اور اسلامی نظام کے لیے ملک حاصل کیا پہلے مسلمان پھر پاکستانی ایک اہم شناخت پائی۔ مسلمانوں کی حیثیت سے تو ہم نے بہت سے فرقے بنا لیے حتی کہ ایکدوسرے کی مساجد میں نماز پڑھنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ اب بات کرتے ہیں پاکستانی ہونے کی تو ہم اب مہاجر، پنجابی، سندھی، پختون، بلوچی، سرائیکی اور نجانے کیا کیا ہیں۔ بس نادرا کے شناختی کارڈ پر شکر ہے پاکستانی لکھا ہے۔
انگریزوں سے وراثت میں ملے ہوئے ریلوے نظام کا یہ حال ہے کہ 74 سال سے جیسا ہے جہاں کی بنیاد پر چل رہا اور ہمارا یہ حال ہے کہ اگر کوئی حادثہ ہو تو وزیر ریلوے فرماتے ہیں کہ مجھے تو ٹرینوں کی تعداد کا بھی نہیں پتہ۔ جبکہ ایک اور وزیرکی شان بےنیازی دیکھیے فرماتی ہیں۔ الحمداللہ سال کا پہلا حادثہ ہے۔ اسی طرح اسٹیل مل، قومی ایرلاین جسنے دنیا کو ہوابازی کے بہترین ہنر مند مہیا کیے یہ دونوں ادارے آج سفید ہاتھی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ملک کا سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا شہر کراچی آج بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ شہر کی سڑکوں کو دیکھ کر ہڑپہ اور موہنجو داڑو کا گمان ہوتا ہے۔ کچرے کے بلند و بالا پہاڑ، ابلتے گٹر۔ ٹرانسپورٹ کی بڑھتی ہوئی ضروریات مگر پبلک ٹرانسپورٹ کا گوروں کے جانے کے بعد والا بوسیدہ نظام۔ یہ تو ایک بڑے شہر کا حال ہے ہیں چھوٹے شہروں میں تو بس انسانیت دم توڑتی نظر آتی ہے۔
بہرحال صاحب کچرے کے معاملے میں ہم بحیثیت قوم کسی شہر میں بھی پیچھے نہیں۔ حتی کہ سیاحتی مقامات پر بھی اپنی باقیات چھوڑ جاتے ہیں جو تصاویر میں ہریالئ میں کہیں دب جاتی ہے۔ہسپتالوں کا تو پوچھیے نہیں، بیچارے سیاستدانوں کو علاج کے لیے بیرون ملک جانا پڑتا ہے۔ یہ قدرت کا ایک عظیم معجزہ ہئ ہے کہ جسکی اسی فیصد دماغی شریانیں بند ہوں وہ عوامی لیڈر بنا ہوا ہے۔ یہ سارے معجزے مملکت خداد میں ہی ممکن ہیں۔
ہمارے لیڈران کے زبانی کلامی دعوے بھی اور بلند پروازی خیال بھی اس اعلی نوعیت کے ہوتے ہیں کہ سنکر آین اسٹاین کی روح بھی عالم بالا میں تڑپ جاتی ہوگی۔ کبھی چائنہ کا معاشی ماڈل کبھی ایران کا کبھی ترکی کا اور پھر ریاست مدینہ بنانے کا دعوی، سمجھ نہیں آتا آخر ہم بننا کیا چاہتے ہیں۔
بہرحال صاحب تمام باتیں اپنی جگہ پاکستان نے ہمیں دیا بہت کچھ۔ اس ملک نے ہر میدان میں چاہے وہ کھیل کا ہو یا ساینس کا، فنکار ہوں یا معیشت داں، ڈاکٹرز ہوں یا انجینئرز۔ ہر میدان میں گرانقدر قابل لوگوں سے نوازا جنھوں دنیا میں نام کمایا ۔ ڈاکٹر عبدالسلام، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، عبدالستار ایدھی، عمران خان، جہانگیر خان، جاوید میانداد۔ ڈاکٹر محبوب الحق اور بہت سے قبل احترام اور گرانقدر ہستیاں جنکا ذکر کرنے بیٹھے، تو صدیاں بیت جائیں۔ غرض ہر جگہ کوہ نور کا کوئی ہیرا چھپا ہوا ہے۔
بہرحال کیا خوب کہا ہے شاعر نے موج بڑھے یا آندھی آئے دیا جلائے رکھنا ہے گھر کی خاطر سو دکھ جھیلے گھرتو آخر اپنا ہے۔ آئیے اس چودہ اگست پر یہ عہد کریں کہ گذشہ 74 سالہ غلطیوں سے سبق سیکھے گے اور پاکستان کو ہر میدان میں پہلے نمبر پر لایئں گے۔ اور یہ ثابت کریں گے کہ ہم صرف گانوں میں نہیں واقعی میں زندہ قوم ہیں۔ اور ہم سب کی پے پہچان ہم سبکا پاکستان۔