Ghulami Ya Azadi
غلامی یا آزادی
صاحبوں جس وقت یہ کالم تحریر کیا جارہا ہے اس وقت پاکستان کے سابق وزیراعظم جناب عمران خان کا ایک ٹی وی چینل پر انٹرویو دیکھا اور سنا جارہا ہے جس میں بائیس کروڑ عوام کو باور کرایا جارہا تھا کہ عمران خان نے بائیس کروڑ عوام کو خوابِ غفلت سے جگایا ہے اور بتایا ہے کے غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہوجاؤ۔
محترم سابق وزیر اعظم صاحب نے اپنی ہر تقریر کی طرح یہ یاد دہانی بھی قوم کو کروائی کہ وہ سیاست میں کیوں آئے؟ اللہ نے ان کو عزت، دولت، شہرت سب کچھ دے رکھا تھا، پھر بھی بائیس سال جدوجہد کی اور پکڑ دھکڑ کر عوام کے منتخب کردہ وزیراعظم بنے۔ صاحب نے یہ بیان بھی فرمایا کہ ان کے والد نے ان کو بتایا کہ وہ خوش قسمت ہیں کہ انہوں نے ایک آزاد مملکت میں آنکھ کھولی، ان کے والد نے انہیں انگریز سرکار کی غلامی کی ہولناکیوں سے آگاہ کیا۔
پھر مزید آگاہی کے لیے ولایت آعلیٰ تعلیم کے لیے بھیج دیا جہاں موصوف نے زندگی کا بیشتر حصہ گزارا اور تعلیم چھوڑ کر کرکٹ میں لگ گئےاور اب مسلمانوں کو پھر سے دوبارہ، انگریزی غلامی سے نجات دلانا چاہتے ہیں صاحبوں یہ انکشافات سن کر آنکھیں بھر آئیں اور 1947 تک کی جدوجہد آزادی ایک فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے چل گئی۔
قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور ان کے رفقاء نے ایک آزاد ملک مسلمانوں کے لیے لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل کیا، جہاں وہ آزادی سے اپنے مذہبی عقائد کے مطابق زندگی گزاریں، خود کمائیں اور خود کھائیں۔ خواب پاکستان دیکھنے والے عظیم شاعر جناب علامہ اقبالؒ نے یورپ کے ایک ملک اسپین میں جہاں کبھی مسلمانوں کی حکومت تھی وہاں قرطبہ کی سات سو سال سے بند مسجد میں اذان دی۔
آج ہر پاکستانی مغرب کی اکثر شاہراہوں پر یہ فریضہ انجام دینا چاہتا ہے، سماجی میڈیا پر اکثر ایسی پوسٹیں آتی رہتی ہیں۔ اس خواہش میں گزشتہ ستر سالوں میں اتنی شدت آچکی ہے کہ ہر ہنرمند اور صاحب حیثیت کینیڈا، امریکہ یا کسی بھی مغربی ملک کی شہریت حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ مغرب کی کافرانہ فضاؤں میں آزان دے سکے اور مغرب کے غلامانہ فلسفے کو بہتر طریقے سے سمجھ سکے۔
صاحبوں راقم کا تعلق کسی سیاسی پارٹی سے نہیں پر اس بات کو ضرور مانتا ہے کہ مملکت خداداد میں صرف چند خاندانوں کی حکمرانی ہی کیوں؟ اور پھر بیرونی مداخلت اور سازشوں کا جال۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے 74 سال قبل انگریز کی غلامی سے نجات حاصل کی مگر پھر غلام بن گئے، جدوجہد آزادی کے دوران انگریزوں کے مقامی رفقاء جن کو نوابی اور جاگیریں عطا کی گئی، آج ان کی اولادیں اس ملک پر حاکم ہیں۔
ہم شاید آزاد ہوکر بھی آزاد نہیں۔ اب یہی دیکھیے ہماری سرکاری زبان انگریزی، تعلیمی نظام کیمبرج والا پسند کرتے ہیں۔ پیشہ ورانہ تعلیم کے میدان میں بھی مغربی درسگاہوں کے تعلیم یافتہ طالب علموں کو ترجیح دیتے ہیں، حتٰی کہ اپنی معیشت کو چلانے کے لیے بھی مغرب زدہ معیشت دانوں پر ہی بھروسا کرتے ہیں۔ طبی معمالات کا تو نہ پوچھیں اپنے ملک کے طریقہ علاج پر تو کبھی بھروسہ ہی نہیں کرتے کیا سیاست دان، کیا فنکار سب کو علاج کے لیے مغربی ملک جانا ہوتا ہے۔
دوائیں تک غیر ملکی پسند، حالانکہ طبی آلات بنا کر بیرون ملک بھیجتے ہیں۔ اپنے روپیہ کی قدر صرف قائد اعظم کی تصویر کی حد تک ہی کرتے ہیں۔ ورنہ سپنے تو ڈالر کے ہی دیکھتے ہیں۔ آمدورفت کے لیے جدید گاڑیاں بھی غیر ملکی تیکنکی مہارت والی پسند کرتے ہیں۔ پہناوا بھی جدید غیر ملکی برانڈ کا۔ پینے کا معدنی پانی بہلے مملکت خداداد کا ہی ہو مگر کسی کافرانہ مزاج کمپنی کا ہے تو بھروسہ مند سمجھتے ہیں۔
ہماری عبادات بھی شاید مغرب اور مغرب زدہ ممالک کی مرہون منت ہیں جائے نماز چائنہ، ٹوپیاں چائنہ، تسبیح چائنہ۔ مساجد میں برقی آلات مغربی، موبائل فون پر انٹرنیٹ پر قرآن کی تلاوت یعنی مغربی فون۔ خود کہ شہروں میں غلاظت کے ڈھیر، غربت عروج پر، تعلیمی استحصال عروج پر، مگر آزادی چاہیے۔ چلیے خود کے شہروں میں صفائی ستھرائی کا نظام اسلامی اصولوں پر تو کرسکتے تھے وہاں تو کوئی مداخلت یا مغربی سازش نہیں تھی۔ پر صاحب ہم تو بس یہی سمجھتے ہیں کہ قربانی کی بانہوں میں ملتی ہے آزادی۔